“زندگی بہت عجیب ہے بہت زیادہ اس کو سمجھنے لگو گئے تو کبھی سمجھ نہیں آئے گی لیکن جب یہ اپنے طریقے سے سمجھاتی ہے تو ہر بات عقل میں گھسنے لگتی ہے اور جب وہ سمجھاتی ہے نہ تب بہت سی تباہیاں آتی ہیں اور جب ہم سمجھ چکے ہوتے ہیں تب سب کچھ تباہ ہو گیا ہوتا ہے” گیلی سڑک پر وہ ایک کے بعد ایک قدم اٹھاتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ بھی کوئی چل رہا تھا یا بھاگ رہا تھا اس کے قدموں کی چاپ اس سے بھی زیادہ تھی۔
“میں نے تم سے زندگی کے بارے میں ایک سوال پوچھا تھا تم اتنی تلخ کیوں ہو رہی ہو؟” ساتھ چلنے والی لڑکی نے تیز قدم اٹھاتے ہوئے کہا اس نے ایک قہر آلود نظر ساتھ چلنے والی لڑکی پر ڈالی وہ کندھے اچکا کر پھر سے چلنے لگی تھی۔
“ویسے تم جا کہاں رہی ہو ہاتھوں میں سرخ رنگ کے پھول بھی ہیں؟” اس نے مشکوک لہجے میں پوچھا۔
“تم میرا پیچھا کیوں کر رہی ہو؟” وہ رک گئی تھی پھولوں کو دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے اس نے پہلے والے ہاتھ کو کوٹ کی جیب میں ڈال کر اسے گرمائش دینا چاہی۔
“میرا دل کر رہا ہے میں آج یوہی سڑکوں پر مٹر گشتی کروں” اس نے بازو کھول کر ہوا میں بلند کرتے ہوئے کہا وہ اس کی اس ادا پر سر جھٹکتی ہوئی آگے بڑھ گئی تھی۔
“اچھا سنو آدرش ۔۔۔ وہ بھاگتی ہوئی اس کے ہمقدم ہوئی تھی۔
“ویسے تم چاہو تو میں تمہیں كمپنی دے سکتی ہوں ۔۔۔۔ چلو دے ہی دیتی ہوں کیا یاد کرو گی” اِنسا نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے اس پر احسان کرنے والے انداز میں کہا۔ چلتے چلتے وہ رک گئی تھی اس کی منزل آ گئی تھی۔
“تمہاری منزل یہ ہے ؟” اِنسا نے حیران ہوتے ہوئے اس خاموش قبرستان کو دیکھا جہاں وہ آنکھوں میں نمی لیے کھڑی تھی۔ اس کی بات کا جواب دیے بغیر وہ آگے بڑھ گئی تھی اِنسا بھی مفرل گلے سے نکالے سر پر لیے اس کے پیچھے گئی تھی وہ ایک قبر پر رک گئی تھی جس پر کوئی شناخت نہیں تھی۔ آدرش نے پھول رکھتے ہوئے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے۔ اِنسا نے بھی اس کی تقلید کی تھی۔ دعا مانگنے کے بعد وہ کئی لمحے اس قبر کو نم آنکھوں سے دیکھتی رہی تھی نہ جانے وہ دل ہی دل میں اس سے کیا باتیں کر رہی تھی کچھ آنسو بہہ گئے تھے مگر نہ جانے ان آنکھوں میں کیا کیا ڈوب رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر دعا مانگے قبرستان سے باہر آ گئی تھی اِنسا اس سے پہلے ہی باہر تھی۔
“کیا تمہاری منزل یہ نہیں ہے؟ کیا ہماری منزل یہ نہیں ہے؟” اس بار سوال آدرش نے کیا تھا۔ اِنسا نے اس کی طرف دیکھا تھا مگر جواب میں کچھ بھی نہیں کہا تھا۔
“اِنسا ہم سب کی منزل یہی ہے ہم سب نے ایک دن یہاں پہنچنا ہے تو پھر غرور کس بات کا انا کس کام کی یہ دھوکہ فریب یہ لالچ کس مقام کے؟ یہ رتبہ شہرت کس نام کے؟۔۔۔ جب ہم نے خالی ہاتھ ہی لوٹنا ہے تو پھر ان آسائیشوں کو اکھٹا کرنا کس کام کا” وہ چلتے چلتے ایک خوبصورت عمارت کے سامنے سنگی بینچ پر بیٹھ گئی تھی۔
