فبیحہ کیا کر رہی ہو ابھی تک تم سے کھانا بھی نہیں بنا، کوئی کام تو وقت پر کر لیا کرو ۔ باہر سب انتظار کر رہے ہیں ۔
جی تایی جان بس ہو گیا تھوڑی دیر ہی اور لگے گی ۔ فبیحہ نے جلدی جلدی ہاتھ چلاتے ہوۓ کہا اور شہلا اسے باتیں سناتی باہر چلیں گئیں
فبیحہ باجی آپ بڑی بی بی کو بتا دیتیں کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ویسے بھی وہ سارا دن آپ سے اتنا کام کرواتی ہیں اور دوسری طرف لائبہ بی بی ہیں جنہیں ڈھنگ سے انڈا بھی ابالنا نہیں آتا ۔۔۔۔ زیبو (کام والی) نے منہ بناتے ہوئے کہا
میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا ہے ایسی باتیں کرنے سے ۔ اپنے کام سے کام رکھا کرو اور ذرا جلدی ہاتھ چلاؤ اس سے پہلے تایی جان پھر سے آ جایں۔
ارے بیٹا تم بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ نا ، دیکھو حالت کیا بنا رکھی ہے تم نے اپنی اتنی کمزور ہو گئی ہو تم۔ شہلا کیا یہ ٹھیک سے کھانا نہیں کھاتی ؟
فبیحہ جوں ہی کھانا لگا کر پلٹی تو ہما ( فبیحہ کی پھوپھو) نے اسے روک لیا
کیسی باتیں کر رہی ہو ہما یہ بھی تو میری بیٹیوں جیسی ہے میں اسکا خیال کیوں نہیں رکھوں گی بھلا ۔ یہ خود ہی بڑی لا پرواہ ہے یونیورسٹی سے آ کر کتابوں میں گھسی رہتی ہے میں تو پھر بھی اپنی پوری کوشش کرتی ہوں کھانے پینے کا دیہان بھی رکھتی ہوں کیوں فبیحہ ؟
ھما کی بات پر تو شہلا کو پتنگے ہی لگ گئے تھے اس لیے اپنے دفاع کے لیے فوراً ہی میدان میں آییں۔
شہلا بیٹیوں جیسی ہونے اور بیٹی ہونے میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ ہمارے بھائی کی آخری نشانی ہے فبیحہ .اسکا خیال رکھا کرو بلکل ویسے ہی جیسے تم لائبہ کا رکھتی ہو ۔ھما نے بھی تڑاک سے جواب دیا
ارے نہیں پھوپھو تایی جان تو میرا خیال رکھتی ہیں اور مجھ سے پیار بھی کرتی ہیں بلکہ اس گھر میں سب ہی مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں دراصل میرے پیپر ہوںے والے ہیں اسکی تیاری کر رہی ہوتو کافی مرتبہ رات بھی جاگنا پڑ جاتی ہے تو شاید اس لیے کمزور ہو گئی ہوں تھوڑی ۔۔۔۔۔۔۔ فبیحہ نے جب دیکھا کہ ماحول گرم ہونے کے اثرات دیکھا رہا ہے تو ساتھ ہی سب نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگی ویسے بھی وہ لڑائی جھگڑا پسند کرنے والی نہیں بلکہ معصوم اور سادہ سی لڑکی تھی ۔
ٹھیک ہے میرا بچہ پڑھائی ضروری ہے لیکن صحت سے زیادہ تو نہیں نا اس لیے اپنا خیال رکھا کرو اور اگر کسی بھی قسم کا کوئی مسلہ ہو تو مجھے ضروربتانا ہاں۔۔۔۔۔ فبیحہ انکی بات کا اشارہ خوب سمجھ گئی تھی جب کہ انکی بات پر شہلا پہلو بدل کر رہ گئیں
جی پھوپھو ۔۔۔ فبیہہ نے نظریں جھکا کر جواب دیا
اس سارے وقت میں کوئی بہت گہری نظروں سے اسے دیکھنے میں مصروف تھا جس کی وجہ سے فبیحہ گھبرا رہی تھی
✸_______________ ✸_______________✸
فبیحہ رامین اپنے ماں باپ کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی اور لاڈلوں سے تو قسمت ویسے ہی بہت مشکل امتحان لیتی ہے اور فبیحہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے سال ایک حادثے میں کمال اور زنیرہ انتقال کر گئے جو فبیحہ رامین کی پوری دنیا تھے اس کے پیارے ماما بابا تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب اسے اسکے تایا جمال اور تایی شہلا اپنے گھر لے آئے ۔ ظاہر ہے کروڑوں کی جائیداد کی مالک وہ اکیلی لڑکی ، اسے اپنے گھر لانے میں دیر کیوں کرتے بھلا ؟ ، اس وقت سے لے کر اب تک فبیحہ انھیں کے گھر رہ رہی تھی ۔ اتنی لاڈلی ہونے کے باوجود بھی وہ انتہائی تمیز دار اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی جسے ماں باپ نے پلکوں پر بیٹھا کر رکھا تھا اسے کبھی کسی کام کو ہاتھ تک نا لگانے دیا تھا آ اور یہاں شہلا گھر کے سارے کام کرواتی تھی اس سے اور اس نے کبھی اف تک بھی نہیں کیا تھا روبوٹ کی مانند وہ سب کرتی چلی جاتی تھی اپنے ماں باپ کی موت کے بعد تو وہ بلکل ہی بدل کر رہ گئی خاموش اور تنہا ۔۔۔۔۔
کوئی بھی اب والی فبیحہ کو دیکھتا تو کبھی یقین نا کرتا کہ یہ وہی ہے اس ایک سال میں اتنا فرق آ چکا تھا
دوسری طرف تایی کی ایک بیٹی لائبہ اور ایک بیٹا زمیل تھا ۔ لائبہ رامین کے برعکس تھی پھوہڑ، منہ پھٹ، بتمیز قسم کی لڑکی جس کی دنیا فیشن سے شروع ہوتی تھی اور اسی پر ختم ہو جاتی تھی خوبصورتی میں بھی اسکا رامین سے کوئی مقابلہ نہیں تھا اس لیے وہ اسے پسند بھی نہیں کرتی تھی ۔ رہی بات زمیل کی تو وہ بہت خوبصورت لڑکا تھا ، شہزادوں سی آن بان رکھنے والا ، جس کی چال پر کئی لڑکیاں مرتی تھیں جو بالوں کو جھکٹا تو کئی لڑکیوں کے دل بھی دھڑکنے لگتے اور سب سے بڑھ کر اسکی نظر انداز کر کے بےنیازوں کی طرح گزر جانے والی عادت پر تو آدھی یونیورسٹی مرتی تھی مگر افسوس وہ کسی پر مرنا پسند نہیں کرتا تھا کیوں کہ اسے تو مارنا پسند تھا نا
حال ہی میں اس نے اپنا ایم بی آ مکمل کیا تھا لیکن ابھی تک نوکری ڈھونڈنے میں ناکام رہا تھا ۔
فبیحہ کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کر رہی تھی اور یہ اسکا آخری سال تھا ۔ اس کے بعد وہ اپنے پاپا کا بزنس سمبھالنا چاہتی تھی جو اسکے اس دنیا سے جانے کے بعد اس کے نام ہوچکا تھا ۔
فبیحہ کی ماں بھی ایک ہی بہن تھی باپ کی وفات کو عرصہ ہو گیا تھا اور ماں بھی کچھ سال پہلے ہی خالق حقیقی سے جا ملیں تھی اور کمال صاحب نے تو اپنے خاندان والوں سے انھیں ملنے ہی نا دیا تھا ساری عمر۔ کیوں کہ وہ انھیں اچھے سے جانتے تھے اور قسمت کی مار ایسی کہ جن لوگوں کا سایہ اپنی بیٹی پر ساری زندگی نا پڑنے دیا وہ آج ان کے ہی در کی محتاج ہو گئی تھی۔
✸_______________ ✸_______________✸
میں تمہاری ان چالاکیوں کو اچھے سے سمجھ رہی ہوں یہ جو تم سب کے سامنے معصوم بن کر مجھے ظالم قرار دیتی ہو نا یہ مجھے پتا چل رہا ہے ۔ ہما کے جانے کی کچھ دیر بعد ہی شہلا فبیحہ کے کمرے میں آ ٹپکی اور اسے سنانے لگیں
ایسی کوئی بات نہیں ہے تایی جان بلکہ میری تو ان سے جو بھی بات ہوئی ہے آپ کےسامنے ہی ہوئی ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ میں نے ایسا کچھ بھی کہا ہے جس پر آپ مجھ سے خفا ہو رہی ہیں ۔ فبیحہ نے بڑے تحمل سے جواب دیا
