اس پھول کو گل دوپہری کہا جاتا ہے۔
اسکا رنگ بہت زیادہ پر کشش ہے اسکو دیکھ کر طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔ میں جب کالج سے گھر آتی تھی دوپہر کے وقت گرمی میں تھکی ہاری تو یہ پھول سامنے ہوتے تھے انہیں دیکھ کر آنکھوں میں چمک آ جاتی تھی۔ یہ چیز حقیقی ہے کہ جب آپ قدرت کو دیکھتے ہیں تو آپ بہت ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔ ایسی چیزیں آنکھوں کو بہت بھاتی ہے دل خوش ہو جاتا ہے۔
لیکن اس پھول کی ایک خاصیت ہے کہ جیسے ہی شام کے سائے منڈلانے لگتے ہیں ویسے ہی یہ پھول اپنے خول میں بند ہونا شروع ہو جاتا ہے اور یہاں دن کی روشنی گئی وہیں پہ اس پھول کی خوبصورتی ختم ۔۔۔۔!
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ خاصیت کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ دن ختم ہونے کے ساتھ ختم ہو جاتا۔
تو خاصیت ایسے ہے کہ یہ ہمیں زندگی کا ایک بہت اہم سبق سیکھا کر ختم ہو جاتا ہے۔
کیسے؟
اس کا جواب بھی ہے۔
اس دنیا میں ایک بچے کی حیثیت سے آپ آتے ہیں آہستہ آہستہ آپ بڑے ہوتے ہیں اور بہت کچھ سیکھتے ہیں اس میں آپکے والدین، آپکا خاندان سب کا کچھ نا کچھ حصہ ہوتا جو آپ سیکھتے ہیں لیکن سب سے اہم حصہ ماحول کا ہوتا معاشرے کا ہوتا کیونکہ ہم جو دیکھتے ہیں وہی زیادہ اچھے سے سیکھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح یہ پھول رات میں کھلنے کے لیے تیار ہو جاتا اس کی کونپلیں نکل آتی ہیں اور جیسے ہی اس پر دن کی روشنی پڑتی یہ کھلنا شروع ہو جاتا ہے جیسے جیسے سورج چمکتا ویسے ویسے یہ کھلتا جاتا۔ اور جب سورج پورے اپنے جوبن پہ ہوتا یہ پھول بھی اپنی مکمل تروتازگی لے کر کھل چکا ہوتا ہے۔ ایسے ہی انسان بھی اپنی زندگی کی خاص عمر پہ پہنچ کر چمکتا ہے اسکی آنکھوں میں بہت سپنے ہوتے ہیں کچھ کر دکھانے کی لگن ہوتی ہے اور اسی چکر میں وہ کوششوں میں لگ جاتا ہے کہ اسے اپنی زندگی ڈھلنے کا احساس بھی نہیں ہوتا جب وہ ختم ہونے کے مرحلے پہ پہنچتا ہے تب وہ دیکھتا ہے کہ اس کے پاس خالی ہاتھ کے سوا تو کچھ نہیں وہ جو اتنی محنت کر رہا تھا کہ بعد میں اپنی زندگی اچھے سے جیے گا لیکن جب وہ سکون کرنے کی حالت میں پہنچتا تب اسکے پاس زندگی ہی نہیں بچتی۔ بالکل اس پھول کی طرح جو دن بھر سب کی آنکھوں کو لبھاتا ہے لیکن سورج کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ ہی خود بھی ڈھل جاتا ہے بنا اپنی کوئی خوشبو چھوڑے اور اسکی جگہ لینے کے لیے نئی کونپلیں بننا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایسے ہی انسان کی بھی زندگی ہے جو اس خوبصورت پھول اور چمکتے سورج کی طرح ہے۔ بالکل کم روشنی سے انسان کا وجود اس دنیا میں آتا اور پھر وہ چمکنے لگتا سب کی آنکھوں میں آنے لگتا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اسکی زندگی کے آخری ایام آ جاتے ہیں لیکن اپنی آخرت کے لیے کیا اس نے کچھ اکھٹا کیا؟
یہ سوال آپکے لیے ہے۔
ایک نا ایک دن انسان ختم ہو جائے گا ہم ختم ہو جائے لیکن کیا آخرت کے لیے ہم نے اپنے دامن بڑھے؟
نہیں بالکل نہیں۔۔۔۔!
کیونکہ ہم تو بس دنیا کی رونق میں گم رہے خود کو دنیاوی روشنی میں چمکتا ستارہ بنانے کی لگن میں لگے رہے اور یہ بھول گے کہ ہم نے ایک دن ختم بھی ہونا ہے۔
آپکو پتا اس پھول میں ایک اور بات ہے اس کی کوئی خوشبو نہیں ہے یہ سارا دن چمکتا ہے خوب رونق بڑھتا ہے آپکے آنگن میں لیکن خوشبو نہیں دیتا، پر جب ہم اسے ہاتھ میں لے کر مسلتے ہیں اور پھر اس مسلے ہوئے پھول کو سونگھتے ہیں تو یہ ہلکی سی خوشبو دیتا ہے بالکل ہلکی سی کہ ہمیں اسکی خوشبو یاد بھی نہیں رہتی کہ کیسی ہے؟
ایسے ہی انسان بھی چمکتا ہے لیکن وہ صرف دوسروں کے لیے روشنی بنتا ہے خوشبو نہیں کیونکہ اسکے اندر بس دنیاداری ہوتی ہے۔ اور ہلکی سی خوشبو (جو کہ دنیا کے مال کی صورت میں ہے) صرف انہیں دیتا جو اپنے پیروں نیچے اسے روند کر اپنا مطلب نکال لیتے ہیں۔
لیکن گلاب کی خوشبو کتنی اچھی ہوتی ہے کہ اسے ہاتھ میں پکڑ کر مسل بھی دیا جائے تب بھی ہاتھوں میں خوشبو باقی رہتی ہے۔
اس دنیا میں کچھ انسان ایسی خوشبو بھی رکھتے ہیں جو انکے جانے کہ بعد بھی آتی رہتی ہے جب وہ اپنے علم کی خوشبو سے دوسروں کی زندگی کو صیحح راستہ پہ ڈال دیتے ہیں۔
اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے صرف روشنی بننا ہے یا چمکتی روشنی کے ساتھ خوشبودار بھی بننا ہے۔
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً.
Previous ArticleDor ky Dhol Suhany By Malaika Horain
Next Article خود کو خطاب بخش از قلم اقرا عبدالرؤف