بلاشبہ اکیسویں صدی کی نسلوں نے بہت تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں ہیں۔مگر ہم جتنی بھی ترقی کر لیں دور جہالت کے کچھ آثار ہم میں آج بھی موجود ہیں۔آج بھی دنیا کے کئی علاقوں میں بیٹی کی پیدائش کو نحوست سمجھا جاتا ہے۔اس کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں۔
1)معاشرے کا دباؤ:ہم نے معاشرتی سوچ صرف اپنائی ہی نہیں ہے بلکہ اسے بے حد اہمیت بھی دی ہے۔ایک مثال سے اس بات کو واضح کرتی چلوں۔فرض کریں کسی لڑکا اور لڑکی کی رضامندی کے خلاف گھر والے ان کی شادی کر دیتے ہیں اور ان کا آپس میں گزارا کرنا مشکل ہو جاتا ہے مگر پھر بھی ان کے لئے ازدواجی تعلق قائم کرنا بہت ضروری ہے۔ایک دوسرے کو سمجھنے اور وقت دینے کی بجائے انہیں یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ اولاد نہ ہوئی تو لوگ کیا کہیں گے۔کچھ ماہ بعد ہم سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔اسی خوف کے زیر اثر ان کا رشتہ خراب ہوتا ہے۔میں پوچھتی ہوں کے لوگوں کے سوالوں کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟آپ کی زندگی آپ کی ہے یہ کیوں نہیں سمجھ آتا لوگوں کو۔اب اپنے ٹاپک کی طرف واپس چلتے ہیں۔بیٹی کی پیدائش کا خوف بھی معاشرے کا دیا ہوا ہے۔ہم کہتے ہیں بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں مگر اس جملے کو محسوس نہیں کرتے۔بیٹی پیدا ہوئی اللہ کی رحمت نازل ہوئی۔دوسری بیٹی پیدا ہوئی کیا تب بھی آپ کا ایسا ہی خیال تھا؟تیسری بیٹی پیدا ہوئی آپ سے راہ چلتے کسی نے پوچھ لیا پھر سے بیٹی ہوئی ہے؟آپ کہو گے اللہ کی رحمت ہے جی لیکن 2 منٹ بعد جب پوچھنے والا چلا گیا تب آپ کا ذہن کیا کہہ رہا ہے وہ سننے کی کوشش کرو آپ چلنا شروع کرو گے آپ کے دماغ میں سو طرح کے خیالات آئیں گے مثلاً اگر مجھے بیٹا ہوا ہی نہ؟تین بیٹیوں کی شادی کے لئے بہت پیسے چاہیے ہوں گے۔آپ اس دوران خود سے کہو گے نہیں کوئی بات نہیں اگلا بیٹا ہو جائے گا میرے ساتھ مل کر کاروبار کرے گا سب ٹھیک ہو جائے گا۔آپ کا دماغ پھر سے کہے گا کیا بات کر رہے ہو لڑکا بڑا ہوتے تو بہت وقت لگ جائے گا بیٹیاں بوڑھی ہو جائیں گی اور کیا معلوم بیٹا ہو ہی نہ۔آپ کہو گے نہیں نہیں اگلی بار بیٹا ہی ہو گا آپ کا دماغ کہے گا اس بار بھی یہی امید لگائی تھی نہ؟اب آپ یہ بتائیں کے ایسے خیالات کیوں آتے ہیں؟ایسے ٹائم میں آپ کا ‘بیٹی رحمت ہے’والا خول کہاں جاتا ہے؟ایسے میں چوتھی بیٹی پیدا ہو جائے تو آپ کا دماغ آپ کے خیالات تو آپ کی دھجیاں ہی اڑا دیں گے۔پھر آپ کیا کرو گے؟کسی پر سکون جگہ پر بیٹھ کر سوچیں کہ یہ سب کیا ہے۔آپ کو سمجھ آئے گی کہ آپ کی سوچ پر معاشرہ اس قدر حاوی ہے کہ آپ خود کو اس سے الگ کر ہی نہیں پائیں گے۔