اوو بس بس میری سامنے یہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے خوب جانتی ہوں میں تم جیسیوں کو ، اپنی ماں کی طرح گھنی میسنی ہو تم بھی ، باہر سے بڑی نیک پارسا اور معصوم نظر آتی ہو اور اندر سے اتنی ہی چالاک ۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر میری ایک بات یاد رکھنا یہاں تمہاری دال نہیں گلنے والی اس لیے ذرا سمبھل کر ورنہ ایسا گراؤں گی نا کہ اٹھنا بھول جاؤ گی تم ۔۔۔۔۔
جیسے تن فن کرتی وہ آییں تھی ویسے ہی چلی بھی گئی لیکن ان کے جانے کے بعد فبیہہ سے پڑھا کچھ نا گیا اور وہ رونے لگی
اخر ایسا کونسا گناہ کیا تھا میں نے جو مجھے اتنی بڑی سزا ملی ہے ؟؟؟ ماما پاپا کیوں چلے گئے آپ لوگ مجھے یوں اکیلا چھوڑ کر ۔۔۔۔ لوگ اچھے نہیں ہوتے آپکو پل پل رلاتے ہیں میرا کوئی نہیں ہے اس دنیا میں کوئی نہیں بلکل اکیلی ہو گئی ہوں میں آپ لوگوں کے بنا ۔۔۔۔
وہ خود سے بے ربط سی باتیں کر رہی تھی اور نا جانے کتنی دیر یوں ہی یادوں اور خیالوں سے الجھتی رہی ، اسے پتا بھی نا چلا کب اسکی آنکھ لگ گئی، پھر اچانک آنکھ کھلی تو اسے احساس ہوا کہ وقت کافی گزر چکا ہے اور اسے بھوک بھی محسوس ہوئی ۔ وہ اٹھی اور نیچے ڈائننگ روم کی طرف بڑھ گئی
یہاں اتنی خاموشی کیوں ہے ؟ آہ میں تو ٹائم بھی نہیں دیکھ کر آیی لگتا ہے سب سو چکے ہیں ۔
وہ دبے دبے پاؤں چلتے کچن میں آیی اور کچھ کھانے کو ڈھونڈنے لگی
یہ بھی خالی اور یہ بھی ۔۔۔ وہ باری باری سب دیگچیاں دیکھ رہی تھی مگر کچھ بھی نہیں ملا یا اللّه یہاں تو میرے کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا اب میں رات کیسے گزاروں گی ۔ کیا تایی جان کو ایک بار بھی میرا خیال نہیں آیا میں نے تو یونیورسٹی سے آ کر بھی کچھ نہیں کھایا تھا۔ اسکا سر درد سے پھٹ رہا تھا اور اوپر سے بھوک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فبیحہ چلو اٹھو کھانا کھاؤ ۔۔۔۔
نہیں ماما مجھے نہی کھانا آپ لوگ کھا لیں
اچھا اور تمہیں لگتا ہے کہ ایسا ممکن ہے ؟ میرے حلق سے تو نوالہ ہی نہیں اترتا اور نا ہی مجھے سکون ملتا ہے جب تک تم نے کچھ کھایا نا ہو اور تمہارے پاپا وہ تو تب تک بیٹھیں گے ہی نہیں ڈائننگ ٹیبل پر جب تک تم وہاں موجود نا ہوئی۔ چلو شاباش اٹھو اور فریش ہو کر نیچے آؤ ۔۔۔۔۔۔۔
کہاں اس کے ماں باپ اس کے بغیر کھانے کی میز پر نا بیٹھتے تھے اور یہاں ۔۔۔ یہاں کسی کو یہ خیال تک نا کہ تھوڑا اس کے لیے بچا کر ہی رکھ دیں
آ ہ ہ ہ یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں کے کنارے بھیگنا شروع ہو گئے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں دریا بہنے لگا تھا
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا !!!
ماما ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں چلیں گئی آپ مجھے چھوڑ کر ، آج آپکی بیٹی بھوکی ہے کیا آپ سکون میں ہیں ؟ واپس آ جایں نا میرے لئے میں نہیں رہ سکتی آپ دونوں کے بغیر
اور اس کے دل نے پھر اسے ماضی کی یادوں میں دھکیل دیا جس نے اسے محض ازیت ہی مل سکتی تھی اور کچھ نہیں ” یہ ماضی کی یادیں بڑی بے رحم ہوتی ہیں انسان کو حال میں جینے کے قابل نہیں چھوڑتیں” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بد دل ہو کر ویسے ہی کچن سے نکل گئی ، اپنے گالوں کو زور سے رگڑا اور تازہ ہوا کھانے لان میں چلی آیی
کچھ دیر بعد اسے اپنے پیچھے ایک وجود کا احساس ہوا تو وہ ڈر کر پلٹی ۔
ارے یار ڈر کیوں گئی ہو میں ہوں ری لیلکس۔۔ ویسے اتنی رات کو یہاں کیا کر رہی ہو آج کھانا بھی نہیں کھایا تم نے ۔۔۔۔۔۔ وہ مڑی تو پیچھے زمیل کھڑا تھا
ہاں پڑھتے پڑھتے آنکھ لگ گئی تھی اب اٹھی تو دیکھا سب شاید کھانا کھا کر سو چکے ہیں اس لیے میں تھوڑی دیر کے لیے یہاں آ گئی ۔۔۔ اس نے جھجھکتے ہوۓ جواب دیا
ہمممممممم تو مطلب بھوک تو لگی ہوگی جہاں تک مجھے یاد ہے صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا تم نے، سہی کہ رہا ہوں نا ؟ اس نے کافی پر سوچ انداز میں کہا جس پر فبیحہ نے اس دیکھا اور دیکھتی ہی رہ گئی تو کیا وہ جانتا تھا؟ اسے پرواہ تھی فبیحہ کی یا محض اس وہم تھا یہ ؟
وہ امیدیں لگانے والوں میں سے نا تھی اس لیے خود کو سمبهالا اور جواب دینے لگی
جی لیکن کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے کچن میں ۔۔۔۔۔ اس نے افسردہ ہو کر جواب دیا
تو کیا ہوا ہم ابھی بنا لیتے ہیں چلو شاباش ۔ وہ اسے کھینچتا ہوا کچن میں لے آیا ،،،،،، فبیحہ تو حیران پریشان اس کے ساتھ کچھتی ہوئی اندر آ گئی
اب بتاؤ کیا کھاؤ گی ؟
آپ بنایں گے ؟ اس نے بڑی دل چسپی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ کیوں اسے زمیل کا اپنے لیے یوں فکر مند ہونا اچھا لگ رہا تھا
تو کیا تم مجھے اتنا نکما سمجھتی ہو ؟ زمیل نے ابرو اچکا کر پوچھا
ہاہاہا نہیں ایسی بات نہیں ہے آپ تو بڑے قابل انسان ہیں میں جانتی ہوں
ہاں گڈ گرل اب بتاؤ نوڈلز بنا دوں ؟ بن بھی جلدی جایں گے اور کام بھی چل جائے گا کیسا؟؟؟ اس نے رائے معلوم کرنا ضروری سمجھا
ہاں ٹھیک ہے ۔۔۔
ویسے میں نے ایک بات نوٹ کی ہے تم خود سے بہت باتیں کرتی ہو ، مطلب تمہیں اکیلے رہنا پسند ہے کم بولتی ہو کسی کے ساتھ ۔۔ تو اسکا مطلب یہ ہوا نہ دوسروں سے باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا، تمہیں خود سے باتیں کرنا پسند ہیں بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ فبیحہ سے گفتگو کرنے لگا تھا ۔
ہاں بلکل ٹھیک پہچانا آپ نے مجھے ، میں خود کی ذات میں مگن رہنا زیادہ پسند کرتی ہوں یا یوں کہہ لیں مجھے مزہ آتا ہے خود سے باتیں کرنے میں
ہاہاہا اس میں مزے کی کیا بات ہے بلکہ لوگ تو ایسے بندوں کو پاگل کہتے ہیں جو اکیلے میں خود سے باتیں کرتے ہیں ۔ زمیل نے خاصے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا جو فبیحہ کو بہت برا لگا
زمیل نے اسکی خاموشی کو نوٹس کیا تو گڑبڑ کا احساس ہوا وہ مڑا تو دیکھا فبیحہ رو رہی تھی
فبیحہ یار میں تو مذاق کر رہا ہے تم سیریس ہی ہو گئی اچھا آئی ام سوری دوبارہ تم سے اس طرح کا کوئی مذاق بھی نہیں کروں گا وہ اس کے آنسو دیکھ کر حقیقتاً پریشان ہوا تھا اس لیے سوری بول دیا