“وہ کس کی قبر تھی؟” تم تو اس ملک میں بالکل اکیلی آئی تھی۔
“میں نہیں جانتی وہ قبر کس کی تھی وہ ایک انجان شخصیت تھی” آدرش نے کندھے اچکاتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔
“تم کہہ رہی ہو تم اس کو نہیں جانتی لیکن تم اس کی قبر پر کھڑی پندرہ منٹ تک آنسو بہاتی رہی ہو” اِنسا جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔
“میں نے اس لڑکی کو مسکراتے ہوئے سڑک پار کرتے ہوئے دیکھا تھا اور پھر دوسرے ہی لمحے میں نے اسے ہوا میں اُڑتے ہوئے دیکھا اور پھر تیسرے لمحے میں نے اسے کسی اور گاڑی کے نیچے آتے ہوئے دیکھا اور پھر چوتھے لمحے میں نے لوگوں کے ہجوم کو اکھٹا ہوتے ہوئے دیکھا پانچویں لمحے میں میں نے اپنے اعصاب کنٹرول میں آتے ہوئے محسوس کیے اور چھٹے لمحے میں میں نے خود کو اس کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا اور ساتویں اور میری زندگی میں اس کے آخری لمحے میں میں نے اسے ہچکی لیتے ہوئے دیکھا اور اس کی کہانی ختم ہو گئی اس کی زندگی کا رنگ سیاہ ہو گیا اس کا وجود اس دنیا سے مٹ گیا اس کی کہانی دوسرے لوگوں کی کتاب میں تمام ہو گئی” اِنسا کو سمجھ نہ آئی کہ وہ اس کے آنسو پونچنے کے لیے کیا تسلی دے اس کے اپنے رونگھٹے کھڑے ہو گئے تھے۔
“مجھے پتا ہے کیا بات زیادہ دکھ دے رہی ہے؟” اِنسا نے سر اثبات میں ہلا کر پوچھا۔
“پرائے شہر میں یوں بے نام موت مر جانا یوں انجان موت پر کوئی بھی آپ کا اپنا نہ ہو آپ کی میت پر رونے والا کوئی نہ ہو آپ اتنی اچانک سے چلے جاؤ کہ آپ کے پیاروں کو آپ کے گھر والوں کو خبر تک نہ ہو ” اس نے آنکھیں بند کر کے آنسوؤں کو بہنے دیا تھا۔
“اس لڑکی کی شناخت نہیں ہو پائی تھی اس کا چہرہ بری طرح مسخ ہو گیا تھا اس کو ایک لاوارث کی طرح جلدی دفنا دیا گیا تھا۔ میں سوچتی ہوں جب اس کے گھر والوں کو پتہ چلے گا تو وہ صبر کیسے کریں گے انہیں تو یقین ہی نہیں آئے گا کہ ان کی بیٹی انجان ملک میں مر چکی ہے اور وہی پر دفنا بھی دی گئی ہے۔ کیا تم اس کی ماں کو تسلی کے چند بول دے سکتی ہو؟” وہ اس سے پوچھ رہی تھی جو اس کی باتوں پر گنگ ہو گئی تھی۔
“زندگی ختم ہونے کے لیے سات لمحے نہیں ہوتے زندگی ختم ہو جانے کے لیے ایک لمحہ ہی بہت ہوتا ہے میری زندگی میں وہ سات لمحے ٹھہر گئے ہیں لیکن اس کی زندگی ختم ہونے میں ایک لمحہ لگا تھا۔” اس نے ایک سرد سانس اندر کھینچی تھی۔
“یہ دنیا کچھ بھی نہیں ہے اصل منزل وہی ہے جہاں ہم سب نے باری باری جانا ہے جو چیز یہاں غور کرنے کی ہے کہ ہم بالکل تیار نہیں ہوتے ہم نے آخرت کے لیے کچھ تیاری نہیں کی ہوتی اور موت اتنی اچانک آتی ہے کہ ہمیں موقع دیے بغیر ہمیں اپنی آغوش میں لے کر چلی جاتی ہے۔”
“یہ زندگی صرف امتحان ہے” اس نے اِنسا کو بولتے ہوئے سنا۔
