جو کسی خزانے کی تلاش میں نکلا ہو اور طویل سفر کی تھکاوٹ اسے بوجھل کر دے۔جس کا دل خوف و خدشات سے لبریز ہو،سب کچھ کھو دینے کا خوف،منزل نہ ملنے کا خوف۔۔۔۔۔۔
صحرا کی تپتی ریت پر اس کے قدم ٹھوکر کھا کر ڈگمگائیں۔اس ٹھوکر سے ریت میں چھپے چند سونے کے سکوں کو پا کر وہ شخص خوشی سے ان سکوں کے سنگ گھر لوٹ جاتا ہے جبکہ کچھ ہی دوری پر تو خزانہ تھا وہ سکے تو اس کا امتحان تھے۔ مگر اس سمندر کی تلاش پر نکلنے والے نے راستے میں ملنے والے سرابوں پر قناعت کر کے سفر کو رائگاں کر دیا۔
اگر قدرت نے آپ کو صحرا میں چھوڑ دیا ہے تو باغوں کے خوابوں میں کھوئے رہنے سے بہتر ہے صحرا کی زبان کو سمجھنا شروع کر دیں۔ لامتناہی وسعت کے حامل اس صحرا سے نہیں لڑ سکتے تو ایک ذرے سے لڑنا شروع کر دو اور خود کو احساس دلاتے رہو کہ یہ صحرا آپ کی ہمت کے آگے گھٹنے ضرور ٹیکے گا منزل پر پہنچنے پر آپ کو معلوم ہو گا کہ اس صحرا میں بیتا ہوا ہر لمحہ آپ کے خواب کا جزو تھا۔ہر دن کی کوشش ہر دن کو روشن کرتی جائے گی۔اس دور کے نوجوانوں کو سب سے زیادہ فوجیوں نے متاثر کیا ہے۔میں نے بارہا جوان نسلوں کو فوجیوں کی تعریفیں کرتے سنا ہے۔جو لوگ پوری محنت اور لگن سے آرمی میں بھرتی ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی معمولی نقص کی وجہ سے نامنظور کر دیے جاتے ہیں وہ مایوس ہو جاتے ہیں۔کسی لڑکی کے لئے فوجی کا رشتہ آنا اس کی قسمت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔کیوں؟؟؟ ایسا کونسا تاثر ہے جو آپ کو اس فین ڈم کے دائرے میں لے آیا ہے؟اس کا ایک ہی جواب ہے کیونکہ فطرتاً انسان محب وطن ہے اور اپنے ملک کی ترقی اور حفاظت کے لئے کام کرنا ایک مقدس فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ‘فوج’ ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک طرز زندگی ہے۔جو انسان کو ایک مختلف سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔آج میں آپ کو بتاؤں گی کہ وردی کے بغیر بھی آپ فوجی کیسے بن سکتے ہیں۔آپ کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں آپ کا بنیادی مقصد ملک کا دفاع ہونا چاہیے۔اور دفاع کے معنی بچاؤ کے ہیں۔آپ سرحد پر دشمنوں سے تو ملک کی حفاظت نہیں کر رہے کیونکہ آپ کے پاس وردی نہیں ہے۔مگر آپ اپنے پیشے کے مطابق بھی ملک کا دفاع کر سکتے ہیں۔اگر آپ استاد ہیں تو بہت سے ذہنوں کی تاریکیوں کو مٹا کر انہیں مثبت راہ دکھا سکتے ہیں۔ایک انسان میں انسانیت جگا کر بھی آپ ملک کا دفاع ہی تو کر رہے ہیں۔ایک طالب علم کی ایسی تربیت کر سکتے ہیں کے کل کو وہ سڑک پر ہوئے کسی حادثے کے باعث تڑپتے کسی انسان کی ویڈیو بنانے کی بجائے اس کی زندگی کے لئے بھاگ دوڑ کرے۔کیا آج استاد طالب علموں کی ایسی تربیت کرتے ہیں؟؟ان کے اندر کچھ کرنے کی امید جگاتے ہیں؟؟ایسے استاد آپ نے کم ہی دیکھے ہوں گے۔اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو بھی آپ اپنے ملک کا دفاع کر سکتے ہیں۔سردی،گرمی ،تہوار کسی بھی چیز کی پرواہ کئے بغیر جب ایک ڈاکٹر اپنے مریضوں کی خدمت میں لگا رہتا ہے تو وہ بھی کسی فوجی سے کم نہیں ہوتا۔لیکن آج بیماریوں سے پریشان مریضوں کو جب ڈاکٹر ڈانٹتے ہیں یا کچھ پیسوں کے لئے انہیں غلط مشورے دیتے ہیں تو بہت افسوس ہوتا ہے اور آجکل زیادہ تر ڈاکٹر آپ کو مفاد پرست ہی ملیں گے۔اگر آپ وکیل ہیں تو انصاف کے لئے لڑ کر لوگوں کا دفاع کر سکتے ہیں۔اگر آپ کا ذہن رشوت کے جالوں سے پاک ہے تو وکالت بھی ایک مقدس پیشہ ہے۔غرضیکہ پیشہ کوئی بھی ہو آپ کی نیت اسے پیشے کا مقام طے کرتی ہے۔آپ اپنے تعلیمی دور میں بھی فوجی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔فوجی زندگی جانفشانی اور محنت مانگتی ہے۔تعلیمی دور میں آپ ملک کی ترقی کے لئے اپنے آپ سے لڑتے ہیں۔دوسرے بہت سے طالب علموں کی طرح سیر وتفریح میں وقت نہیں گزارتے اپنے لئے آسانیاں نہیں ڈھونڈتے۔اپنے من کو مار کر خود کو مشقت کی بھٹی میں جلاتے ہیں تاکہ کل کو آپ کی قوم کو آپ کی ذات سے فائدہ حاصل ہو تو آپ بھی کسی فوجی سے کم نہیں۔بلند حوصلہ رکھنے والے نوجوانوں کے لئے فوج ایک پرکشش پیشہ ہے مگر ہر انسان کو اس دنیا میں الگ مقصد کے لئے بھیجا گیا ہے۔ہر انسان فوج کی وردی تو نہیں پہن سکتا مگر ہر انسان خود کو ایک نظم و ضبط دے سکتا ہے۔اور اپنی نمایاں حیثیت کو منوا سکتا ہے۔ہر انسان مختلف حالات سے گزرتا ہے آپ کسی کے لئے کچھ بھی ہوں مگر یاد رکھیں آپ کی ایک کہانی ہے اور اپنی اس کہانی میں آپ کو ہیرو کا کردار ادا کرنا ہے۔
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً.
Previous Articleچکرویو از قلم ملائکہ حورین
Next Article A Dreamer By Maha Anaya