اب آنسو صاف کرو تمہاری نوڈ لز بن گئی ہیں ۔۔۔۔۔ پل میں ہی اسکا موڈ پھر سے ٹھیک ہو گیا تھا
آپ نے پوچھا تھا نا خود سے باتیں کرنے میں کیا مزہ ؟ وہ مزے سے کھاتے ہوۓ بولی
ہاں پوچھا تھا مگر چھوڑو تم اور کھانے پر دیہان دو
زمیل نے بات ختم کرنا چاہی کہ وہ پھر ناراض ہی نا ہو جائے ۔
ارے نہیں میں جواب دیتی ہوں آپکو ایک شعر سنا کر
خود سے گفتگو کرنے کا مزہ بھی لاجواب ہے
سوال بھی پسند کے ، اور جواب بھی
ماہا عنایا
ارے واہ تمہیں تو شاعری بھی آتی ہے امپرسسو۔۔۔۔۔۔ زمیل نے اسے داد دی
جی شاعری تو مجھے حد سے زیادہ پسند ہے ۔ فبیحہ کا موڈ پھر سے سہی ہو گیا تھا کچھ دیر پہلےہونے والی بات وہ بھول چکی تھی اور زمیل نے اس بات پر شکر کیا تھا
پھر ادھر ادھر کی باتوں کے ساتھ اس نے نوڈلز کھاۓ اور پھر سونے اپنے کمرے میں چلی گئی اور زمیل بھی ۔۔۔۔
کبھی کبھی زندگی کتنی حسین لگنے لگتی ہے نا سب اپنا لگتا ہے اور کبھی ایسا لگتا ہے ہم اس جہاں کے باسی ہی نہیں ہے یہاں کوئی ہمارا ہے ہی نہیں ، سب پرایا ہے ۔ در اصل یہ سب ہمارے ذہنی اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہم اپنے ماحول کو ویسا نہیں دیکھتے جیسا وہ ہوتا ہے بلکہ ہم اسے ویسا دیکھتے ہیں جیسا ہمارا دل و دماغ اسے دیکھنا چاہتا ہے۔
فبیحہ رامین کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے وہ اس دنیا اور یہاں کے لوگوں سے انجان تھی ۔ کیوں کہ اس کی ساری دنیا تو اس کے ماں باپ ہی تھے۔ اور اب اسکی وہ چھوٹی اور خوبصورت دنیا نہیں رہی تھی ۔ وہ یہاں کسی کو بھی سمجھ نہیں پاتی تھی نا یہ جانتی تھی اسے یہاں لانے کا مقصد کیا ہے جو ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے وہ ان سب باتوں سے یکسر انجا ن تھی اور توجہ، پیار اور محبت کی طلب گار بھی ۔
اس طرح کے حالات میں انسان بغیر سوچے سمجھے کسی پر بھی بھروسہ کرنا شروع کر دیتا ہے چاہے یہ بھروسہ اور اعتماد اسے کتنا بھی نقصان کیوں نا پہنچائے۔ اس جگہ جہاں اسے کوئی محبت اور توجہ نہیں دیتا ہے زمیل کا اسکی طرف جھکاؤ اسے مجبور کررہا تھا اس کے بارے میں سوچنے پر۔۔۔۔
ماما ۔۔۔ ماما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک دھم نیند سے اٹھ کر چلانے لگی
حنادی بیٹا کیا ہوا ؟ پھر کوئی برا خواب دیکھ لیا ہے کیا تم نے؟ روشنا اسکی آواز سنتے ہی کمرے میں دوڑے چلی آیی
ماما وہ مجھے مار دے گا ۔ میں بھاگ رہی تھی بہت تیز بھاگ رہی تھی لیکن اس نے پھر بھی مجھے پکڑ لیا ماما وہ مجھے مار دے گا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اونچی آواز سے رونے لگی
آخر یہ خواب میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتے ۔ اس نے روتے ہوئے کہا
نہیں میری جان ایسے روتے نہیں ہیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا میں ہوں نا تمہارے پاس ۔ میرے ہوتے ہوۓ کوئی تمہیں کچھ کر سکتا ہے بھلا ؟ روشنا نے اسے گلے لگایا اور پچکارنے لگی
سالوں سے یہ ہوتا آ رہا ہے حنادی یوں ہی خوابوں میں ڈر جایا کرتی اور پھر روشنا اسے تسلياں دیتی کہ سب ٹھیک ہو جائے گا نا جانے سب کب ٹھیک ہوگا؟
✸_______________ ✸_______________✸
اے لڑکی یہ کس حلیے میں باہر جا رہی ہو ؟ کوئی تہذیب نہیں سکھائی تمہاری ماں نے تمہیں ۔ جاؤ اور کوئی چادر لے کر اؤ ورنہ کوئی ضرورت نہیں ہے باہر جانے کی ۔۔۔۔۔ حنادی یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو کر گھر سے نکل رہی تھی کہ اسکی دادی نے اسے روک لیا
تہذیب لفظ آپکو زیب نہیں دیتا دادی اور رہی بات چادر کی تو وہ میں نہیں اوڑهوں گی ۔ دو ٹوک لہجے میں کہتے ہوۓ وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی
میں کہتی ہیں یہ کوئی چند چڑھائے گی لگام ڈال لے اسے روشنا ۔ کچھ طور طریقہ سکھا دے کل کلاں دوسرے گھر بھی جانا ہے اس نے، وہاں بھی ایسی ہی حرکتیں کرے گی کیا؟۔ اب انکی توپوں کا رخ روشنا کی طرف ہو گیا اور چند چڑھانے والی بات پر تو حنادی کو آگ ہی لگ گئی
ہر کسی کو ایک ہی ترازو میں نہیں تولا کرتے دادو ضروری نہیں کہ کوئی ایک خراب ہو تو سارے ویسے ہی ہوں گے ۔ ایک ادا سے کہتی وہ چلی گئی
اسکا طنز انھیں خوب سمجھا گیا تھا کہ وہ کیا بات کر گئی ہے
یہ سکھا رہی ہو تم اسے ؟ بڑے چھوٹے سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے اتنی لمبی زبان ہے جو ہر وقت چلتی رہتی ہے ۔ میں بتا رہی ہوں یہ سب برداشت نہیں کروں گی میں ۔ اس کی پڑھائی بند کروا کر چلتا کروں گی اسے یہاں سے ۔ بتا دینا اسے
روشنا سب سر جھکا کر سنتی رہی کوئی جواب نہیں دیا اس نے ۔
یا اللّه یہ لڑکی اپنا کوئی بڑا نقصان کرے گی کیسے سمجھاؤں اسے ۔ دادی کے جانے کے بعد روشنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی
یا اللّه کیا کروں میں اس لڑکی کا ؟
اور اس کیا کا جواب تو کسی کے پاس بھی نہیں تھا
بی بی جی آپ پریشان نا ہوں بڑی بیگم کو توعادت ہے ہر کسی میں نقص نکالنے کی ۔۔۔۔
بشیرا تم اپنا کام کرو۔۔۔۔۔۔
روشنا اٹھی اور اپنے کمرے میں چلی گئی اور بشیرا منہ بناتے ہوئے دوبارہ کام میں مصروف ہو گئی
یار حنادی کیا سوچ رہی ہو اتنی مگن ہو کر ؟ علوینہ نے خاموش بیٹھی حنادی کو ہلا کر پوچھا
یار سوچ رہی ہوں کہ فضول میں ہی دادی کے آگے بول آییں ہوں اب وہ اماں کو سنا رہی ہونی اور انہوں نے تو آگے سے جواب بھی نہیں دینا چپ چاپ سنتے جانا ہے بس ۔۔۔۔ اس نے کڑھ کے بولا
ہاں یار یہ تو غلط بات ہے آنٹی بیچاری چپ کر کے سنتی رہتی ہیں دادی کو جس سے انھیں اور شہہ ملتی ہے۔
میں تو اماں کو بہت سمجھاتی ہوں کہ انھیں پلٹ کا جواب دیا کریں لیکن وہ میری سنتی ہی کہاں ہیں۔
اچھا اب تم پریشان مت ہو یہ دیکھو میں نئی میگزین لائی ہوں آؤ اسے پڑھتے ہیں۔۔۔۔
پھر وہ دونوں دوستیں مگن ہو کر اسکا جائزہ لینے لگیں
اسی دوران حنا دی کی نظر ایک تصور پر پڑی اور پھر پلٹنا بھول گئی ۔۔۔۔۔
علوینا یہ کون ہے ؟؟