“ہم جو کہتے ہیں ہم نے اس کے ساتھ اچھا کیا ہمیں صلہ نہیں ملا کوئی ہمارے ساتھ بُرا کرتا ہے اور ہم ان کو سزا نہیں دے پاتے یقین جانو ہماری ایک ایک ریاضت کا جواب ہمیں آخرت میں دے دیا جائے گا ہمیں اچھے کام کر کے نتائج کی فکر نہیں کرنی چاہیے وہ اللّه بڑا رحیم ہے وہ ہمیں ایک ایک نیکی اور ہر ہر آنسو پر صبر کا اجر دے دے گا قرآن پاک کی سورت الضحی کی آیت نمبر چار اور پانچ میں اللّه تعالی بیان فرماتے ہیں۔”
“اور آخرت تمہارے لیے پہلی (حالت یعنی دنیا) سے بہت بہتر ہے۔ اور تمہیں پروردگار عنقریب وہ کچھ عطاء فرمائے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔”
“میری ایک دوست اورکولیگ تھی ہم سے جونیئر تھی۔ بہت اچھی تھی اخلاق اس کا بہت اچھا تھامیری اس سے آخری بات اس دن ہوئی تھی جس دن اُس کا اِس دنیا میں آخری دن تھا ۔اس کا نام سعدیہ نزاکت تھا۔رات کو موبائل دیکھا تو یونیورسٹی کے گروپ میں اس کا یونیورسٹی کارڈ گردش کر رہا تھاجس کے نیچے کیپشن لکھی تھی۔ یہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی لڑکی تھی اس کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا اور موقع پر ہی ڈیتھ ہو گئی۔ میں نے زوم کر کے دیکھا تو مجھے یقین نہ آیا ایسے کیسے ہو سکتا ہے میری آج ہی اس سے بات ہوئی ہے ایسے کیسے کچھ پلوں میں کہانی پلٹ گئی کیسے لمحوں میں کہانی اختتام پر پہنچ گئی نہیں اس کو کچھ نہیں ہو ا ہو گاوہ ٹھیک ہو گی کہیں نہ کہیں دل امید دے رہا تھا مگر خبر پختہ ہو گئی تھی وہ واقعی چلی گئی تھی۔میں اپنی ماما کے گلے لگ کررو دی تھی میرے دل میں ایک درد سی اٹھی تھی مجھے اس کی ماں کا خیال آیا تھا اس کی ماں اس کا انتظار کر رہی ہو گی اور اس کی ماں نے کب سوچا ہو گا کہ وہ خود نہیں کسی کے کندھوں پر سوار ہو کر آئے گی اور اس کو اس کی آخری منزل کی طرف رخصت کرنا پڑے گا۔ نہ گھر میں مجھے چین آ رہا تھا نہ میری ماما کو میری ماما مجھے گھر سے لے کر نکلی کہ میں اسے دیکھ لوں جا کر تا کہ مجھے یقین آ جائے ہم اس کی کزن سے گھر کا پوچھتے ہوئے وہاں پہنچے ہمارے ساتھ میری ایک اور کولیگ تھی۔وہ بہت دور رہتی تھی اس کی پڑھائی کے پیچھے کی لگن دیکھ کر ہم حیران ہوئے تھے وہ بہت دور سے آتی جاتی تھی اور راستے بھی بہت خطرناک تھے۔گھر پہنچے تو جنازہ اٹھا لیا گیا تھا جنازہ ابھی راستے میں ہی تھا کہ ہم نے وہی رکوا کر دیکھ لیا اس کے گھر پہنچے تو اس کی ماں کو دیکھ کر دل اور خون کے آنسورویا تھا اس کی ماں ہم سے ایسے ملی جیسے ہم ان کے لیے سعدیہ ہوں وہ سعدیہ کی سہیلی کہہ کہہ کر ہمیں بار بار گلے لگا رہی تھیں۔” آنکھوں سے خاموش آنسو بہہ رہے تھے۔
“اس کی ماں کے الفاظ پتہ کیاتھے؟”
“کیا؟”اِنسا کے لب با مشکل ہلے تھے۔
“میری سعدیہ کی تم سے کیا بات ہوئی ؟ کیا کہا اس نے تم سے ؟ مجھے بتاؤ میری سعدیہ کیا کہتی تھی۔ہم ان کو بتاتے تو بڑے غور سے سنتی تھیں۔پھر خودہی سعدیہ کی باتیں بتانے لگ جاتی تھی۔”