بیٹیوں کو بوجھ سمجھنا:اولاد تو ہر انسان کو عزیز ہوتی ہے۔بیٹیوں سے محبت کے ساتھ ساتھ ایک اضافی احساس بھی ہمارے اندر پنپنے لگتا ہے۔کیونکہ بیٹیوں کی شادی آج ایک مشکل امر بن چکا ہے۔سب سے پہلے جہیز جسے آج حد درجہ اہمیت دی جاتی ہے اس نے لوگوں کا سکون چھین لیا ہے۔غریب کی بیٹی گھر بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہے اور جہیز کا انتظام نہیں ہو پاتا۔ایک عورت ان مسائل سے بخوبی واقف ہوتی ہے پر حیرت کی بات ہے کہ سسرال میں جہیز نہ لانے کے تانے بھی ساس اور نند وغیرہ ہی دیتے ہیں۔یعنی ایک عورت ان مسائل سے گزر کر دوسری عورت کے لئے یہی مسائل کھڑے کر رہی ہے۔اسلام جہیز کو غیر ضروری قرار دیتا ہے ہاں مگر جو آپ اپنی خوشی سے دیں۔لہذا اپنی بیٹیوں کی پرورش کرتے وقت خیال رکھیں کہ انہیں اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر آگاہی حاصل ہو تاکہ وہ اس جہالت کا حصہ نہ بنے۔
اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بیٹیوں کے ناز و نخرے بہت ہوتے ہیں اور غریب باپ کے لئے زیادہ بیٹیاں پالنا مشکل ہوتا ہے۔تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی بدولت آپ کی بچیوں میں نہ صرف فضول خرچی کی عادت جڑ سے ختم ہو گی بلکہ گھر کو اچھے سے سنبھالنے کی سمجھ بھی آئے گی۔
صنف نازک کو کمزور اور کم تر سمجھنا:نزاکت اور کمزوری میں بہت فرق ہوتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ عورت نازک ہوتی ہے مگر کمزور نہیں۔عورت کی جرأت،طاقت،صبر اور برداشت کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔اس بات سے اندازہ لگائیں کہ عورت کتنی مضبوط ہے اس نے اپنی مخلوق میں سے تخلیق کا وصف صرف عورت کو عطا کیا ہے۔مرد عورت کو گالی دیتا ہے عورت چپ چاپ سہہ لیتی ہے اگر عورت مرد کو گالی دے تو اس سے برداشت نہیں ہوتا۔تو عورت کمزور کیسے ہوئی؟اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سسرال میں سلوک اچھا نہیں ہوتا اور کیونکہ والدین کا گھر بھی اپنا نہیں رہتا تو عورت بہت صبر سے اپنی اولاد کی خاطر سب کچھ برداشت کرتی ہے اور برداشت کرتے کرتے ہی اس کی عمر گزر جاتی ہے۔تو پھر عورت کمزور کیسے ہوئی؟اور عورت کو کمزور سمجھنے کا رواج اس قدر سرائیت کر گیا ہے کہ آج عورت خود بھی اپنی ذات کو کم تر سمجھنے لگی ہے۔مردوں کی لڑائیوں میں تو عورت کو گالیاں ملتی ہی ہیں عورتیں بھی آپس کی لڑائی میں دوسری عورتوں کو گالیاں دیتیں ہیں۔اس بات سے ناواقف کہ کسی دوسری عورت کو گالی دے کر درحقیقت وہ اپنی ذات کو ہی چھوٹا کر رہی ہے۔
یہ تو چند حقائق تھے جو میں نے آپ کے سامنے رکھیں۔اب میں گزارش کرنا چاہوں گی کہ اپنی بچیوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں تاکہ یہ مسائل حل ہو سکیں۔ایک عورت کی تربیت ایک نسل کی تربیت ہے اور تعلیم و تربیت سے بہت کچھ بدل سکتا ہے۔آپ کی بیٹی کو کل کو برے حالات یا شوہر کی بیماری وغیرہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس لئے تعلیم کا حق ان سے نہ چھینیں اور انہیں ان کے پاؤں پر کھڑا ہونے دیں۔مگر اکثر لوگ عورت کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔کیونکہ جہالت کا دور تو چلا گیا مگر ہماری رگوں سے جہالت نہ گئی۔
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً.
Previous ArticleA Dreamer By Maha Anaya
Next Article صف اول از قلم اقرا عبدالرؤف