آہ یہ ، یہ بزنس مین ہے اور حال ہی میں اس نے سیاست میں شرکت کی ہے ، باہر رہتا تھا اب ڈگری مکمل کر کے پاکستان آیا ہے اور کچھ ہی عرصے میں ایسا نام کمایا کہ ہر نیوز چینل پر اسے ہی دیکھا رہے تھے ویسا جہاں تک میں نے نوٹ کیا ہے اتنی شہرت کے باوجود بھی بندا مغرور نہیں ہے ، اچھا انسان لگا مجھے تو یہ ۔
علوینا اپنی زون میں ہی بولتی جا رہی تھی کہ پھر اسکی نظر حنادی پر پڑی جو اس وقت کسی اور ہی دنیا میں گئی ہوئی تھی
اوہیلو میڈم کہاں گم ہو گئی ہو میں تمہیں اس بندے کی ہسٹری بتا رہی ہوں اور تم ہو کہ اپنے خیالوں میں کھوئی ہو۔۔۔۔
ارے نہیں ایسی بات نہیں ہے میں تمہیں ہی سن رہی تھی ، حنادی نے خاصا بوکھلا کر جواب دیا
حنادی سب ٹھیک تو ہے ؟
اممم ہاں ٹھیک ہے تمہیں کیوں لگا کہ نہیں ٹھیک ؟
علوینا نے کوئی جواب نہیں دیا اور مگزین بند کردی ۔ علوینا یہ مجھے دے دو پڑھنے کے لیے ۔ علوینا کے بند کرتے ہی حنادی نے اس سے کہا
تم اسے پڑھ کر کیا کرو گی تمہیں تو ویسے بھی مگزینز پڑھنے کا شوق نہیں ہے ۔
میں کہ رہی ہوں نا تم دے دو مجھے اور اگر نہیں دینی تو صاف انکار کر دو ۔ حنادی نے تیز لہجے میں کہا
اچھا یار ایک تو فوراً ہی غصے میں آ جاتی ہو، لو پکڑو اور موڈ ٹھیک کرو اپنا
اچھا چلو سب چھوڑو آؤ کچھ کھانے چلتے ہیں ۔۔۔۔۔ علوینا نے اسکا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہا
تمہیں تو ہر وقت کھانا کھانے کا ہی سوجھتا رہتا ہے بھوکڑ کہیں کی ۔ اور پھر وہ دونوں دوستیں کینٹین چلی گئیں
✸_______________ ✸_______________✸
حنادی تم آج جلدی نہیں آ گئی یونیورسٹی سے ؟ اس کے گھر پہنچتے ہی روشنا نے اس سے پوچھا
آپ کے لیے آیی ہوں ، خاصا منہ بنا کر جواب دیا
میرے لیے ؟؟ روشنا نے اپنی طرف انگلی کر کے بڑی حیرت سے پوچھا
جی آپ کے لیے ۔ میں نے سوچا اب تک تو دادی نے باتیں سنا سنا کر آپکو پاگل کر دیا ہونا ہے اس سے پہلے آپ پوری پاگل ہو جایں میں گھر آ جاتی ہوں تاکہ آپکو بچا سکوں
ہاہاہاہاہاہاہا اس کے سٹائل پر روشنا ہنس ہنس کر دوہری ہو گئی ۔ اچھا اگر اتنا ہی خیال ہے میرا تمہیں تو ایسا کرتی کیوں ہو چپ کیوں نہیں رہتی ۔۔۔
ارے یار ماما نہیں رہا جاتا مجھ سے چپ ، پتا نہیں آپ کیسے سنتی رہتی ہیں انھیں ۔ مجھ میں تو آپ جتنی ہمت نہیں ہے کہ غلط باتیں سن کر بھی خاموش کھڑی رہوں ۔ آخر کل کو اللّه کو بھی تو جواب دینا ہے جب زبان دی ہے اس نے تو کیوں غلط کے خلاف کھڑے نہیں ہو رہے ہم ؟؟ اس نے اپنی طرف سے بڑی پتے کی بات بتائی روشنا کو جب کہ روشنا نے ایک سرد آہ بھری
ابھی اتنی بڑی نہیں ہوئی تم جو یہ سب سمجھ جاؤ اس لیے اتنی بڑی بڑی باتیں مت سوچا کرو ۔ اب جاؤ چینج کرو میں کھانا لگاتی ہوں پھر دونوں مل کر کھائیں گے
اچھا ٹھیک ہے ویسے ہٹلر دادی ھیں کہاں نظر نہیں آ رہیں ؟
ایک تھپڑ ماروں گی میں تمہیں جو اب ایک بھی لفظ بولا ۔ کتنی بار سمجھایا ہے بڑی ہیں وہ تمیز سے پکارا کرو انھیں ،،، اپنے کمرے میں ہیں وہ اب جاؤ تم بھی
حد ہے بھئ میں ہوں کہ آپکی فکر میں آدھی ہو گئی اور آپ پھر اپنی ساس کی سائیڈ لے رہیں ہیں ۔ سہی کہتے ہیں بھلائی کا زمانہ نہیں رہا ۔ وہ یوں ہی بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل گئی اور روشنا اس کے جانے کے بعد مسکرانے لگی ڈرامے باز نا ہو تو
اسلام و علیکم !
وعلیکم اسلام ! آج آپ اتنا جلدی آ گئے ؟
ہاں وہ بس سر میں تھوڑا درد تھا ۔۔۔۔
اچھا میں ابھی پین کللر لاتی ہیں اور چاۓ بناؤ آپ کے لیے
ہاں چاۓ بنا دو بس پین کللر کے ضرورت نہیں ہے تھوڑا ریسٹ کروں گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا …. حنادی جب ٹیبل پر بیٹھی کھانا کھانے لگی تو روشنا نے اس کے بابا سے جلدی آنے کی وجہ دریافت کی ۔
حنادی ۔۔۔؟ کہاں جا رہی ہو کھانا تو پورا کھا لو
نہیں مجھے بھوک نہیں ہے بس اتنا ہی کھانا تھا ۔ روشنا کے جانے کے بعد جوں ہی حنادی کرسی گھسیٹ کر اٹھی تو انہوں نے اسے روکا
یونیورسٹی میں کوئی مسلہ تو نہیں ہے سب ٹھیک جا رہا ہے نا ؟اور اگر کچھ بھی چاہئے ہوا تو بتانا
نہیں بابا کوئی مسلہ نہیں ہے اور نا ہی مجھے کچھ چاہیے ۔ بات پوری کرتے ہی وہ فوراً اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور کمرے کا دروازہ بند کر کے رونے لگی
بابا کو کیوں لگتا ہے کہ صرف پیسوں سے ہی سارے مسلے حل ہوتے ہیں کتنے فارمل طریقے سے پوچھتے ہیں کہ کوئی مسلہ تو نہیں ۔ میں کیا کیسے بتاؤں آپ کو بابا کہ کیا مسلہ ہے ؟؟ مجھے آپ چاہئے ہیں صرف آپ اور کوئی چیز نہیں ۔۔۔۔
چیزوں سے کہاں جیا جاتا ہے ، جیا تو رشتوں اور ان کے احساس سے جاتا ہے آپ کیوں نہیں سمجھتے یہ سب ۔۔۔
جب بھی کچھ ایسا ہوتا تو حنادی خود کو دنیا کی سب سے بے بس انسان محسوس کرتی ، تنہا انسان جو دوسروں کے لیے تو کیا خود اپنے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتی تھی
تو دیکھ تو سہی میرے ظرف کی طاقت
لوگوں کی بھیڑ میں رہتا ہوں ، وہ بھی تنہا
ماہا عنایا
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اچانک دروازہ کھلا اور روشنا اندر آ گئی
تم نے کھانا کیوں نہیں کھایا وہاں سے اٹھ کر آ کیوں گئی ؟ اس نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا
بھوک نہیں تھی مجھے اس لیے ۔۔۔۔۔۔ حنادی نے سر جھکا کر جواب دیا
منہ اوپر کرو تمہیں کیا لگتا ہے یوں سر نیچے کر کے بات کرو گی تو مجھے پتا نہیں چلے گا کہ تم روئی ہو ؟ماں ہوں تمہاری تمہارے کہے بغیر سب سمجھ جاتی ہوں
بتاؤ کیوں رو رہی ہو ؟ کیا تمہارے بابا نے کچھ کہا ہے؟؟؟
یہی تو مسلہ ہے ماما وہ کچھ نہیں کہتے ۔ بات بھی یوں کرتے ہیں جیسے کسے غیر سے کر رہے ہوں بلکل فارمل انداز میں ۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ماما ؟ انھیں نہیں پتا کہ کوئی ہرٹ ہوتا ہے ان کے ایسا کرنے سے۔
بس کردو حنادی تم ہر وقت ان سے اتنی بدگمان کیوں رہتی ہو ۔ وہ بتا بھی رہے تھے کہ انکی طبعیت ٹھیک نہیں ہے پھر بھی۔۔۔
طبیعت تو آج ٹھیک نہیں ہے ماما پھر پہلے کیوں وہ ایسے کرتے تھے ؟بس کر دو حنادی تمہیں خدا کا واسطہ ہے بس کر دو
روشنا نے عاجز آ کر کہا ۔ کیوں کہ وہ بھی حنادی کے شکووں سے تھک چکی تھی
میں انکی اکلوتی بیٹی ہوں وہ مجھ سے پیار کیوں نہیں کرتے ؟؟؟