کہتی امی میں آپ کو تین منٹ میں یسین سناؤں گی آپ سننا مجھ سے۔۔۔میں نے کہا جاؤ تین منٹ میں نہیں سنا سکتی تم کہتی امی سنونا۔۔۔میں نے سنی تو اس نے تین منٹ کے اندر اندر ہی سنائی تھی اور پھر یونیورسٹی کے لیے تیار ہونے لگی تو کہتی امی میرا چاول کھانے کو دل کر رہا ہے آج چاول بنانا ۔۔۔وہ کہتی میں چاول بنا کر انتظار ہی کرتی رہ گئی اور میری بیٹی گھر لوٹی ہی نہیں اس نے چاول کھائے ہی نہیں پتہ نہیں میری بیٹی نے کچھ کھایا ہو گا یا نہیں؟”
“میری سعدیہ دروازے سے بھی باہر جھانک کر نہیں دیکھتی تھی کسی کو پتہ تک نہیں تھا کہ اس گھر میں کوئی سعدیہ بھی رہتی ہےفیشن کا کوئی پتہ نہیں تھا بہت سادھا تھی کبھی تصویر بھی نہیں بنائی تھی۔” اس ماں کے پاس بس اس کی یادیں رہ گئی تھی اس کی چیزوں کودیکھ دیکھ کر ترسنا رہ گیا تھا۔آنکھیں نم تھیں لیکن دل میں ایک تکلیف اٹھی تھی۔
“ہم جس چیز سے خوف کھاتے ہیں وہی ہماری کہانی تمام کرتے ہیں۔ اور اس کی کہانی بھی اس کے ساتھ چمٹے خوف نے فنا کر دی تھی۔”
“اس کا ایک دفعہ رکشہ میں ایکسیڈینٹ ہوا تھااور وہ اس سے خوف کھانے لگی تھی۔اس میں بیٹھنے سے بہت ڈرتی تھی۔ پھر لوکل بس وغیرہ میں ٹریول کرنے لگ گئی تھی اس دن بھی وہ بس میں سوار تھی لیکن وہ ٹائم والی بس میں بیٹھ گئی تھی۔جس نے اپنے وقت پر کہی پہنچنا ہوتا ہے۔اس کو آخری سفر تک پہنچانے کے لیے وہ بس ذریعہ بن گئی تھی۔اپنے سٹاپ سے وہ آگے چلی گئی تھی ٹول پلازہ پر جب گاڑی رکی تو اس نے اترنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی وہ بس چل پڑی اور وہ پلر سے ٹکرائی اور نیچے گرگئی اور کچھ ہچکیوں کی کہانی کے بعد اس کی کہانی ہر ایک کی کتاب میں فنا ہو گئی۔”آدرش نے ایک گیلی سانس اندر کو کھینچی تھی۔
“تم نے اس سے کیا اخذ کیا؟”اِنسا کو گم سم سا دیکھے آدرش نے پوچھا؟”
“کہ موت انسان کے پاس نہیں آتی انسان خود چل کر موت کے پاس جاتا ہے۔”اِنسا کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے تَر تھیں۔
“ایک دن خواب میں میں ان کے گھر گئی تھی۔میں اس کی امی سے ملی اور میں ان سے کہہ رہی تھی کہ مجھے سعدیہ سے ملنا ہے تو انہوں نے پتہ نہیں کس دل سے کہا کہ اب وہ یہاں نہیں رہتی ہے۔ صبح میں نے اس کی شروع سے ساری چیٹ پڑھی۔آپی کہتے کہتے اس کی زبان نہیں تھکتی تھی۔”
“ہماری کہانیوں میں وہ ایک یاد بن کر رہ گئی تھی۔”
“کسی کی نظر میں اس کےبھی وہ آخری سات لمحے ٹھہر گئے ہوں گے۔کسی نے اپنے سامنے اس کا جانا بھی دیکھا ہو گا۔کسی کی آنکھوں میں وہ ہولناک سا منظر رہ گیا ہو گا۔کسی کےدماغ میں یہ سوال گردش کرتا ہوا رہ گیا ہو گا کہ اس نے کب سوچا تھا یہ سفر اس کا آخری ہو گا۔”
ہمیں تین دعائیں روزانہ پڑھنی چاہیے اور کثرت سے پڑھنی چاہیے ہمیں نہیں پتہ موت کب ہمارے دروازے پر آکر چُھپکے سے کھڑی ہو جائےاور ہمیں موقع دیے بغیر ہمیں اپنے ساتھ لے جائے۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُسْنَ الْخَاتِمَةِ
