گھرآنے کے بعد سارا وقت حنادی سوشل میڈیا پر اسے ہی سرچ کرتی اور اسکی نئی نئی تصویریں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی رہتی اور دوسری طرف علوینا بھی اسے ہی ڈھونڈ رہی تھی تا کہ اپنی دیوانی دوست کے دل کی بات اس تک پہنچا سکے
آدھی رات کو وہ بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ کہیں میر اسے ریجیکٹ ہی نہ کر دے اور یہ سوچنا ہی اسکی جان لینے کے لیے کافی تھا۔۔
ماما کہتی ہیں محبت لاحاصل ہے لیکن ہر کوئی تو ایک سا نہیں ہوتا نا جو محبت کی قدر نا کرے ، ماما نے تو مجھے اپنا تجربہ بتایا ہے لیکن شاید میرے ساتھ ایسا کچھ نہ ہو ۔ وہ خود کو تسلياں دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔
ہم انسان بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں نا ہزاروں خواب بنتے ہیں ہزاروں چیزوں کی خواہش کرتے ہیں اور اسی سب میں ہماری زندگی کا مختصر سا سفر ختم ہو جاتا ہے اور ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔۔۔۔
زندگی تیرے گلستاں کے مہکتے ہوۓ پھول ۔۔۔۔
ایک دن آئے گا ، مرجھائیں گے ، گر جایں گے ۔۔۔۔
خواہشوں کا ہم اٹھاتے ہوۓ یہ بارگاراں ۔۔۔۔
چلتے چلتے کہیں گر جایں گے ، مر جائیں گے۔۔۔۔
✸_______________ ✸_______________✸
فبیحہ نے کمرے کا دروازہ کھولا اور سامنے زمیل کو کھڑے پایا ، اس کے ہاتھ میں پاپ کارن بھی تھے ۔ دروازہ کھولتے ہی وہ ذرا سا ٹیڑھا ہو کر اندر آ گیا کیوں کہ فبیحہ دروازے کے عین درمیان میں کھڑی ہوئی تھی
وہ آدھی رات کو اس کے کمرے میں آ گیا تھا اور اگر تایی جان نے دیکھ لیا تو وہ کیا سوچیں گیں ؟
وہ مڑی اور دیکھا کہ زمیل بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا تھا اور اب اس نے فبیحہ کا لپٹاپ اٹھا کر اپنی گود میں رکھا
اسکا پاسوورڈ کیا ہے ؟ اس نے چہرہ اٹھا کر فبیحہ سے پوچھا جو صم بکم کھڑی ہوئی تھی
رامین میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں اور وہاں کیوں کھڑی ہو یہاں آ کر بیٹھ جاؤ مووی دیکھتے ہیں ویسے بھی میں بہت بور ہو رہا تھا اور مجھے پتا تھا تم بھی نہیں سوئی ہو گی اس لیے یہاں آ گیا کہ مل کر دیکھ لیتے ہیں۔۔
فبیحہ نے کوئی جواب نا دیا بس دروازے کے پاس سے ہٹ کر بیڈ کے قریب آیی اور کھڑی ہو گئی ۔ جو میں سوچ کر آیا ہو رامین وہ صرف اس صورت میں پوسسبل ہے اگر تم مجھے اپنے لپٹاپ کا پاسوورڈ بتاؤ گی۔۔۔۔۔
زمیل آپکو یوں رات میں میرے کمرے میں نہیں آنا چاہیے تھا اگر کسی نے دیکھ لیا تو بہت بڑا مسلہ بن جائے گا ۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا
زمیل نے ایک گہری سانس لی ، اور بیڈ سے اتر کر فبیحہ کے مقابل آن کھڑا ہوا
تمہاری انہیں سب باتوں نے سارا دن میرا موڈ خراب کئے رکھا ۔ کوئی دیکھ لے گا کسی کو پتا چل گیا تو کیا ہوگا اینڈ وٹ ایور لیکن ہوا کیا؟ کچھ بھی نہیں ، نا ہی کسی کو کچھ پتا چلا اور نا ہی کسی نے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔
رامین ڈرنا چھوڑ دو تم جتنا ڈرو گی سب سے ، سب تمہیں اتنا ہی ڈرایں گے، مقابلہ کرنا سیکھو اگر سروایو کرنا چاہتی ہو تو ۔ اور کسی کے لیے نہیں تو اپنے لیے ہی ایٹ لیسٹ اسٹینڈ لینا سیکھ جاؤ
رامین نے کچھ نہیں کہا بس بیڈ کے ایک کنارے پر بیٹھ گئی ۔ میں جانتی ہوں آپ میری وجہ سے ہرٹ ہوۓ تھے آج، اور اس پر میں بہت شرمندہ بھی ہوں بلکہ ابھی آپ سے معافی مانگنے ہی آ رہی تھی میں لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا ۔۔۔۔۔ کہ میں کیا کروں ۔۔۔۔۔ میں شاید رشتوں کی نزاکت کو سمجھ نہیں پاتی اور رہی بات اسٹینڈ لینے کی تو وہ ہمیشہ مما بابا لیا کرتے تھے میرے لیے تو مجھے کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی ۔ اس نے نظریں اٹھا کر زمیل کی طرف دیکھا اسکی آنکھوں میں اتنا درد تھا اتنی تکلیف کہ زمیل اپنی نظریں جھکا گیا ، کچھ لمحے یوں ہی سرک گئے
پھر زمیل نے اپنے اور رامین کے درمیان کے فاصلے کو ختم کیا اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اپنی انگلیوں کے پوروں سے اسکی آنسو صاف کئے۔۔۔
کوئی بھی شخص ساری زندگی آپ کے ساتھ نہیں رہتا ایک نا ایک دن چھوڑ کر چلا جاتا ہے اس لیے خود کو کسی کا عادی نہیں بناتے اور نا ہی کوئی صدا آپ کے لیے لڑسکتا ہے آپکو خود اپنے لیے لڑنا ہوتا ہے اپنی ڈھال خود بننا ہوتا ہے ۔ جو انسان بغیر سہارے کے چلنا سیکھ جاتا ہے تو کوئی بھی اسے گرا نہیں سکتا۔
اب وعدہ کرو کہ میری ان باتوں پر عمل کرو گی ؟ اس نے اپنی ہتھیلی فبیحہ کے سامنے پھیلائی
جس پر فبیحہ نے اپنا ہاتھ رکھ دیا اور ہاں میں سر ہلا دیا
چلو اب ایک اچھی سی سمائل دو اور پھر مووی دیکھتے ہیں
اسکی بات پر فبیحہ مسکرانے لگی وہ بھی پورے دل سے اور ساتھ ہی ساتھ اسے اپنے لیپ ٹاپ کا پاسوورڈ بتانے لگی
پھر ان دونوں نے انگلش مووی دیکھی اور ساتھ وہ پاپکارن کھاۓ جو زمیل بنا کر لایا تھا
تیری قربت تیری رفاقت سانسوں جیسی ہے
وہ ملتی رہتی ہے تو ہی یہ چلتی رہتی ہے
ماہاعنایا
بہت نیند آ رہی ہے اب تو یار صبح بھی خوار ہونے کے لیے نکلنا ہے مجھے ، زمیل نے منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی لیتے ہوئے کہا
صبح کہاں جانا ہے آپ نے ؟ فبیحہ نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے پوچھا
یار جاب کے لیے اپپلا ئے کیا ہے دو تین جگہ وہاں انٹرویو دینے جانا ہے ۔
زمیل آپکے پاس تو اچھی ڈگری ہے پھر آپکو جاب کیوں نہیں مل رہی ؟
جاب ڈگری سے نہیں اچھی قسمت سے ملتی ہے جو کم از کم میرے پاس نہیں ہے ہاں البتہ تمہارے پاس ہے وہ بھی بہت اچھی قسمت۔۔۔
میرے پاس کیسے ؟ فبیحہ نے حیران ہو کر پوچھا
دیکھو نا تمہارے بابا کا سارا بزنس تمہارا ہی تو ہے جیسے ہی تمہاری پڑھائی ختم تم وہاں چلی جاؤ گی اور اسے سمبھالو گی تمہیں تو یوں در در کی ٹھوکریں کھانی ہی نہیں پڑے گیں ۔ زمیل نے کن اکھیوں سے فبیحہ کی طرف دیکھا جو کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی
زمیل آپکو جاب کی کیا ضرورت ہے آپ بابا کے آفس میں کام کر لیں ویسے بھی تو ورکرز ہی اسے چلا رہے ہیں تو آپ چلا لیں اسے ۔۔۔ جب میری پڑھائی مکمل ہو جائے گی تو میں بھی آپ کو جوائن کر لوں گی پھر ہم دونوں مل کر بابا کے سارے خوابوں کو پورا کریں گے اور وہ اپنی کمپنی کو جیسا دیکھنا چاہتے تھے ہم اسے ویسا بنائے گے ۔۔۔ کیسا ؟ فبیحہ نے ایکسایٹڈ ہو کر پوچھا جب کہ زمیل کا چہرہ سپاٹ تھا
کیا ہوا آپکو میرا پلان اچھا نہیں لگا ؟ اس نے پریشان ہو کر پوچھا
یار تمہیں پھوپھو لوگو ں کا پتا ہے نا وہ تو پہلے ہی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تمہیں یہاں رکھا ہی اس لیے ہے تا کہ تمہاری سب چیزوں پر قبضہ کر سکیں ، اور ہماری تمہاری دولت پر نظر ہے وغیرہ وغیرہ امی بتا رہی تھی کہ پھوپھو یہ سب کہہ کر گئی تھی اور شاید اسی لیے انکا سلوک تمہارے ساتھ اچھا نہیں ہے۔
زمیل اسکا برین واش کر رہا تھا اور ممکن حد تک کامیاب بھی رہا تھا
اگر پھوپھو کہیں گی تو میں خود انھیں جواب دوں گی آپکو اسکی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کل ہی آفس جایں میں عالم صاحب }مینجر{کو فون کر دیتی ہوں باقی کا سب کام وہ آپکو بتا دیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پکا نا ؟
ہاں نا پکا اب جایں سو جایں
اوکے جناب گڈ نائٹ
وہ دروازہ تک گیا اور پھر مڑا ووہیں فبیحہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی وہ اس کے یوں اچانک دیکھنے پر بوکھلا گئی اور ساتھ ہی نظریں جھکا گئی
تھینک یو رامین ، اس نے بڑے جذب سے کہا جس پر فبیحہ نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا
مجھے آپ کے کام آ خوشی ہو گی۔۔
اور اسی طرح مسکراتے ہوۓ زمیل کمرے سے چلا گیا اور فبیحہ وہیں بیڈ پر الٹی ہی لیٹ گئی اور اللّه کا شکر ادا کرنے لگی
آج اسے اپنی دنیا مکمل سی لگ رہی تھی جیسے اس نے پورا جہاں پا لیا ہو
لازم نہیں حیات میں احباب کا ہجوم ۔۔
ہو پیکر خلوص تو کافی ہے ایک شخص۔۔
✸_______________ ✸_______________✸
تایی جان آج مجھے گھر پہنچنے میں دیر ہو گئی تو پریشان مت ہوئے گا آپ، وہ دراصل فائنل پیپر آ رہے ہیں تو مجھے اپنی دوست کے ساتھ مل کر تیاری کرنی ہے ۔۔۔۔ اگلے دن صبح ناشتہ بناتے وقت فبیحہ نے شہلا بیگم کو بتایا۔۔۔
اوو بی بی یہ چونچلے یہاں مت کرنا کوئی ضرورت نہیں ہے دیر تک یونیورسٹی رکنے کی، وقت پر گھر آنا ورنہ میں تمہارے تایا کو بتا دوں گی کہ تمہارے چال چلن اچھے نہیں ہیں- خود ہی رکھیں تمہارا خیال میرے تو ہاتھ کھڑے ہیں تمہاری طرف سے۔۔
وہ اپنے دیہان بولتی جا رہیں تھی بغیر یہ دیکھے کہ ان کے لفظ تیر کی طرح کسی معصوم دل کو چیر رہے ہیں وہ خاموش کھڑی سنتی رہی اور آنسو بہاتی رہی کہ اچانک ہی اسکے کانوں میں زمیل کے کہے ہوۓ جملے گونج
آ پکو خود اپنے لیے لڑنا ہوتا ہے اپنی ڈھال خود بننا ہوتا ہے ۔ جو انسان بغیر سہارے کے چلنا سیکھ جاتا ہے نا تو کوئی بھی اسے گرا نہیں سکتا”
وہ کچن سے باہر آیی جہاں ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے سب ناشتہ کرنے میں مصروف تھے
تایا جان، مجھ آپ سے ایک بات کرنی ہے۔۔۔۔
اسنے وہاں آ کر اپنے تایا کو مخاطب کیا
بولو بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ سب لوگ اب اسکی طرف متوجہ تھے اور اس کے بولنے کے منتظر تھے
آج میں یونیورسٹی سے تھوڑا دیر سے لوٹوں گی کیوں کہ میرے پیپر ہونے والے ہیں اور مجھے اپنی دوست کے ساتھ مل کر تیاری کرنی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس نے مظبوط لہجے میں کہا
ٹھیک ہے بیٹا دیہان رکھنا اور اگر واپسی پر زیادہ دیر ہو جائے تو زمیل کو فون کر دینا وہ لینے آ جائے گا تمہیں۔
جی بہتر ۔ اس نے زمیل کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا اور مسکرا رہا تھا وہ بھی مسکرانے لگی اور پھر چلی گئی
شہلا بیگم تو ابھی تک صدمے میں تھی کیسے وہ ان کو ٹھینگا دیکھا کر چلی گئی اور وہ دیکھتی رہ گئیں
جب کہ لائبہ اپنی ہی دنیا میں مگن ناشتہ کرنے میں مصروف تھی
ٹھیک ہے بابا میں بھی چلتا ہوں آج ایک جگہ انٹرویو ہے میرا
زمیل بھی تیزی سے جانے کے لیے اٹھا جس پر شہلا نے اسے بڑی جانجتی نظروں سے گھورا؛؛؛؛ اس کے دماغ میں آخر چل کیا رہا ہے
ٹھیک ہے جاؤ اور مجھے امید ہے کامیاب لوٹو گے تم ۔۔۔۔۔۔۔ خاصےطنز سے کہا گیا تھا
جی آج تو پوری کوشش ہے میری بھی کامیاب لوٹنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔ زمیل نے بڑے معنی خیز انداز میں کہا
اس نے اپنا فون اٹھایا اور باہر نکل گیا فوراً سے گاڑی سٹارٹ کی اور زن سے بھگانے لگا یہاں تک کہ اسے روڈسائیڈ پر فبیحہ چلتی ہوئی نظر آ گئی اس نے پاس جا کر گاڑی روکی اور باہر نکلا۔۔
افففففف یار کتنی سپیڈ ہے تمہاری چلنےمیں کچھ دیر بعد ہی نکلنے پر بھی تم اتنی آگے پہنچ گئی ہو
اللہ اللّه میں تو ڈر ہی گئی تھی کتنی اچانک آئے ہیں آپ۔۔
تو اور کیا تم کچھ بتا کر ہی نہیں آیی مجھے ، انٹرویو کے لیے جانا تھا مجھے
اوہ ہاں مجھے بھول ہی گیا آئ ایم سو سوری زمیل ۔ فبیحہ خود کو ہی ڈپٹنے لگی کہ اتنی اہم بات وہ بھلا کیسے بھول گئی
میں نے ان سے بات کر لی ہوئی ہے آپ آج چلیں جایں اور اپنا نام بتاۓ گا انھیں پتا چل جائے گا ویسے آج مجھے جلدی چھٹی ہو جائے گی تو میں بھی وہاں آؤں گی واپسی پر۔۔
اوکے ٹھیک ہے چلو بیٹھو پھر تمہیں یونیورسٹی چھوڑ دوں
ارے نہیں نہیں میں خود چلی جاؤں گی خامخواہ زحمت ہوگی آپکو۔
اچھا واقع کیا تمہیں یہ کہنا چاہیے تھا ؟ ۔ اس نے ابرو اچکا کر پوچھا جس پر فبیحہ بوکھلا گئی جیسے زمیل اس کے دل کا حال جان گیا ہو اور زمیل ہنسنے لگا
چلو یار بیٹھوپھر مجھے بھی تو پہنچنا ہے یا لیٹ کروانے کے ارادے ہے پہلے دن ہی مجھے۔
اور پھر زمیل اسے چھوڑ کر سیدھا آفس چلا گیا جہاں اس کا بہت وارم ویلکم کیا گیا پتا نہیں فبیحہ نے کیا انٹروڈکشن دیا ہو گا یہاں میرا ۔۔۔۔۔
خیر اسے ایک فرنشڈ روم دیا گیا اور مینجر اسے سب بتاتا گیا لیکن یہ چیز بھی اسے ہضم نہیں ہو رہی تھا وہ سارا ہولڈ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا لیکن سب اتنا اچانک نہیں ہو سکتا تھا اس لیے اس نے خود کو یہ کڑوا گھونٹ پینے کے لیے کمپل کیا کیوں کہ وہ جانتا تھا کچھ پانے کے لیے آخر اسے کچھ تو کھونا پڑے گا ہی