حنادی ہر وقت اتنی بددلی کی باتیں مت کیا کرو ۔ کیا یہ سکھا تی ہوں میں تمہیں کہ اپنے سگے رشتوں کے لیے دل میں اتنی نفرت رکھو تم ؟ اور کیا نہیں ہے تمہارے پاس اچھا گھر ہے جہاں تم رہتی ہو ، کھاتی اچھا ہو یہاں تک کہ جس یونیورسٹی میں تم پڑھنا چاہتی تھی وہاں ہی تمہارا ایڈمشن بھی کروایا پھر آخر کس چیز کی کمی ہے تمہیں ؟؟ یہ سب تمہارے بابا ہی تو کرتے ہیں تمہارے لیے ۔ اور اگر وہ تم سے پیار نا کرتے ہوتے تو یہ سب کیوں کرتے بتاؤ
“پیسہ جینے کے لیے نہیں زندگی گزارنے کے لیے اہم ہوتا ہے
جینے کے لیے پیار محبت اور اپنوں کا ساتھ چاہیے ہوتا ہے
مجھے جینا ہے ماما صرف زندگی نہیں گزارنی” ۔۔۔۔
اسکی اس بات پر روشنا بلکل چپ ہو گئی ۔پھر کچھ دیر بعد بولی
کتنی بڑی بڑی باتیں کرنے لگی ہو حنادی تم ، میں تو اب بھی تمہیں وہی چھوٹی سی بچی سمجهتی تھی جو کچھ بھی ہو جانے پر دوڑ کے میری گود میں منہ چھپا لیتی تھی ۔ جو میری ہر بات پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آتی تھی پر میں تو غلط تھی تم واقع بڑی ہو گئی ہو
اس میں میرا قصور نہیں ہے ماما یہ شعور ،عقل تجربات اور سب سے اہم وقت، یہ ان سب چیزوں کا کیا دھرا ہوتا ہے ورنہ کون چاہتا ہے اپنا خوبصورت بے فکر بچپن چھوڑ کر اس ویران سی جوانی میں آنے کا ۔۔۔۔۔
حنادی اللّه سے دعا کیا کرو تم ، اسکی عبادت کیا کرو یہ جو جوانی کی عبادت ہوتی ہے نا یہ بڑے کام کی چیز ہے ہر قسم کے برے خیالات سے بندے کو محفوظ رکھتی ہے اور اسکا اجر بھی زیادہ ہوتا ہے اور ویسے بھی یہ دنیا تو فانی ہے آج نہی تو کل ختم ہو جائے گی حقیقی دنیا تو وہ ہے جو مرنے کے بعد آنی ہے تو اگر تم اس دنیا میں اپنی پسند کی چیزیں حاصل نہیں کر پا رہی تو کوئی بات نہیں ایسی زندگی گزارو کہ اگلی دنیا میں تمہارے کام آ جائے
اللّه کی رضا کے مطابق جیو تو وہ دونوں دنیا میں جو مراحل ہم نے طے کرنا ہوتے ہیں انھیں آسان کر دیتا ہے بیشک وہ رب بہت رحیم ہے ۔ تم بس دعا کیا کرو
دعا ؟ دعا تو میں بہت کرتی ہوں ماما پراللّه تعالی میری دعا قبول ہی نہیں کرتے۔
ایسا نہیں ہوتا بچے کہ دعا قبول ہی نا ہو ۔ اللّه سبکی دعایں سنتا بھی ہے اور قبول بھی کرتا ہے ہاں لیکن سہی وقت آنے پر
کیا پتا تمہاری دعا سن لی گئی ہو اور اسے قبول کرنے کا راستہ بنایا جا رہا ہو ۔ تمہارا کام صرف دعا مانگنا ہے اسے قبول کرنا اللّه کے ہاتھ میں ہے کامل یقین کے ساتھ اللّه سے مانگو وہ ضرور سنے گا ، وہ ہر شے پر قادر ہے وہ سب سے عظیم ہے ۔
اور دوسری طرف اگر تمہاری دعا نہیں سنی جا رہی تو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللّه کو تمہارا مانگنا پسند آ گیا ہو ، تمہاری آواز اور تمہارا اس کے سامنے گڑگڑا کا مانگنا اسے بھا گیا ہو اور وہ تمہیں اور سننا چاہتا ہو اس لیے تمہاری دعا قبول نا کر رہا ہو اور تیسری چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اللّه نے تمہارے لیے کچھ بہت بہتر سوچا ہو گا لیکن وہ دینے کا ابھی وقت نہیں آیا ہو گا اور اللّه اس وقت کے انتظار میں ہو گا اس لیے تمہاری دعا پر کن نہیں کہ رہا ہو
اور بیٹا ان تمام صورتوں میں تمہارا کوئی بھی نقصان نہیں ہوگا بلکہ تمہیں صرف فائدہ ہی ہوگا ،،، اس لیے مطمین رہو وقت آنے پر سب ٹھیک ہو جائے گا
ماما، بابا بھی ٹھیک ہو جایں گے نا ہمارے ساتھ؟ اس نے ایک چھوٹی سی معصوم بچی کی طرح یہ سوال کیا جس سے اسکی من پسند چیز چھین لی جائے اور وہ اس کے واپس ملنے کا بڑی آس سے پوچھ رہا ہو ۔۔ روشنا کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا اس نے فوراً اسے گلے لگا لیا
ہاں میری بچی انشااللہ ایک دن وہ بھی ٹھیک ہو جایں گے بس تم کبھی اللّه سے اور اسکی رحمت سے مایوس مت ہونا
ماما آپکو پتا ہے آپ ورلڈ بیسٹ ماما ہیں آئ لوو یو سو مچ
آئ آلسو لوو یو سو مچ میری جان ۔۔۔
یاالله میں اپنی بیٹی کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی ، ساری زندگی جس شخص کی محبت کے لیے میں تڑپتی رہی اب اسی کی محبت کے لیے میری بیٹی تڑپ رہی ہے ۔ کیوں اے اللّه کیوں ؟ میں صرف تجھ سے ہی مانگ سکتی ہوں اور تجھ ہی سے مانگ رہی ہو اے اللّه ہماری دعاؤں پر کن فرما دے !آمین
روشنا حنادی کے بال سہلاتی رہی اور ساتھ ساتھ اپنے خدا سے باتیں کرنے لگی
✸_______________ ✸_______________✸
فبیحہ رکو ۔۔۔۔۔
یونیورسٹی جا رہی ہو ؟
جی آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ۔۔۔
اس لیے کیوں کہ میں بھی اسی طرف جا رہا ہوں چلو آؤ تمہیں چھوڑ دیتا ہوں، وہ ابھی گھر سے نکلی ہی تھی کہ رکشہ لے کر یونیورسٹی چلی جائے گی اسی اثنا میں زمیل جو کہ کہیں جانے والا تھا اس نے اسے روک لیا
ارے نہیں نہیں تایی جان ڈانٹیں گی میں چلی جاتی ہوں۔
او یار بیٹھ جاؤ کچھ نہیں کہتیں تمہاری تایی جان ۔ فبیحہ یوں ہی کشمکش میں تھی کہ بیٹھے یا نا بیٹھا ، زمیل نے جب دیکھا کہ وہ ٹس سے مس نا ہوئی تو گاڑی سے باہر نکل کر اسکی طرف آیا اور ہاتھ پکڑ کر اسے اندر بیٹھا اور پھر آ کر ڈرائیونگ سیٹ سمبھال لی
تم تو ایسے سوچ رہی تھی جیسے میں تمہیں اغوا کرنے جا رہا ہوں پاگل ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں كزنز ہیں ، اتنا تو اعتبار ہونا چاہے نا تمہیں ۔۔۔۔ اس نے نروٹھے لہجے میں کہا
نہیں وہ بس میں تایی جان کی وجہ سے کہ رہی تھی ، فبیحہ منمنای
کیسی جا رہی ہے پڑھائی ؟ زمیل نے بات کا آغاز کیا
جی اچھی جا رہی ہے ۔ فبیحہ نے اتنی آئستہ جواب دیا کہ زمیل بمشکل ہی سن سکا ۔ اچھا تمہیں اگر کوئی بھی مسلہ ہو تو مجھ سے مدد لے سکتی ہو
جی شکریہ ۔۔۔۔۔۔ وہی ہمیشہ کی طرح دھیما اور ٹھہرا ہوا لہجہ
تھوڑی دیر میں یونیورسٹی آ گئی ۔ جب فری ہو جاؤ تو مجھے کال کر دینا میں آ جاؤں گا لینے کے لیے
نہیں نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے میں خود چلی جاؤں گی، فبیحہ نے اس پر تایی جان کے رد عمل کو سوچ کر جھرجھری لی
میں نے تم سے پوچھا نہیں ہے رامین تمہیں بتایا کہ میں لینے آؤں گا ۔ زمیل کچھ دنوں سے یوں ہی فبیحہ پر روب جمانے لگا تھا اور مزے کی بات تو یہ تھی کہ فبیحہ کو یہ بات بری لگنے کی بجاۓ اچھی لگتی تھی اور وہ اسے رامین کہ کر بلاتا تھا فبیحہ کو یاد تھا کہ اس کے بابا بھی اسے پیار سے رامین ہی بلاتے تھے