اے اللہ میں تجھ سے اچھے خاتمے کا سوال کرتی ہوں
يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ
اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو دین پر قائم رکھنا
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تَوْبَتًا نَصُوْحًا قَبْلَ الْمَوْتِ
اے اللہ میں آپ سے سچی توبہ کا سوال کرتی ہوں موت سے پہلے
اس کو دعائیں پڑھنے کا کہتے ہوئے دل پر بوجھ لیے وہ وہاں سے اٹھ گئی تھی۔
“کہاں جا رہی ہو؟” وہ اٹھی تو اِنسا نے پوچھا وہ ابھی اسے اور سننا چاہتی تھی۔
“پولیس سٹیشن ۔۔۔ میں وہاں جا کر اس لڑکی کہ بارے میں دریافت کروں گی کہ آیا وہ پاکستان سے ہوئی تو میں اس کے گھر والوں سے مل کر ان کو تسلی کے بول میں اپنے وہ ٹھہرے ہوئے سات لمحوں کی داستان سنانا چاہتی ہوں” مرنے والے کہ آخری لمحے اور آخری الفاظ پیچھے رہ جانے والوں کے صبر پر ٹھنڈی پهوار کی طرح لگتے ہیں اور پھر انھیں یقین آنے لگتا ہے وہ بار بار وہ الفاظ سننا چاہتے ہیں کہ ان کے عزیز کے آخری الفاظ کیا تھے۔” وہ اٹھ گئی تھی دونوں ہاتھ کوٹ کی جیب میں ڈالے وہ آگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ رک گئی اور اس کی طرف جھکتے ہوئے سرگوشیانا لہجے میں بولی۔
“جب کسی سے پہلی اور آخری بار ملو تو ان کے چہرے حفظ کر لیا کرو کیا پتہ تم وہ چہرہ آخری بار دیکھ رہے ہو۔”
وہ چلی گئی تھی اس کے قدموں کی چاپ اب دور ہو رہی تھی اور اِنسا سنگی بینچ پر بیٹھی اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی اس نے چہرے پر ہاتھ لگایا تو اسے اپنا چہرہ نم لگا تھا وہ زندگی کے رنگوں کا محاسبہ کرنے لگی تھی اس نے آج یہ سیکھا تھا کہ سنبھل جانے میں زیادہ دیر نہیں لگانی چاہیے ورنہ زندگی مہلت نہیں دیتی جو روٹھے ہیں اور ناراض ہیں ان کو منا لینا چاہیے جو نفرت کے قابل ہیں انہیں محبت سے پکار لینا چاہیے جو ہماری زندگی جھوٹ ہے اسے سچ کا آئینہ پیش کر دینا چاہیے ہمیں آخرت کے لیے خود کو تیار کر لینا چاہیے کسی کے ساتھ غلط کرنے سے پہلے سو بار سوچ لینا چاہیے کیوں کہ آخرت میں ہمیں ہر سوال کا حساب دینا پڑے گا اس نے فون اٹھا کر اپنی ماں کا نمبر ملایا تھا کال اٹھاتے ہی اس نے معافی طلب کی تھی اور مائیں تو اپنا خون بھی معاف کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔
“تم آج بھی یاد ہو آج بھی ذہن کے پردوں پر تازہ ہوسعدیہ نزاکت تم نہ بھولنے والا ایک خواب ہو اللہ تمہارے درجات بلند کرے”قدم پولیس اسٹیشن کی طرف اٹھ رہے تھےمگر ذہن کے پردوں میں وہی لہرا رہی تھی۔
بن جاتے ہیں فلسفہ مرنے کے بعد
زندہ ہوں تو حقیقت کون تسلیم کرتاہے
فقیہہ بتول
29 Comments
Good .Really you are a great writer .Allah give u more success.ameen
JazaKAllah Bahi
REVIEW YOUR OPINION OVER HERE.