✸_______________ ✸_______________✸
فبیحہ جب سے گھر آیی تھی وہ زمیل سے بات کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو کسی طور بھی ممکن نہیں ہو پا رہا کیوں سب وہاں ایک ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے اس لیے وہ رات کا انتظار کر رہی تھی تا کہ اس سے پوچھ سکے کہ اسکا دن کیسا گزرا اور دوسری طرف شہلا بیگم کو دال میں کچھ کالا نظر آ رہا تھا جب کہ وہ اس بات سے بلکل بھی واقف نہیں تھیں کہ یہاں تو پوری دال کی کالی ہے اس لیے وہ اب فبیحہ اور زمیل کی ٹوہ میں ہی لگی ہوئی تھی
زمیل میں کب سے آپ کو ڈھونڈ رہی تھی کہاں تھے آپ ۔۔۔۔۔ فبیحہ نے کچن کی کھڑکی جو باہر لان میں کھلتی تھی وہاں سے زمیل کو بیٹھ کر چاۓ پیتے دیکھا تو فوراً باہرآ گئی۔
ہاں خیریت تھی، جو مجھے ڈھونڈ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ زمیل نے مصروف سے انداز میں فون استعمال کرتے ہوئے کہا
جس پر فبیحہ کو بہت غصہ آیا یہاں تک کہ اس نے زمیل کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا
یہ کیا بتمیزی ہے رامین میرا فون واپس کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمیل نے غصے سے کافی اونچی آواز میں کہا تو فبیحہ سہم گئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جس پر زمیل کو اپنے رویے کا احساس ہوا تو اسے ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بیٹھایا
یار رامین آئ ام سو سوری مجھے کسی اور بات پر غصہ تھا جو تم پر نکل گیا ۔۔۔
ہمیشہ آپکا غصہ مجھ پر ہی اترتا ہے ۔۔۔ اس نے نروٹھے انداز میں آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا
اچھا نا سوری بول تو رہا ہوں اب کیا ہاتھ جوڑوں میں ؟
اب میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا ۔۔۔۔۔
اچھا پوچھو گی نہیں کہ میں کس بات پر پریشان ہوں ؟ زمیل نے بغور اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔ رونے کے باعث آنکھیں اور ناک لال ہو گئے تھے بال بھی کافی حد تک بکھرے ہوئے تھے ۔ زمیل کو وہ اس وقت چوٹی سی معصوم گڑیا لگ رہی تھی
فبیحہ نے جب مسلسل اسے خود کو گھورتے پایا تو سٹپٹا گئی اور ساتھ ہی نظریں جھکا گئی
پھر تھوڑا سمبھل کر دوبارہ سے مخاطب ہوئی
کس وجہ سے اتنا موڈ خراب تھا۔۔۔۔؟
تمہارے عالم صاحب کی وجہ سے ۔۔۔ اس نے خاصے ناراض سے لہجے میں کہا
عالم صاحب ؟انکی وجہ سے کیوں؟
یار رامین تم جانتی ہو نا مجھ سے کسی کے انڈر کام نہیں کیا جاتا لیکن وہ سارا دن مجھے یہی بات جتاتے رہے کہ میں ان کے لیے کام کرتا ہوں اور وہ بلاوجہ مجھ پر حکم چلاتے رہے۔۔
تم مجھے اچھے سے جانتی ہو مجھے یہ باتیں نہیں پسند
اگر مجھے ایسے ہی کام کرنا ہوتا تو میں کہیں نوکری بھی تو کر سکتا تھا نا
تم خود بتاؤ؟
اسکی بات سن کر فبیحہ کافی پریشان ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
یار فبیحہ تمہیں مجھ پر بھروسہ ہے نا؟ زمیل نے فبیحہ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اور اس سے پوچھنے لگا۔
کیسے باتیں کر رہے ہیں آپ ظاہر ہے مجھے آپ پر بھروسہ ہے بلکہ خود سے بھی زیادہ۔۔۔
تو تم کمپنی کا ہولڈ مجھے کیوں نہیں دے دیتی ، عالم صاحب کوئی مجھے اعتماد والے بندے بھی نہی لگے اور یہ کمپنی چاچو کا خواب ہے جسے انہوں نے بڑی محنت سے حقیقت بنایا تھا تو میرا بھی تو یہی خواب ہے نا اس لیے میں نہیں چاہتا کہ میں اس خواب کی حقیقت کو خراب ہونے دوں یا کسی بھی قسم کا نقصان ہونے دوں
تم نے خود ہی تو کہا ہے تمہیں مجھ پر کتنا بھروسہ ہے تو پھر مجھ پر اعتبار بھی کرو نا۔۔۔
زمیل کی باتوں نے فبیحہ کو سوچوں میں دکھیل دیا
تھوڑی دیر تک اسکا جواب نا پا کر اس نے فبیحہ کی آنکھوں کے آگے چٹکی بجائی
کہاں کھو گئی کیا میری بات بری لگی ہے ؟
ارے نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے بلکہ آپ ہی کی بات کو سوچ رہی تھی آپ ٹھیک کہ رہے ہیں لیکن عالم صاحب تب سے بابا کے ساتھ کام کر رہے ہیں جب میں بہت چھوٹی سی تھی اور انہوں نے بہت اچھے سے ہمارا ہر مشکل میں ساتھ دیا ہے اور اب عمر کے اس حصے میں انھیں ہمارے ساتھ کی ضرورت ہے تو ہم انھیں یوں فارغ تو نہیں کر سکتے ہیں نا ۔۔۔۔۔۔۔
ہاں ٹھیک ہے ہم انھیں نکالتے نہیں بس انکی پوسٹ بدل دیتے ہیں وہ ہماری کمپنی میں ایک امپلائی کے طور پر کام کر سکتے ہیں کیسا لگا میرا خیال ؟
زمیل باتوں ہی باتوں میں بہت کچھ پوچھنے کی کوشش کر رہا تھا
ہاں ٹھیک ہے کل یونیورسٹی سے واپسی پر میں سیدھی آفس آ جاؤں گی اب تو آپ پریشان نہیں ہیں نا ؟
ارے بلکل بھی نہیں جب تک تم میرے ساتھ ہو تب تک تو مجھے نہیں لگتا میں پریشان ہو سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بڑے شریر سے انداز میں کہا جس پر فبیحہ ہنسنے لگی اور پھر وہ دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ۔ وہ بھول چکے تھے کہ وہ گھر کے لان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور دو آنکھیں مسلسل انھیں دیکھ رہیں تھی ۔
زمیل ؟
جی امی ، زمیل لان سے اٹھ کر اپنے کمرے میں جا ہی رہا تھا کہ شہلا بیگم کی آواز نے اس کے قدم روکے۔۔
میرے کمرے میں آؤ بات کرنی ہے میں نے ۔۔۔۔
امی میں ابھی تھکا ہوا ہوں بعد میں کر لینا آپ بات ۔۔۔ اس نے ٹالنا چاہا مگر ناكام رہا
ابھی اور اسی وقت آؤ میرے ساتھ ۔۔
وہ منہ بناتا ہوا ان کے کمرے کی طرف مڑ گیا
یہ کیا ہو رہا ہے ؟
کیا ہو رہا ہے ؟ اس نے نا سمجھی سے انکی طرف دیکھا
بچہ بننے کی ضرورت نہیں ہے زیادہ میرے سامنے اور سیدھا سیدھا بتاؤ چل کیا رہا ہے تمہارے دماغ میں ؟
امی آپ بات کو گھما کس لیے رہی ہیں کس بارے میں پوچھ رہی ہیں صاف الفاظ میں بتایں مجھے۔۔۔۔
تمہاری اس فبیحہ پر مہربانیاں تو مجھے پہلے سے ہی نظر آ رہی تھی مگر اب اس کے ساتھ اتنی اتنی دیر بیٹھ کر کیا باتیں کرتے ہو ، بڑا ہنسی مذاق بھی ہونے لگا ہے اب تو۔ یہ آخر معاملا کیا ہے مجھے بتانا پسند کرو گے۔