کہاں گم ہو اندر نہیں جانا ؟؟ اسے کسی اور ہی دنیا میں کھوئی دیکھ کر زمیل نے اسکی آنکھوں کے آگے چٹکی بجائی اور اسے ہوش کی دنیا میں واپس لایا
جی ۔۔۔ ہاں وہ بس جا رہی میں ۔ کہتے ساتھ ہی وہ اندر کی طرف بھاگی اور زمیل مسکرا کر رہ گیا کھوئی قوم ۔۔۔عام طور پر تو سوئی قوم سنا تھا اب کھوئی قوم بھی سن لیا ۔۔۔۔ ہاہاہاہا
فبیحہ کا دن بہت اچھا گزرا وہ انجانے میں ہی سہی لیکن سارا وقت صرف زمیل کے بارے میں ہی سوچتی رہی ۔
اس کے ماں باپ کر جانے کے بعد وہ پہلا شخص زمیل ہی تھا جو اسکی پرواہ کرتا ہے اس لیے اسکا دل خود بخود ہی اسکی طرف جھکتا جا رہا تھا۔
یونیورسٹی سے فری ہوتے ہی اس نے زمیل کو فون کیا جو اسے ٹھیک آدھے گھنٹے بعد لینے پہنچ گیا
وہاں سے گاڑی اس نے ایک کوفی شاپ کی طرف موڑدی
چلو اترو ۔۔ دروازہ کھول کر وہ اس طرف آیا اور اب اسے باہر نکلنے کا کہنے لگا
زمیل ہمیں دیر ہو جائے گی اور پھر تایی جان کو پتا چل جائے گا ہم گھر چلتے ہیں نا ۔ اس نے منت بھرے لہجے میں کہا
یار کیا ہر وقت تم تایی جان تایی جان کرتی رہتی ہو کچھ نہیں کہتیں وہ تمہیں اب آؤ کوفی پیتےہیں چل کر
وہ نا چاھتے ہوۓ بھی اس کے ساتھ اندر چلی گئی لیکن اسکا دل ابھی بھی بہت ڈرا ہوا تھا اور ماتھے پر بھی پسینہ آ رہا تھا
انھیں سامنے ہی ایک ٹیبل خالی مل گیا اور وہ دونوں بیٹھ گئے ۔ بیٹھتے ساتھ ہی زمیل کی نظر رامین پر پڑی جو ہلکی ہلکی زرد ہو رہی تھی اور غالباً کانپ بھی رہی تھی۔ اسے شدید غصہ آیا
یار ایسا لگ رہا ہے کہ میں تمہیں اٹھا کر لایا ہوں ہر آتا جاتا بندہ بڑے تجسس کے ساتھ ہمیں دیکھ رہا ہے ۔ جی رامین نے صرف جی کہنے پر ہی اکتفاکیا ۔۔۔
زمیل نے اس سے پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی اور خود ہی کولڈ کوفی آرڈر کر دی تھوڑی دیر میں ہی وہ پی کر وہاں سے نکل آئے
گاڑی میں بیٹھ کر فبیحہ کی سانس میں سانس آیی جب کہ زمیل کا موڈ اب خراب ہو چکا تھا
اس نے بیٹھ کر زور سے دروازہ بند کیا جو کہ غصے کا اظہار تھا ۔ اس کے ایسا کرنے پر فبیحہ ایک پل کو سہم گئی
زمیل ؟؟ اس نے ڈرتے ڈرتے پکارا
ابھی میرا موڈ بلکل ٹھیک نہیں ہے سو بہتر ہو گا کہ تم مجھے نا بلاؤ ۔۔۔۔
اس کے کہنے کی دیر تھی کہ فبیحہ چپ چاپ کھڑکی کی طرف کھسک کر بیٹھ گئی اور باہر دیکھنے لگی ۔۔۔
یہاں ہی اتر جاؤں تا کہ امی کوئی مسلہ نا بنایں
گھر سے ایک گلی پیچھے ہی اس نے گاڑی روک کر رامین سے کہا اور وہ بھی فوراً ہی اتر گئی ۔ اسکی اس پھرتی پر زمیل نے منہ بسورا
تیز تیز قدم اٹھاتی وہ گھر پہنچی اور جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا سامنے ہیشہلا بیگم غصے سے ٹہلتی ہوئی نظر آییں
کہاں سے آ رہی ہو مہارانی صاحبہ ؟ انہوں نے آڑے ہاتھوں لیا
وہ میں وہ تایی جان ۔۔۔۔ اس کے حلق سے تو آواز ہی نہیں نکل رہی تھی
وہ میں کیا ؟؟ سیدھا سیدھا بتاؤ تم کہاں گئی تھی یا پھر یہ کہوں کہ کس کے ساتھ تھی اتنے وقت سے تم؟
شہلا کی اس بات پر تو فبیحہ کی رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی اور وہ ڈر کے مارے کانپنے لگی
ارے رامین تم آ گئی ؟میں نے تمہیں وہاں ڈھونڈا لیکن تم مجھے ملی ہی نہیں ۔۔۔ پیچھے سے زمیل نے داخل ہوتے ہوئے کہا
تم اسکی یونیورسٹی کیا لینے گئے تھے ؟ شہلا نے ابرو اچکا کر پوچھا
امی آپکو پتا ہے نا میرا دوست زبیر جو اسی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے جہاں رامین جاتی ہے تو آج انکا جاب فیئر تھا اس نے کہا تم بھی آ جاؤ تو میں بھی چلا گیا ، وہاں سے نکلتے وقت میں نے سوچا اسے بھی ساتھ ہی لے آؤں تو ایک لڑکی نے بتایا کہ وہ تو ابھی ابھی نکلی ہے پھر میں بھی آ گیا
کیا سہی کہ رہا ہے زمیل ؟ تم وہاں ہی تھی ؟؟
جج جی تایی جان ۔۔۔۔۔ وہ بمشکل اتنا ہی بول سکی
اچھا ٹھیک ہے جاؤ اور کپڑے تبدیل کر کے نیچے آؤکھانا بنانا ہے تم نے ابھی، ہم کب سے بھوکے بیٹھے ہوئے ہیں اور زمیل بیٹا تم فریش ہو جاؤ تب تک ۔ وہ بیک وقت دونوں سے مخاطب ہوئیں
وہ بھاگتی ہوئی کمرے میں آیی دروازہ لاک کیا اور بیگ کو بیڈ پر پھینک دیا اور واشروم میں چلی گئی اور کتنی دیر تک منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارتی رہی اس نے شیشے میں اپنا عکس دیکھا سرخ آنکھیں ، زرد رنگ بکھرے بال کیسے ویران سا چہرہ لگ رہا تھا اپنے ماما بابا کے ہوتے ہوئے وہ کیسے کھلی کھلی سی رہتی تھی
میں دوبارہ کبھی زمیل کے ساتھ کبھی نہیں جاؤں گی ۔ اس کے دماغ نے اسے خبردار کیا
پاگل ہو گئی ہو کیا اس گھر میں ایک وہی ہے جو تمہارا خیال رکھتا ہے اور وہ تمہیں باہر بھی اسی لئے لے کر گیا تھا تا کہ تم اچھا محسوس کرو۔ دل نے دہائی دی
لیکن اگر تایی جان کو پتا چل جاتا تو وہ کیا کرتیں تمہیں اندازہ بھی ہے ؟:وہ اپنے دل کے ساتھ بحث کرنے لگی
انھیں کبھی پتا نہیں چلتا ۔ کیوں کہ تمہیں بچانے کیلئے زمیل ہمیشہ موجود رہتا بلکل ویسے ہی جیسے آج وہ فرشتہ بن کر پہنچا
لیکن ؟ دماغ نے پھر سے ایک کمزور سی آواز اٹھائی لیکن دل نے محبت کے لیے ترستی اس لڑکی کے دماغ کو ڈپٹ کر چپ کروا دیا
اب مجھے زمیل سے معافی مانگی ہوگی میں نے اسکا دل دکھایا تھا نا
ہاں بلکل اور آیندہ میں اس کے ساتھ کہیں بھی جاؤں گی تو اپنا رویہ بھی اچھا رکھوں گی
دل و دماغ میں ہونے والی جنگ کا فتح کار دل کو ٹھہرایا گیا
✸_______________ ✸_______________✸
حنادی رک جاؤ بس ناشتہ بن گیا ہے کھا کر جانا ۔ نہیں ماما پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے وہاں کینٹین سے کھا لوں گی پریشان مت ہوئے گا ۔ وہ بھاگتی ہوئی پورچ کی طرف گئی جہاں ڈرائیور پہلے سے ہی گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا
یا اللّه کیا کروں میں اس لڑکی کا ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتی ہے۔۔۔
اس لڑکی کے لچھن مجھے ٹھیک نہیں لگتے اس لیے اس کی پڑھائی وڑھائ کو ختم کرواؤ اور اسکا کوئی رشتہ دیکھ کر اسے رخصت کرو یہاں سے
امی حنادی ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی اس لیے میں ایسی کوئی بات بھی نہیں کروں گی اس سے ۔