AND RELATE THE INCIDENT THAT HAPPENED IN YOUR LIFE LIKE THIS.
کوئی ایسا جو آپ کی زندگی سے اتنی خاموشی سے چلا گیا ہو۔کوئی ایسا جس کے ساتھ بچپن گزرا ہو اور اس کے چلے جانے کا یقین نہ آیا ہو۔ آپنی زندگی میں موجود ایسی کہانی جو آپ اس افسانے سے ریلیٹ کرنا چاہتے ہوں تو یہاں کمینٹ سیکشن میں
لکھ سکتے ہیں یا پھر آپ پوری کہانی بھی لکھ سکتے ہیں اور مجھ سے رابطہ کر کے اسے ویب پر اپلوڈ بھی کروا سکتے ہیں۔
فقیہہ بتول
Heart breaking 💔
Nicely written and accurately portray the emotions 💕
Ufff goosebumps…❤️🥺writer faqeeha
بہت خوبصورتی اور نفاست سے لکھا گیا ہے❤️🥺 واقعی یہ حادثہ تو ہوا تھا ایک بار🥺
Heart breaking 💔
Nicely written and accurately portray the emotions 💕
🥀ٹھہرے ہوئے سات لمحے
Zindgi ki haqiqat bs itni arzi hy zindgi 💔
اور یہی سانس تک زندگی ہے
سنو نبھاؤ وفا ہر پل زندگی ہے
حیات سے وفا
فقیہہ بتول
It’s so beautiful 😍❤️
Awesome story 👏
بہت پر اثر ہے اور آجکل میری بھی کچھ ایسی ہی ذہنی حالت چل رہی ہے بات بات پہ میں مرنے کی بات کر رہی ہوں لیکن میرے پاس اس کی کوئی تیاری نہیں ہے ابھی آج ہی ہماری ہمارے ریلیٹوز میں ایک سڈن ڈیتھ ہوئی ہے اور مجھے یقین نہیں آرہا کہ کیسے ایک لمحے میں زندگی ختم ہو گئی اور پھر آپ کی تحریر پڑھ کے اور بھی بوجھ بڑھ گیا ہے کہ میرے پاس کوئی تیاری نہیں ہے اپنی منزل کی ۔۔۔۔۔۔
ہم دنیاوی کاموں میں لگے اپنی اصل منزل کو بھول جاتے ہیں۔
Heart breaking 💔
Nicely written and accurately portray the emotions 💕
True story always has emotions🌸
And this story made my cry😭. The reason was not the story only but the way of writing as well🌺. Keep it up girl
JazakAllah 🌼🌸
wo tahry howy zindgi ky 7 lamhy uff kia story or is sy bi ziada lafzon ka melap keep it up dear . zindgi ki haqiqat . Bahla zindgi NY bi wafa ki kise sy .
Ufff goosebumps ❤️🥺 Writer Faqeeha kia bat ha apki❤️
❗🫀وہ ٹھہرے ہوئے سات لمحے
Such a great writer you are❤️ How beautifully you delivered a message🤍
You just nailed it my girl💜 you deserve more more and more success💜 Allah bless you ❤️ Ameen and how we can forget this incident 💔 May اللّه پاک grant Sadia Nazakat a high place in heaven🌸 Ameen
I am so proud of you my dear daughter♥️ Allah tumhay iise tarhan kamyab keray Ameen♥️♥️
Ameen My support system
❤️😘
Allah pak apko kamyab kry ameen sumaneen
Allah pak apko kamyab kry ameen sumameeen
I am so proud of you my dear cousin Allah pak ap ko isi tarh kamyaab karyy Ameen 🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰
My heart is bleeding💔 I was literally crying after reading this 🥺 I was just thinking about her mother that how she will be able to survive without her daughter💔
Heartbreaking💔 May Allah grant her high rank in Jannah🌸 Ameen🤍
good afsana realy heart teaching