انکی بات سن کر ایک دم سے زمیل کے رنگ اڑ گئے لیکن جلدی ہی اس نے خود کو سمبھال لیا اور اٹھ کر شہلا بیگم کے پاس آ کر بیٹھ گیا
آپکو کیا لگتا ہے کیا چل رہا ہے ہمارے درمیان ؟
دیکھو زمیل پہیلیاں مت بجھواؤ مجھ سے اور میں بتا رہی ہوں یہ عشق مشوقی والا چکر ہوا نا تو بہت برا ہوگا۔
زمیل ہنسنے لگا اور ذرا آگے کو ہو کر بیٹھا۔۔۔۔
عشق معشوقی میں کیا رکھا ہے کچھ بھی تو نہیں اور زمیل ایسا کام نہیں کرتا جس سے اسے کوئی فائدہ حاصل ناہو
آپکا بیٹا ہوں گھاٹے کا سودا سیکھا نہیں ہے میں نے ۔ جس مقصد کے لیے آپ اسے یہاں لائی تھیں نا بس یوں سمجھ لیں کا میں اس مقصد کو پایا تکمیل تک پہنچا رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا مطلب ؟ شہلا نے ابرو اچکا کر پوچھا تو زمیل نے الف سے ے تک ساری بات انھیں بتا دی
جس پر شہلا کے چہرے پر بھی ایک شاطرانا مسکراہٹ ابھری
اب مل گیا سکون تو میں جاؤں ؟ ویسے میں نے کام مکمل کرنے کے بعد بتانا تھا مگر اففف آپ اور آپکا غصہ۔۔۔۔
تم کوئی بھی کام مجھے بتاۓ بغیر نہیں کر سکتے کیوں کہ میں تمہیں اس چیز کی اجازت نہیں دیتی ۔۔۔ انہوں نے گردن اکڑا کر کہا
اوکے بوس اب پلیز میں سونے جا رہا ہوں تو کوئی مجھے تنگ نہ کرے
جاؤ میرا بچہ کوئی نہیں تنگ کرے گا
اسی طرح ایک اور شام اپنے انجام کو پہنچ گئی بلکل ویسے ہی جیسے ہر چیز کو اپنے اختتام تک پہنچنا ہی ہوتا ہے
جاؤ میرا بچہ کوئی نہیں تنگ کرے گا
✸_______________ ✸_______________✸
تم نے پتا لگوايا وہ کہاں کام کرتا ہے ؟ اس نے بیتابی سے پوچھا
اللّه اللّه مطلب جو شخص ابھی تمہاری زندگی میں آیا بھی نہیں ہے اسکی وجہ سے تم نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ کیسی ہو؟ کیسا رہا دن؟ نا سلام نہ دعا۔۔۔ تو جب وہ آ گیا تب تو تم مجھے پہچاننے سے بھی سیدھا سیدھا انکار کر دو گی کہ یہ کون سی علوینہ ہے میں نے تو اسے کبھی دیکھا بھی نہیں ۔۔۔ الوینا نے لڑاکا آنٹیوں کی طرح کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا کیوں کہ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ حنادی اس سے آتے ہی حال چال پوچھے بغیر کوئی بات کرے۔۔
اچھا بابا غلطی ہو گئی اسّلام و علیکم ! کیسی ہو ؟ اور کیسا گزرا کل کا تمہارا دن ؟
ہاں ہاں بس بس خود احساس دلوا کر کام کروانے کا کیا فائدہ ، چل گیا ہے مجھے پتا اپنی حیثیت کا۔۔۔
تو کیا اب مجھے تمہیں بتانا پڑے گا کہ تمہاری کیا حیثیت ہے میری زندگی میں ؟ حنادی نے خاصا تڑک کر پوچھا
بھئ واہ یعنی کہ کمال ہی ہو گیا تم اور تمہاری چالاکیاں جب کبھی میں ذرا منہ بنا لو کہ تمہیں مجھے مناؤ گی الٹا میرے اوپر ہی چڑھ جاتی ہو اور پھر میں بیٹھی تمہیں منا رہی ہوتی ہوں
اسکی بات پر حنادی ہنسنے لگی ہنستے ہنستے وہ لال ہو گئی تھی وہ ہمیشہ سے سمجھتی تھی کہ علوینا کو شاید اسکی اس ٹرک کے بارے میں پتا ہی نہیں ہے لیکن وہ تو سب جانتی تھی
اس سے ابھی تک کنٹرول نہیں ہو رہا تھا اور علوینا اسے یوں ہنستا ہوا دیکھ کر مسکرا رہی تھی
ہمیشہ ایسے ہی خوش رہا کرو تمہیں ایسے دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔۔۔۔۔
حنادی اس کے گلے لگ گئی اور اسے زور دے دبایا
ارے ظالم بس بھی کرو بچی کی جان لو گی کیا ۔۔۔۔ علوینا نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا
تمہیں پتا ہے یار تم میرا گڈ لک ہو آئ لو یو یارا
اب تم بٹرنگ کر رہی ہو حلا نکہ میں تمہارا کام پہلے سے ہی کر چکی ہوں
ہائے سچی مجھے پتا تھا تم ضرور کر لو گی یہ چلو اب بتاؤ
آہاں جب تمہیں اتنا پتا تھا کہ میں پتا کر لوں گی تو یہ بھی تو پتا ہی ہوگا کہ اب میں تمہیں کیسے بتاؤں گی ؟ اس نے شوخ لہجے میں پوچھا
چلو کینٹین بھکڑ کہیں کی، حنادی نے دانت پیستے ہوۓ کہا
جس پر علوینا پھر ہنسنے لگی
پاس کھڑی کچھ لڑکیاں انھیں دیکھ کر مسکرا رہیں تھی
کیسی مثالی دوستی ہے انکی ہمیشہ ہنستی مسکراتی رہتی ہیں یہ دونوں ۔۔۔
ہاں واقع بہت اچھی لگتی ہیں ۔ وہ تبصرہ کرتی جا رہی تھی جب کہ ارد گرد سے بیگانہ وہ دونوں پیٹ پوجا کرنے جا رہی تھیں
چلو بھی اب بس کرو یا صرف کھاتی رہو گی ۔۔۔۔۔
ہاں ہاں ختم تو کرنے دو مجھے بس دو منٹ ۔ حنادی بے صبری سے اس کے کھانے کے ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی جب کہ وہ ختم ہونے کو آ ہی نہی رہا تھا
اللّه اللّه کر کے علوینا فارغ ہوئی اور ہاتھ صاف کر کے حنادی کی طرف مڑی
ہاں جی جناب اب بتایں کیا پوچھنا ہے آپکو ؟
کیا مطلب کیا پوچھنا جو پتا کرنے کا کہا تھا وہ بتاؤ
اچھا اچھا تو سنو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علوینا نے اسے سب بتا دیا کہ وہ کس جگہ رہتا ہے اور اس کے آفس کا اڈریس بھی اسے دے دیا جسے سننے کے بعد بھی اس کے چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی
اب کیا ہے مادام پھر منہ لٹکا ہوا ہے ۔۔۔۔ علوینا نے اکتا کر پوچھا
یار میں وہاں جاؤں گی کیسے مجھے تو کوئی بھی جانے نہیں دےگا ۔ اس نے طلب گار نظروں سے علوینا کی طرف دیکھا
نو۔۔۔۔
یس۔۔۔۔۔
نو میں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔
ایسا نہ کہو یار صرف تم ہی ہو جو یہ کام کر سکتی ہو اور مجھے یقین ہے کہ تم ضرور کرو گی ویسے بھی اب تم میرے مسلے کو نہیں سمجھو گی تو اور کون سمجھے گا
مسلہ نہیں ہزاروں مسلے ہے قسم سے تمہارے اور ہر بار میں ہی پهنستی ہوں ۔۔۔ علوینا نے خاصا منہ بنا کر کہا
علوینا پلیز نا یار پلیز ۔۔۔۔۔ حنادی کی آنکھوں میں حقیقت آنسو آ گئے تھے جنہیں وہ بڑی مشکل کنٹرول کر رہی تھی
اچھا نا یار کیا ہو گیا ہے میں ہی چلی جاؤں گی اب ریلكس رہو ۔ اس نے گلے لگاتے ہوۓ کہا
علوینا مجھے وہ مل تو جائے گا نا ؟
حنادی وہ کوئی چیز نہیں ہے میری جان جو تمہیں مل جائے گا لیکن تم دعا کرو اگر وہ تمہارے حق میں بہتر ہوا تو اللّه تمہیں اس سے ضرور نوازے گا اینڈ پلیز ڈونٹ وري بکوز علوینا از ہیر
تھینک یو میرے یار ، میری ہر مشکل کے سولوشن
حنادی نے اس کے گال پر کس کرتے ہوئے کہا جس پر وہ محض مسکرائی کیوں کہ وہ اب آئندہ کے لیے پلان بنانے میں مصروف ہو گئی تھی