تو تمہارے منہ بھی زبان آ گئی ہے اب مجھے جواب دو گی تم ؟ اتنی ہمت ہو گئی تمہاری ؟ انہوں نے روشنا کا بازو مڑوڑتے ہوئے پوچھا ، درد کے مارے اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی لیکن اس نے آج ہمت نا ہارنے کا فیصلہ کیا
اب بات مجھ سے آگے بڑھ چکی ہے اور میری بیٹی تک پہنچ گئی ہے اس لیے مجھے اب بولنا ہوگا ۔ اور آپ میری یہ بات ہمیشہ یاد رکھے گا میں اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دوں گی ، اس نے اٹل اور مظبوط لہجےمیں کہا
انہوں نے ایک جھٹکے سے اسکا بازو چھوڑا اس نے سلیپ کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے بچایا
دیکھ لوں گی میں تمہیں بھی اور تمہاری بیٹی کو بھی،وہ غصے سے باہر نکل گئیں ۔ حنادی کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا جسے اس نے بے دردی سے صاف کیا
میں اپنی جان سے پیاری بیٹی کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتی مجھے اس کے لیے مظبوط ہونا ہوگا مجھے حنادی کے لیے یہ سب کرنا ہوگا
حنادی یار تم اتنا لیٹ کیوں آیی ہو تمہیں پتا بھی ہے مجھے انتظار کرنا بلکل نہیں پسند ۔ علوینا نے فبیحہ کو جوں ہی اندر داخل ہوتے دیکھا فورن اسکی طرف لپكی اور اسے آڑے ہاتھوں لیا
آئ ام سوری یار آنکھ ہی نہیں کھلی میری اور صرف تمہارےلیے بغیر ناشتے کے آیی ہوں میں
آیی بڑی تم میرے لئے بغیر ناشتہ کئے ۔ علوینا نے منہ بسورا
اچھا نا سوری اب بس بھی کرو آئندہ کوشش کروں گی ٹایم پر آنے کی ۔ حنادی نے عاجز آ کر کہا
کیا یاد کرو گی کس سخی سے پالا پڑا ہے تمہارا، جاؤ معاف کیا میں نے تمہیں ، اب چلو کینٹین چل کر ناشتہ کر لیں
اس کے انداز پر حنادی کا قہقه بلند ہوا ۔ کھانے کے معاملے میں تو تم ہمیشہ تیار رہتی ہو ۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔۔ علوینا کھانے کی بہت شوقین تھی
دونوں نے ڈٹ کر ناشتہ کیا ۔ اب چلو کلاس میں چلیں اس سے پہلے کے وہ نا مراد آ جائے ۔
ہاں یار ورنہ سر نے ہمیں انٹر بھی نہیں ہونے دینا ۔ سر زبیر جن کو علوینا نے نا مراد کا لقب دیا تھا وہ ان کے ٹیچر تھے جن سے ان دونوں کی خاص طور پر علوینا کی بلکل بھی نہیں بنتی تھی اور وہ صرف مجبوری کا نام شکریہ کی وجہ سے انکی کلاس لیتی تھی ۔ بھاگتی دوڑتی وہ دونوں کلاس میں پہنچی اور خوش قسمتی سے ابھی سر کلاس میں نہیں آئے تھے ۔ انہوں نے سکھ کا سانس لیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گئیں
یار حنادی تم میگزین لے کر گئی تھی پڑھ لی کیا ؟
پڑھنے کے لیے تھوڑی لے کر گئی تھی ۔ اس نے کھوئے کھوئے لہجے میں جواب دیا ۔ علوینا نے اسے دیکھا وہ اس وقت کسی اور ہی دنیا میں نظر آ رہی تھی
کیا مطلب اگر پڑھنے کے لیے نہیں لے کر گئی تھی تو پھر کس لیے ؟ علوینا نے اسے زور سے ہلایا تا کہ وہ ہوش کی دنیا میں واپس آ جائے
ہاں وہ میں اس لیے ۔۔۔ پڑھا تھا میں نے اسے تھوڑا سا وہ اس طرح کہ میں صرف دیکھ رہی تھی کیا کیا لکھا ہوا اس میں ۔ حنادی اس کے یوں اچانک پوچھنے پر گھبرا گئی تھی جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو ۔ وہ اب یہاں وہاں دیکھنے لگی
ادھر دیکھو میری طرف مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو نا تم ؟ میری آنکھوں میں دیکھ کر بات کرو تم ۔
یار علوینا میں بھلا تم سے کیا چھپاؤں گی فضول میں ہی لگی ہوئی ہو تم اب۔ تمہاری میگزین تمہیں واپس لا دوں گی میں
اوہ سیرسلئ تمہیں لگ رہا کہ میں اس لیے پوچھ رہی تھی تم سے ۔ اس نے ابرو اچکا کر پوچھا
نہیں یار میں نے ایسا کب کہا ۔ حنادی نے سر جھکا کر بولا
اب تم مجھ سے باتیں بھی چھپایا کرو گی ٹھیک ہے یہ ہونا بھی رہتا تھا۔ مجھے کوئی کام ہے اس لیے میں چلتی ہوں ۔ علوینا نے اپنا بیگ اٹھایا اور اٹھ گئی
یار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علوینا بیٹھ جاؤ نا پلیز اچھا بیٹھو بتاتی ہوں نا۔ اس نے کھینچ کر اسے واپس بیٹھایا
علوینا وہ _____ حنادی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ بات کہاں سے شروع کرے ۔
اب کیا تمہیں مجھ سے بات کرنے سے پہلے بھی الفاظ تلاشنے پڑیں گے ؟
یار مجھے محبت ہی گئی ہے ۔ حنادی نے آنکھیں بند کر کے بول دیا اور جب اس نے آنکھیں کھولی تو سامنے علوینا کو سکتے میں پایا
ہاہاہاہاہاہاہاہا اچانک سے ہی علوینا ہنسنے لگی اور اتنا ہنسی کے اس کی آنکھوں سے پانی نکلنے لگا ۔ حنادی کو ہتک کا احساس ہوا ۔ تم میرا مذاق بنا رہی ہو ؟ اس نے غصے سے پوچھا
علوینا : میں کہاں تم خود اپنا مذاق بنا رہی ہو ۔ وہ کہہ کر پھر ہنسنے لگی
حنادی: سٹوپ اٹ یار میں اس لیے تمہیں نہیں بتانا چاہ رہی تھی کیوں کہ تمہارے نزدیک سب کچھ مذاق ہے اور کچھ نہیں ۔ اس نے غصے سے منہ موڑ لیا
علوینا : اچھا سوری آئ ام سیریس ناؤ اب بتاؤ پوری بات ۔ وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی
حنادی : نہیں مجھے اپنا تماشا نہیں بنوانا جو تمہیں پوری بات بتاؤں۔۔۔ تڑخ کر جواب دیا
علوینا : اچھا نا یار کہا تو ہے سوری اب نہیں کروں گی کچھ ۔ اب بتا بھی چکو کس سے محبت ہوئی ہے تمہیں ؟ اسے ابھی بھی ہنسی آ رہی تھی لیکن حنادی کے ڈر سے خود پر کنٹرول کر کے بیٹھی ہوئی تھی
حنادی : یار علوینا میں نے جب سے اسے دیکھا ہے میں کچھ اور دیکھنے کے قابل نہیں رہی ، مجھے بہت اپنا اپنا سا لگتا ہے وہ جیسے میرے بہت قریب ہو وہ میرے ہر درد کی دوا ، میری ہر دعا کی آمین ہے وہ ۔ جیسے خدا نے میری ساری دعاؤں پر کن فرما دیا اور وہ میری قسمت میں لکھ دیا گیا ہو
اسے دیکھنے کے بعد سے لے کر اب تک میں یہ محسوس کر رہی ہوں جیسے وہ میرے پاس ہے اتنا پاس کہ اگر میں چاہوں تو ہاتھ لگا کر اسے چھو سکتی ہوں
وہ اتنے جذب سے بول رہی تھی اسکی آنکھوں میں اتنی سچائی تھی کہ علوینا نا چاھتے ہوۓ بھی اس پر ایمان لے آیی
علوینا : نام کیا ہے اسکا ؟ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
حنادی : میرحاران
علوینا: میر حاران ؟ ایک منٹ ایک منٹ یہ تو وہی میگزیں والا نہیں ہے ؟
ہاں وہی ہے . اس نے سر جھکا کر مجرموں کی طرح جواب دیا
مطلب تم پاگل واگل تو نہیں ہو ایک بندے کو تصویر میں دیکھ کر تمہیں اس سے محبت ہو گئی ؟ یار تم یہ کیا کہ رہی ہو ہوش میں تو ہو ۔ تم اسے جانتی بھی نہیں ہو نام کے علاوہ اسکا کچھ پتا بھی نہیں اور تم محبت کا دعوی کر رہی ہو