حنادی یہ آج کل تم کن چکروں میں ہو کچھ بتانا پسند کرو گی نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا ہوش میں دو تین دن سے تمہارے اس رویے کو دیکھ رہی ہوں لیکن کچھ نا سمجھ آنے پر مجھے تم سے پوچھنا پر رہا ہے ۔۔۔۔
حنادی کے یونیورسٹی سے آتے ہی روشنا نے اسے آڑے ہاتھوں لیا کیوں کہ وہ تنگ آ گئیں تھی
اور حنادی کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ اب بچنے کا کوئی راستہ نہیں رہا اس لیے بتا دینے میں ہی بھلائی سمجھی ۔۔۔۔۔
اس نے بتانے سے پہلے تمہید باندهنا شروع کی
مما آپکو اپنی بیٹی پر یقین ہے نا کہ وہ کبھی بھی کوئی غلط کام نہیں کرے گی ؟ اس لیے اب میری بات غور سے سنیے گا اور پھر جواب دیجۓ گا مجھے پورا یقین ہے آپ میرا ساتھ ہی دیں گی کیوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔
حنادی کی چلتی زبان کو بریک لگے جب روشنا نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا
اتنی لمبی چوڑی حقایتیں مت کرو اور مجھے مختصر اور سچی بات بتاؤ ۔ انکی اس بات پر حنادی آنکھیں پھاڑ کر انھیں دیکھنے لگی کیوں کہ آج وہ اسکی ماما نہیں کوئی اور ہی لگ رہیں تھیں
حنادی نے ایک گہری سانس لی اور ایک جھٹکے سے ہی بول دیا میں ایک لڑکے کو پسند کرتی ہوں ماما
یہ بات تم پہلے ہی بتا چکی ہو اب کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں وہ بتاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ اب کی باری روشنا نے سخت لہجے میں پوچھا
وہ .۔۔۔۔۔۔ وہ ہم اسکی انفارمیشن نکال رہیں تا کہ اسے ڈھونڈ کر بات کر سکیں ۔ اس نے جھجھکتے ہوۓ بتا دیا اور روشنا اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی
مطلب تم خود اسے ڈھونڈ کر اس کے پاس جا کر اپنی محبت کا بتاؤ گی اسے ؟
کیا ہو گیا لڑکی تمہیں کچھ تو عقل کا کام کیا کرو۔ کیا سوچے گا وہ ہم لوگوں کے بارے میں ؟ پیچھا کر رہی ہو وہ بھی ایک لڑکے کا ؟ اسے سہی معنوں میں پریشانی نے آن گھیرا تھا اس قدر کم عقلی کی حرکت کر رہی تھیں وہ دونوں لڑکیاں
ماما ہم کہاں پیچھا کر رہے ہیں بس پتا لگوا رہے ہیں ۔۔ اس نے نہایت معصومیت سے جواب دیا جس پر روشنا کو مزید غصہ آیا
سکون سے اپنی پڑھائی مکمل کرو اس کے بعد میں تمہارے بابا سے بات کروں گی پھر باقاعدہ رشتے کا سوچیں گے اس لیے ان فضول حرکتوں سے اپنے پیروں پر کلہاڑی مت مارو اگر تمہاری دادی کو پتا چل گیا تو پڑھائی بھی بند کروا دیں گیں وہ
روشنا نے اسے بڑے تہمل سے سمجھایا جس پر حنا نے منہ بسورا
اپنے روم میں جاؤ اور یہ خرافات بھی نکال دو اپنے دماغ سے ورنہ اچھا نہیں ہو گا سمجھی ۔ وہ اسے تنبیہ کرتی چلی گئیں
اور حنادی اپنے کمرے میں آ گئی آتے ہی اس نے علوینا کو صبح جاتے ہی بات بتانے کا فیصلہ کیا
کیا ہوا ہے اب بول بھی چکو ۔۔۔۔۔ علوینا نے بیزاری سے کھا کیوں کہ وہ کب سے صرف یہی بولے جا رہی تھی کہ مسلہ ہو گیا ہے مسلہ ہو گیا مگر بتا نہیں رہی تھی کہ ہوا کیا ہے
یار ماما کو سب پتا چل گیا ہے ۔۔۔۔
کیا پتا چل گیا ہے ؟ علوینا فوراً سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی
یہی کہ ہم میر حاران کے بارے میں پتا لگوانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔۔
میدم ہم کوشش نہیں کر رہے پتا لگوا رہے ہیں بلکہ لگوا چکے ہیں۔۔۔۔
ہاں تو کیا انھیں یہ بتاتی تا کہ وہ وہیں جوتا اتار لیتی
حنادی کے انداز پر علوینا ہنسنے لگی مطلب اب ہم اس سے نہیں ملیں گے ؟
کس نے کہا نہیں ملے گے ہاں بس ماما کو پتا نہیں چلنے دیں گے یار ماما مجھے سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہیں مجھے تب تک سکون نہیں ملے گا جب تک میں اپنے دل کی بات اس تک پہنچا نا دوں اور اسکا جواب نا سن لو۔۔
اچھا اب رونا مت شروع کر دینا میں آج چھٹی کے بعد وہاں جاؤں گی اور تمہارا لوؤ لیٹر بھی دے آؤں گی منہ سے بول کر
تھینک یو سو مچ یارا تم نا ہوتی تو پتا نہیں میں کیا کرتی۔۔۔۔
او ہیلو میڈم اگر میں نا ہوتی تو تم بھی نا ہوتی اور اگر تم نا ہوتی تو میں نا ہوتی
حنادی اور علوینا جو بھی ہیں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں کہتے ساتھ ہی اس نے حنادی کی گردن میں اپنے بازو حائل کر دئے اور سارا وزن اس پر ڈال کر جھومنے لگی
ہٹ موٹی مجھ معصوم کی جان لو گی کیا
✸_______________ ✸_______________✸
دنیا کا سب سے مشکل کام کیا ہے ؟
اس نے بڑے تجسس سے ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا اور اکثر ایسا ہی ہوتا تھا حنادی جب بھی روشنا کے پاس آ کر بیٹھتی تو اس سے طرح طرح کے سوال کرتی جس کا جواب روشنا ہمیشہ بہت اچھا دیتی تھی آج بھی گھر آنے کے بعد وہ روشنا کے پاس چلی آیی اور استفسار کرنے لگی
دنیا کا سب سے مشکل کام ؟ اس نے سوال کو زیر لب دہرایا اور مسکرانے لگی
کسی کو پہچاننا ہے دنیا کا مشکل ترین کام کیوں کہ ہم لوگوں کو اکثر ان کے ظاہر سے پہچانتے ہیں وہ دکھتا کیسا ہے کالا ہے یا گورا ہے ؟ پیسے والا ہے یا نہیں؟ پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ ہے؟ انگیزی بولنی آتی ہو گی کیا اسے ؟ نا جانے کسی کلاس سے تعلق ہے اس کا وغیرہ وغیرہ
اور اس سب میں ہم دوسرے انسان کا باطن بھول جاتے ہیں کہ وہ اندر سے کیسا ہے صاف شفاف بلکل آئینے کی طرح ، سچا یا کھرا یا پھر نا جانے کیسا ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔
ہم مٹیریلاسٹک لوگ ہیں چیزوں کے دام دیکھتے ہیں اور اسکی بناوٹ اوپر سے نا کہ اندر سے
اس سب سے ہوتا یہ ہے کہ ہم ہیرے کو پہچان ہی نہیں پاتے اور پتھر کے اوپر لپٹے ہوۓ غلاف کو ہیرا سمجھ لیتے ہیں اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے ہمارا ظاہر باطن کے لیے ایک غلاف کی طرح ہی کام کرتا ہے اسے چھپا لیتا ہے اپنے اندر اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے ہٹا کر دیکھتے ہیں یا نہیں۔۔۔۔
اس نے جواب دیتے ساتھ ہی کندھے اچکا دئے جیسے کہ رہی ہو میں نہیں جانتی لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں آخر ؟
حنادی نے بڑی دلچسپی سے اس کے جواب کو سنا اور ہلکا سا سر کو خم دیا کہ وہ سمجھ گئی ہے مگر وہ گہری سوچ میں گم نظر آیی
اگر ایک لائن میں تمہارے سوال کا جواب دوں تو سب سے مشکل کام” اپنوں میں اپنوں کو پہچاننا ہے۔۔”
جواب دیتے ساتھ ہی وہ اٹھ کر کچن کا کام دیکھنے چلی گئی اور پیچھے ہکی بکی حنادی کو چھوڑ گئی جس کا حیرت کے مارے منہ کھل گیا تھا
آپ کو کیسے پتا چل جاتا ہے ماما میرے دماغ میں کیا چل رہا ہے وہ بھی روشنا کے پیچھے لپکی
ماں ہوں تمہاری میں تمہیں گہری سوچ میں ڈوبا دیکھتی ہی سمجھ گئی تھی کہ تمہارا پائنٹ سہی سے کلئیر نہیں ہوا اس لیے میں نے کر دیا ۔۔۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا جس پر حنادی اس سے لپٹ گئی ماما یو آر گریٹ لوو یو
لو یو ٹو میری جان
اب جاؤ ہے فریش ہو جاؤ میں بس تھوڑی دیر تک کھانا لگواتی ہوں وہ سر ہلاتی ھوئی کمرے کی طرف بڑھ گئی
✸_______________ ✸_______________✸
“خوابوں کا جہاں “
کچھ خواب ہیں ، جو سراب ہیں
وہ حسین سفر ، یہ تلخ حقیقت
خوابوں کے بھنور میں پھنسی رہی
میری کشتی تھی کہ نکل نا سکی
میں جو تھا جنوں کا مسافر کبھی
مجھے راستوں نے تھکا دیا
وہ جو چاہ تھا یا زد میری
کیوں مجھے اس سے یوں جدا کیا
توڑ کر ٹکڑوں میں دل میرا
ہاتھ میں یوں تھما دیا
وہ پوچھنا صرف یہ تھا مجھے
کیا خوابوں کے کچھ آداب نہیں؟؟؟
کیا دل کے کچھ ارمان نہیں ؟؟؟
کیا یہ حسین جہاں ہمارا نہیں ؟؟؟
ماہا عنایا
✸_______________ ✸_______________✸
مجھے سکون نہیں مل رہا ۔۔۔۔ اس نے روتے ہوئے کہا
تمہیں سکون ملے گا بھی کیسے ؟ جن چیزوں میں تم ڈھونڈ رہی ہو وہاں نہیں ملتا ۔۔۔۔۔۔
پھر کہاں ملتا ہے ؟
اللّه کے کلام میں ہے سکون ۔ دنیا کا بھی اور آخرت کا بھی
کیا ہم اللّه سے بات کر سکتے ہیں ؟
ہاں بلکل جب اللّه سے بات کرنے کا دل کرے تو نماز پڑھا کرو دل سے۔ تمہیں یہی محسوس ہوگا جیسے تم اللّه سے ہم کلام ہو رہی ہو
اور جب اللّه کو سننے کا دل کرے تو قرآن پڑھا کرو ایسا محسوس کرو گی جیسے اللّه تم سے ہم کلام ہو رہا ہے ۔۔
وہ اچانک سے اٹھ بیٹھی اورسر کو ہاتھوں میں گرا لیا
یہ کیسا خواب تھا
حنادی کو اکثر ایسے خواب آتے تھے جن میں وہ دیکھا کرتی تھی کہ ایک سفید داڑھی والے بزرگ اسے کچھ بتاتے جیسے اسے سیدھی راہ دیکھا رہے ہوں
آج بھی سونے سے پہلے اس کے دماغ میں اسی طرح کے سوال آ رہے تھے کہ اللّه کی رضا کسی جانی جاتی ہے
اور خواب میں اس پٗرشفقت ہستی نے اسے بتا دیا کہ اللّه کی رضا جاننے کے لیے آپکو اس سے ہم کلام ہونا پڑتا ہے۔۔
کبھی کبھی وہ ان معاملے کی وجہ سے ڈرتی تھی لیکن کچھ سمجھ نہیں پاتی تھی کہ اسکی وجہ کیا ہے روشنا ہمیشہ اسے تسلی دیتی تھی کہ تمہارے اندر کا فرشتہ تمہیں سمجھانے آتا ہے اس لیے اسے سنا کرو
یا اللّه ۔۔۔۔۔۔۔
وہ یوں ہی سوچوں میں گم تھی کہ اس کے کانوں میں اذان کی آواز پڑی
اللّه اکبر
الله اكبر
(اللہ سب سے بڑا ہے)
(Allah u Akbar)
(God is The Greatest)
اشهد ان لا اله الا الله
(میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی خدا نہیں سوائے ایک اللہ کے)
(Ash-hadu alla ilaha illallah)
(I bear witness that there is no gods except one God)
اشهد ان محمدا رسول الله
(میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں)
(Ash-hadu anna Muhammadan rasulullah)
(I bear witness that Muhammad is the Messenger of God)
حي على الصلاة
(نماز کی طرف جلدی کرو)
(Hayya ‘alas-salat)
(Make haste towards prayer)
حي على الفلاح
(کامیابی کی طرف جلدی آؤ)
(Hayya ‘alal-falah)
(Make haste towards welfare [success])
الله اكبر
(اللہ سب سے بڑا ہے)
(Allah u Akbar)
(God is The Greatest)
لا اله الا الله
(نہیں کوئی خدا سوائے ایک اللہ کے)
(La ilaha illallah)
(There is no gods except one God)
اس نے اذان کا ایک ایک لفظ بہت غور سے سنا اور اسے اپنے اندر تک محسوس کیا وہ خود کو اب قدرے پر سکون محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔
اپنے بیڈ سے اٹھی اور وضو کرنے واشروم چلی گئی کچھ دیر بعد باہر نکلی اور نماز کے سٹائل سے دوپٹہ سر پر اوڑھااور قبلہ رخ کھڑی ہو کر نماز ادا کرنے لگی۔
حنادی ہمیشہ نماز پر سکون ہو کر اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتی تھی روشنا ہمشہ اس سے کہتی تھی کہ تم نماز بہت خوبصورت انداز میں پڑھتی ہو اتنا کہ جب تمہیں پڑھتا دیکھوں تومیں کھو سی جاتی ہوں
نماز پڑھنے کے بعد اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ
وہ دعا میں اپنے رب سے میر حاران کو ما نگناچاہتی تھی مگر وہ لفظ ادا نہیں کر پا رہی تھی اس ڈر سے اس خوف سے کہیں اس کی فریاد رد نا کر دی جاۓ
آنسو اس کے گالوں پر بڑی تیزی سے بہہ رہے تھے مگر زبان ہنوز خاموش تھی یہاں تک کہ دل بھی نہیں بول رہا تھا بس آنسو بہہ رہے تھے۔
ایسی کونسی وجہ ہوتیں ہیں جو ہماری دعا قبول نا ہونے کا سبب بنتی ہیں ؟
“شدت”
دعا ہمیشہ شدت سے مانگا کرو پھر قبول ہوگی ۔۔۔
اور اگر پھر بھی اللّه ہماری نا سنے تو ؟
تو اللّه سے زد کیا کرو
کیا زد کرنے سے اللّه مان جایں گے ؟ اور ہماری دعا قبول کر لیں گے ؟؟
ہاں چانسز ہوتے ہیں بہت زیادہ لیکن ۔۔۔۔
لیکن ؟ اس نے بیتابی سے پوچھا
لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بات یا وہ دعا آپ کے حق میں بہتر ہو اور مقرر کردہ وقت بھی آ چکا ہو
کیا مطلب اگر کوئی چیز ہمارے لئے بہت اہم ہو تب بھی ؟
دیکھو یہ ضروری نہیں ہے جو چیز آپ کے لیے اہم ہو وہ آپ کے لیے بہتر بھی ہو ۔۔۔۔ بعض اوقات آپ جسے چمکتا سونا سمجھتے ہیں وہ اندر سے ایک عام پتھر ہوتا ہے لیکن ہم انسان ظاہر دیکھ رہے ہوتے ہیں باطن چھپا ہوا ہوتا ہے ہم سے، پر اللّه کی نظروں سے وہ چھپا ہوا نہیں ہوتا اس لیے آپ کی ایسی دعا پر وہ کن نہیں فرماتا جو آپ کے حق میں بہتر نا ہو۔
ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ ہمارے لیے کیا چیز بہتر ہو اور کیا نہیں ؟ تاکہ ہم اللّه سے ایسی چیز مانگے ہی نا جو ہمارے حق میں اچھی نہیں ہے
بہت اچھا سوال ہے تمہارا ۔