میں صرف دعوی نہیں کر رہی مجھے واقع میں اس سے محبت ہے
میں نے اسے سرچ کیا تھا وہ ایک بزنس مین بھی ہے اور اسکی فیملی بھی اچھی ہے ۔ حنادی منمنانے لگی ۔ تم کچھ کرو نا علوینا تم خود کہتی ہو تم میرے لیے کچھ بھی کر سکتی ہو اسے ڈھونڈ دو پلیز مجھے وہ ہر حال میں چاہیے۔
وہ کوئی چیز نہیں ہے حنادی جو تمہیں ہر حال میں چاہیے ایک جیتا جاگتا انسان ہے اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ اسکی شادی بھی ہو گئی ہوئی ہو ۔۔۔۔۔۔۔
نہیں وہ سنگل ہے اسکی بائیو میں تھا یہ ۔۔۔
مطلب تم سب پتا لگوا کر آیی ہو ؟ علوینا نے تنک کر پوچھا
ہاں نا اب بس اسے ڈھونڈنا ہے تم نے اور میں اس سے ملوں گی اسے بتاؤ گی ، وہ مجھ پر یقین تو کرے گا نا ؟ اس نے بچوں کی طرح بڑی آس سے پوچھا ۔ علوینا کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا
کیوں نہیں کرے گا یقین۔۔ وہ تو دنیا میں آ جائے گا جب اتنی خوبصورت لڑکی اس سے محبت کا اظہار کرے گی
ہاہاہا اور پھر دونوں سہیلیاں دیر تک ہنستی رہیں
کچھ ہی دیر بعد کلاس میں سر آ گئے اور پھر ان دونوں کی چلتی زبانوں کو بریک لگے
اچھا ٹھیک ہے مجھے لینے آ گئے ہیں میں چلتی ہوں تم بھی دیہان سے جانا ۔ حنا دی تھوڑا آگے جا کر پھر مڑی تم کچھ کرو گی نا علوینا ؟
ہاں بس مجھ پر بھروسہ رکھو میں اسے ڈھونڈ نکالوں گی۔ علوینا نے اگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھاما اور اسے دبا کر یقین دلانے کی کوشش کی کہ تم فکر نا کرو میں ہوں نا اور اس پر حنادی مطمئین ہو کر چلی گئی اور علوینا بیٹھ کر سوچنے لگی کہ میر حاران سے کیسے ملا جا سکتا کیوں کہ اسے ابھی لیٹ لینے آنا تھا ۔
✸_______________ ✸_______________✸
ماما آج میں بہت خوش ہوں ۔۔۔۔ حنادی جھومتی ہوئی کچن میں آیی اور روشنا سے لپٹ گئ
ارے واہ میری بیٹی آج خوش ہے اور وجہ کیا ہے اس کے پیچھے ؟ روشنا نے بڑے تجسس سے پوچھا
اممممم وہ تو میں ابھی نہیں بتاؤں گی لیکن ہاں بہت جلد بتا دوں گی انشااللہ بس آپ دعا کیجۓ گا میرے لئے کہ مجھے میری خوشی مکمل مل جاۓ۔۔
میری جان میری دعایں تو ہر پل تمہارے ساتھ ہیں۔ اللّه کرے تمہیں تمہاری مکمل خوشی مل جائے۔۔
ماما ایک سوال پوچھوں آپ سے ؟ حنادی نے بڑا سوچتے سمجھتے کہا
روشنا تو اتنے وقت بعد اپنی بیٹی کو یوں خوش دیکھ کر اللّه کا بےانتہا شکر ادا کر رہی تھی۔۔۔۔ ہاں پوچھو وہ کھانا بنانے کے ساتھ ساتھ حنادی کو جواب دے رہی تھی
یہ محبت کیا ہوتی ہے ؟ اس کے اس سوال پر روشنا کے ہاتھ میں پکڑا باؤل چھوٹ کر شیلف پر گر گیا اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور چہرے پر پسینہ آنے لگا تھا
کیا ہوا ماما آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ حنادی نے فوراً آگے بڑھ کر اسے تھاما
ہاں میں ٹھیک ہوں لیکن۔۔۔۔۔
تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو ؟ اسکی آواز کانپ رہی تھی لیکن اس بے ممکن حد کر اپنی حالت حنادی سے چھپانے کی کوشش کی تھی۔۔
سوال پر سوال نہیں کرتے مما ، اچھی بات نہیں ہوتی پہلے میرے سوال کا جواب دیں آپ ۔۔۔۔۔۔ وہ شاید آج اتنی خوش تھی کہ اپنی ماں کی کیفیت سمجھ ہی نا سکی۔
محبت ؟ حنادی محبت لا حاصل چیز ہوتی ہے اور
کچھ چیزیں لاحاصل ہی اچھی لگتی ہیں جب انہیں پا لیا جاتا ہے تو انہیں چاہنے کی شدت میں کمی آ جاتی ہے وہ بیقراری جو پہلے ہوتی ہے، وہ حاصل ہونے کے بعد کم ہو جاتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ختم ہو جاتی ہے پھر انسان اور چیزوں کی طرف بھاگنا شروع ہو جاتا ہے انھیں پانے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے ہزاروں جتن کرتا ہے اور اگر اوہ ہمیشہ لاحاصل ہی رہے تو مزہ دیتی ہے اور محبت بھی انہیں چیزوں میں سے ایک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھہر ٹھہر کر اس نے ہر لفظ ادا کیا اور اپنے خیالات کا اظہار کیا، اس نے اللّه سے دعا کی کہ اس کے خدشات غلط ہی ہوں مگر پھر بھی محبت کا ایک درد ناک پہلو اس نے حنادی کو بتایا کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھی اسکی پیاری سی بیٹی بھی اس دلدل میں پاؤں رکھے۔ ویسے بھی اسے تو محبت کے بارے میں وہی پتا ہونا تھا جو آج تک اس کے ساتھ ہوا تھا
بہت سے لمحے یوں خاموشی سے ہی سرک گئے
ٹھیک ہے میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں ، اس خاموشی میں حنادی کی آواز گونجی اور وہ اپنی بات مکمل کر کے باہر نکل گئی اور روشنا کے ہاتھ میں سوچوں کا جہاں دے گئی
آخر حنادی نے اچانک ایسا سوال کیوں پوچھا ؟ وہ بھی تب جب وہ بہت خوش تھی ؟ آخر وہ خوش کس وجہ سے تھی ؟ کیاواقع محبت ؟ نہیں نہیں اللّه نہ کرے کہ ایسا ہو ۔۔۔۔ اس خیال سے ہی روشنا کی روح تک ڈر گئی تھی وہ اپنی پھول سی بیٹی کو اپنی طرح تڑپتا کیسے دیکھ سکتی تھی
حنادی اپنے کمرے میں آیی دروازہ بند کیا اور موبائل پکڑ کر اس دشمن جان کی تصویر کھول کر بیٹھ گئی
کیا تھا اس میں ایسا کہ جب جب حنا دی اسے دیکھتی یا سوچتی تو اسے اپنا آپ بھولنے لگتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
وہ تصویر میں ٹیڑھا کھڑا مسکرا رہا تھا اسکی دائیں گال پہ ایک گہرا گڑھا پڑتا تھا اور اس سے عین اوپر ایک کالا تل، اس تل پر حنادی کو اپنا دل رکتا ہوا محسوس ہوتا تھا اس کے عنابی ہونٹ جن سے مسکراہٹ جدا ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی وہ بھی کھلے ہوۓ لگ رہے تھے اور ماتھے پر بکھرے سلکی براؤن بال جو سورج کی روشنی میں مزید چمک رہے تھے اس کے پیچھے ایک خوبصورت آبشار بہ رہی تھی اور اس خوبصورت منظر کا سب سے خوبصورت اور دلکش حصہ اسکی اپنی ذات ہی تھی۔ بیحد گہرائی سے اسکی تصویر کا جائزہ لیتی وہ دنیا سے بیگانی ہستی بھی مسکرا رہی تھی وہ بھی پورے دل سے اور ساتھ ہی ساتھ اللّه سے دعایں مانگ رہی تھی کہ وہ میر حاران کو اسکی قسمت میں لکھ دے کیوں اب حنادی لگتا تھا اس کے بغیر حنادی کا گزارا ممکن نہ رہا تھا
✸_______________ ✸_______________✸
Join our Instagram
https://www.instagram.com/adab.avenue
Join our Youtube Channel
1 Comment
It is amazing…..