ایسی تمام چیزیں جن پر تمہارا دل گواہی دے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے جو آپکو اللّه کے حکم کے مطابق نا چلا ئے آپکو حرام کی طرف لے کر چلے اور وہ جو آپکو اللّه سے دور کر دے اللّه کی اور اس کے محبوب کی نافرمانی کرنے پر اکسائے ، یہ سب ہوتی ہیں نشانیاں کہ یہ کام آپ کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔۔۔
اللّه کی راہ پر چل پڑو اور پھر دیکھو کیسے وہ تمہارا ہو جاتا ہے اور تمہیں اپنا بنا لیتا ہے
اور ایک بات اپنے سکس سینس کو لازمی سنا کرو بعض اوقات یہ آپکو بڑے بڑے نقصانوں سے بچاتی ہے ۔
جیسے کہ ؟
جیسے کہ جو یہ چھٹی حس ہے نا یہ ڈائریکٹ آپ کے ہارٹ سے ریلیٹ کرتی ہے اگر آپکو پازیٹو وایبز آ رہی ہیں کسی بھی چیز کے متعلق تو مطلب اچھا ہے اور اگر نیگیٹو آ رہی ہیں تو برا ہے اس کام کو چھوڑ دینا چاہیے۔ اسے لیے کہتے ہیں کہ چھٹی حس بھی اللّه کی طرف سے ایک تحفہ ہوتا ہے جو وہ ہر کسی کو نہیں نوازتا۔۔۔۔۔
اسے ایک بار روشنا سے پوچھا ہوا اپنا سوال اور اسکا جواب یاد آیا
شدت” زیر لب اس لفظ کو دہراتی وہ ماضی سے حال میں لوٹی تو پوری” شدت اور جذب کے ساتھ خدا سے دعا کرنے لگی مگر وہ شاید بھول رہی تھی اللّه جو ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ بھلا کیسے ہمیں وہ چیز عطاء کر سکتا ہے جو ہمارے لیے بہترین نا ہو اور نا ہی وہ ہمارے نصیب میں لکھی گئی ہو؟؟؟؟
وہ ابھی جاۓ نماز پر بیٹھی سوچ رہی تھی کہ کلک کی آواز سے دروازہ کھلا اور روشنا اندر داخل ہوئی اور اسے جاۓ نماز پر بیٹھا دیکھ کر مسکرانے لگی اسی پل حنادی نے بھی دیکھا اور وہ بھی نم آنکھوں سے مسکرانے لگی
کیا مانگ رہی تھی میری جان اپنے اللّه سے ۔۔۔۔۔ وہ اس کے پر نور چہرے کو پیار سے چھوتے ہوۓ مخاطب ہوئی
اپنے دل کی خواہش مانگ رہی تھی شدت سے ۔۔۔۔
ہمممم اچھی بات ہے مانگنا چاہیے مگر وہ مت مانگا کرو جو تمہیں چاہیے ہوتا ہے بلکہ اللّه سے وہ مانگا کرو جو تمہارے حق میں بہتر ہوتا ہے۔۔۔۔اس کی بات پر حنادی نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی
روشنا دروازے تک گئی اور مڑ کر سٹل کھڑی اپنی بیٹی کو دیکھا تو سر جھٹکا قرآن کی تلاوت کرو اللّه سے ہم کلام ہو کر اچھا لگا گا تمہیں
اللّه سے ہم کلام ؟ حنادی نے فوراً اس سمت دیکھا مگر تب تک روشنا وہاں سے جا چکی تھی۔
وہ قدم قدم چلتی وارڈروب تک آیی اسے کھولا اور سامنے رکھا قرآن پاک اٹھایا اور لے کر بیڈ تک آیی پھر کھول کر پڑھنے لگی
وہ ٹھیک کہہ رہیں تھیں ایسے لگتا ہے اللّه آپ سے بات کر رہے ہیں آپکو سمجھا رہے ہیں
اسے اپنے اندر ایک عجیب سا سکون اترتا محسوس ہوا ۔ اس نے بڑے پیار سے قرآن پاک کو بند کیا اس پر لہاف چڑھایا اور اسے واپس وارڈ روب میں رکھ کر کمرے سے باہر نکل گئی
آج موسم بہت خوبصورت تھا اس لیے اس نے لان کا رخ کیا اور وہاں پڑے بینچ پر جا کر بیٹھ گئی
بہار کی آمد ہو رہی تھی شاید اس لیے سبزہ بہت پیارا لگ رہا تھا اس پر پڑتی سورج کی روشنی اور اس روشنی میں شبنم کی بوندیں چمک رہی تھیں وہ اٹھی اور جا کر ان پتوں کو چھونے لگی اور انکی تازگی کو اپنے اندر محسوس کرنے لگی
سہی کہتے ہیں جب آپ کے اندر کا موسم پیارا ہو تو آپکو باہر کا بھی اچھا لگنے لگتا ہے
روشنا کچن کی کھڑکی سے مسلسل اسے دیکھ رہی تھیں اس کے ایک ایک حرکت کو بڑی گہری نظروں سے جانچنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔
“محبت کی بہاریں “
وہ محض اتنا ہی بول سکی ۔۔۔۔۔۔
آپ بنایں اسے میں ذرا حنادی کو دیکھ لوں ۔۔۔۔۔۔
جی بی بی بہتر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نسیم زہرہ ناشتہ بنانے میں لگ گئی اور روشنا باہر لان میں آ گئی
حنادی کو اپنے کندھے پر ایک نرم سا لمس محسوس ہوا تو فوراً مڑ کر دیکھا جہاں روشنا اسے دیکھتی مسکرا رہی تھی
آج تو موڈ بہت اچھا لگ رہا ہے ۔۔۔۔
صرف لگ نہیں رہا آج موڈ واقع ہی بہت اچھا ہے ۔۔۔۔
آہاں اور اسکی کوئی خاص وجہ ؟
نہیں کوئی وجہ نہیں بس یوں ہی۔۔
حیرت ہے ویسے بغیر وجہ کے میری شہزادی کے چہرے سے مسکراہٹ جدا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حنادی نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اپنا رخ پھر سے سبزے کی طرف موڑ لیا
اچھا لیٹ ہو رہی ہو جاؤ اور جا کر تیار ہو جاؤ یونیورسٹی کے لیے میں ناشتہ لگواتی
نہیں آج میرا گھر رہنے کا دل ہے ۔ آپ ناشتہ لگوایں میں فریش ہو کر آتی ہوں۔
روشنا نے مزید کچھ نا پوچھا صرف سر ہلایا اور اٹھ کر اندر چلی گئی
✸_______________ ✸_______________✸
گہری رات اور چمکتے ہوۓ ستارے ۔۔۔۔۔ دور کہیں چاند بھی بادلوں میں چھپا ہوا تھا جو کبھی نظر آتا تو کبھی پھر بدلوں کی اوٹ میں چھپ جاتا
وہ اس لکا چھپی کے کھیل کو بڑی محویت سے دیکھتی ہوئی خود بھی اس کالی اور سیاہ رات کا حصہ ہی لگ رہی تھی اس پر ہاتھ میں پکڑا ہوا کافی کا مگ جس میں سے اڑتی ہوئی بھاپ اس کے چہرے کو بھی دھندلا رہی تھی وہ اس منظر میں اس قدر کھوئی ہوئی تھی کہ کسی کے قدموں کی چاپ بھی نا سن سکی۔
پتر ادھر کیا کر رہی ہے ؟ طبیعت تو سہی ہے نا تیری ؟ اماں بی نے نہایت فکر مندی سے دریافت کیا
جی اماں بی بھلا میری طبیعت کو کیا ہونا ہے چنگی بھلی ہوں میں تو۔
ہمممممم تو پھر دل کی طبیعت ٹھیک نا ہو گی ؟ اماں بی نے بڑے پر سوچ انداز میں کہا جس پر وہ مسکرا دی
اچھا اور آپکو ایسا کیوں لگتا ہے ؟ پر اسرار انداز میں استفسار کیا
راتوں میں مزہ عام طور پر ایسے ہی لوگوں کو آتا ہے جن کے دل کے موسم میں ذرا بادلوں کا ڈیڑہ ہو یا پھر بہار کی آمد انھیں سونے نہیں دیتی ہو۔
انکی اس سوچ پر اس کے خوبصورت گلاب سے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ رینگی۔
آپ کے دونوں یقین ہی غلط ہے پھر تواماں بی ۔۔۔۔
حالانکہ میں سوچتی تھی کہ آپ سے بڑھ کر کسی کو خاموش اداسی کی سمجھ نہیں آ سکتی مگر ۔۔۔۔۔۔
ہاں تو ہر بار ہر انسان سہی اندازہ بھی تو نہیں لگا سکتا نا اور ویسے بھی جب بچے بڑے ہو جائے تو وہ ماں باپ کو سمجھنے ہی کہاں دیتے ہیں بلکہ وہ اپنا آپ چھپا لیتے ہیں اور وہ ظاہر کرتے ہیں جس سے والدین مطمئن رہیں ، تو بھی اسی لیے مجھے باتوں میں الجھا کر مدعے سے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی نا مگر میری عمر اور تجربہ دونوں زیادہ ہے تیرے سے۔۔۔ لہٰذا ایسی ترکیبیں ترک کر دے
اتنی آرام سے اپنی چوری پکڑی جانے پر وہ کافی شرمندہ ہوئی مگر جلد ہی نارمل بھی ہو گئی تھی
کیا سوچ رہی تھی ؟ اماں بی نے ایک بار پھر کھوجنےکی کوشش کی جس پر وہ محض ایک سرد آہ بھر کر رہ گئی
آپ اچھے سے جانتی ہیں میں کیا سوچ رہی تھی پھر کیوں پوچھ رہی ہیں ؟
تیرے منہ سے سننا ہے اس لیے
تو میرے منہ سے ہی سن رہی ہیں اماں بی
ہک حا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا اب ؟ میری کوئی بات بری لگی ہے ؟ اس نے پریشانی سے پوچھا
اسے پتا تھا اماں بی یہ لفظ صرف تب ہی بولتی تھی جب کافی تھک جاتی تھی یا مایوس ہو جاتی تھی۔
کچھ سوال ایسے ہوتے ہیں جن سے انسان چاہ کر بھی پیچھا نہیں چھڑا سکتا، تیرے سوال بھی ایسے ہی ہیں۔
پیچھا چھوٹ سکتا ہے ایک طریقے سے ۔۔۔
اگر آپ مجھے ان سوالوں کے جواب دے دیں۔۔۔۔۔
کیوں جاننا چاہتی ہے تو ؟ کیا میرے پیار میں کوئی کمی رہ گئی ہے جو انکی یاد ستاتی ہے تجھے۔
پتا نہیں الفاظ ایسے تھے یا لہجہ مگر اس نے تڑپ کر اماں بی کی طرف دیکھا تھا اور ان کے ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگائے
ایسی بات نہیں ہے اماں بی بلکہ جتنا پیار آپ نے مجھے دیا ہے اتنا تو شاید وہ بھی نا دے سکتے مجھے۔
مگر ایک کسک ہے مجھ میں کہ میں اپنے اصل کے بارے میں ہی نہیں جانتی۔ کون ہوں ؟ کہاں سے آیی ہوں؟ میرے م ۔۔۔۔۔۔
اس کی بات مکمل بھی نا ہوئی تھی کہ اماں بی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا
بس ایک لفظ اور نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا ہے نا تیرا اصل میں ہوں ، میں اور کوئی نہیں
کہاں کمی رہی ہے مجھ سے جو تو یہ سوال بار بار دہراتی ہے مجھے ازیت پہنچانے کے لیے ۔۔۔۔۔
یہ بات کہتے ہوئے اماں بی کی آنکھوں سے دو شفاف آنسو نکل کر اس کے ہاتھ پر گرے تھے اور یہ بات سن کی اسکا پورا وجود کسی گہری کھائی میں چلا گیا ۔
میں اور اپنی اماں بی کو دکھ ؟ نہیں نہیں اماں بی خدارا مجھے معاف کر دیں میرا مقصد ہر گز آپکا دل دکھانا نہیں تھا ۔ اور میں وعدہ کرتی ہوں آئندہ آپ سے ایسا کوئی سوال نہیں کروں گی۔ پکا وعدہ کہتے ساتھ ہی اس نے اپنی اماں بی کی گود میں منہ چھپا لیا اور اماں بی اس کے سلکی کالے رنگ کے بالوں میں ، جو اس کے ٹخنوں تک آتے تھے ۔ ان کو اپنے انگلیوں سے سلجھانے لگیں۔
ان کے ایسا کرتے کرتے ہی وہ سو گئی تو اماں بی نے اسکا سر سیدھا کر کے تکیے پر لٹایا اور اسکا ماتھا چومنے لگی۔
میں جانتی ہو میرے پتر تو خواب میں بھی مجھے تکلیف پہنچانے کا نہیں سوچ سکتی مگر تجھے چپ کروانے کی خاطر مجھے ایسا بولنا پڑا۔
وہ اس پر کمبل درست کرتی باہر آ گئی اور ان کے جانے کے بعد اس نے اپنی بند آنکھیں کھولی جو آنسوؤں سے لبا لب بھری ہوئی تھی۔
کب تک یوں ہی مجھے چپ كرواتی رہیں گی اور سچ نہیں بتایں گی آپ اماں بی ۔۔۔۔۔ آخر کب تک ؟؟؟؟
وہ درد اور ازیت کی انتہا پر تھی مگر اس سے زیادہ دکھ اسے اس بات کا تھا کہ وہ بے بس ہے اپنی تکلیف ختم نہیں کر سکتی
ایک رات ہوئی برسات بہت ۔۔۔۔
میں رویا ساری رات بہت ۔۔۔۔
ہر غم تھا زمانے کا لیکن ۔۔۔۔
میں تنہا تھا اس رات بہت۔۔۔۔
پھر آنکھ سے اک ساون برسا ۔۔۔۔
جب سحر ہوئی تو خیال آیا ۔۔۔۔
وہ بادل کتنا تنہا تھا ۔۔۔۔
جو رویا ساری رات بہت
اسّلام و علیکم ! کیا حال ہے تمہارا ؟
حنادی نے بڑے خوش گوار موڈ میں پوچھا جب کہ علوینا نے ایک اجنبی نگاہ اس پر ڈالی اور اپنا بیگ کندھے پر لٹکاتی سائنس بلاک کی طرف بڑھ گئی۔
دوسری طرف حنادی اسکی اس حرکت پر مسکرا دی کیوں کہ علوینا کا رویہ عین توقع کے مطابق تھا وہ بھی اس کے پیچھے اسی طرف لپکی
علوینا یار سنو تو سہی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ تقریباً بھاگتی ہوئی اس کے ہم قدم ہوئی جو اسے پیچھے آتا دیکھ کر مزید تیز چلنا شروع ہو چکی تھی۔
حنادی اس سے تھوڑا آگے پہنچی اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور ہاتھوں سے دونوں کانوں کو پکڑ لیا۔
آئ ام سوری علوینا پلیز اس دفع کے لیے معاف کر دو اگلی بار ایسی غلطی نہیں ہوگی پکا وعدہ۔
ایکسکیوز می آپ کون پاگل لڑکی ہیں اور اس طرح میرے راستے میں کیوں بیٹھ گئی ہیں ہٹیں یہاں سے ۔۔۔۔۔ علوینا نے درشتگی سے کہا
ایک تو اسکا بیگانہ رویہ اوپر سے پاگل کا خطاب حنادی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جسے دیکھ کر علوینا کے دل کو کچھ ہوا مگر وہ اسے یوں ہی معاف نہیں کر سکتی تھی کیوں کہ وہ ہر دفع یوں ہی بغیر بتاۓ چھٹی کر لیتی اور وہ یہاں اکیلی کڑھتی رہتی
ان دونوں کو اکیلے رہنے کی عادت نہیں تھی اور نا ہی کسی اور کے ساتھ اتنی خاص دوستی تھی یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ اپنے درمیان کسی کو آنے ہی نہیں دیتیں تھی اور اب کل کی حنادی کی چھٹی سے اسکا دل اور موڈ کافی خراب ہوا ہوا تھا جس کا اظہار کرنا تو خیر اب بنتا تھا
تمہیں میں پاگل لگ رہی ہوں اور۔۔۔ اور تم اب ایسے بات کرو گی مجھ سے ۔۔۔۔ اس نے روتے ہوئے پوچھا
اس کا انداز ایسا تھا کہ علوینا نے بیساختہ قہقہہ لگایا ۔۔۔۔۔
جس پر حنادی نے بڑی خطرناک تیوروں سے اسے گھورا وہ ہنوز اسی حالت میں گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی اور رونے کی وجہ سے ناک سرخ ہوئی ہوئی تھی۔
اس نے غصے سے اپنا بیگ گھما کر علوینہ کی کمر میں مارا جس پر وہ بھی زمین بوس ہو گئی۔
اب تم میرا مذاق اڑاؤ گی ہاں ؟
ہائے امی میں مر گئی ہائے تم بیگ میں وٹے ڈال کر لاتی ہو کیا ؟؟ ہائے امی میری کمر ٹوٹ گئی
وہ مسلسل کراہ رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ دہائیاں بھی دے رہی تھی
ہاہاہاہا نہیں یار وٹے لانا تو یاد ہی نہیں رہا تھا ہاں بیگ میں تو واٹر بوتل تھی
دفع ہو جاؤ میرے سامنے سے اب۔ حنا جان بوج کر منہ بسورتے ہوۓ بولی
او زیادہ بنو مت ایک تو چوری اوپر سے سینا زوری چل آ جا کچھ کھاتے ہیں کل بھی تمہاری وجہ سے موڈ اتنا برا رہا کہ کچھ کھایا نہیں میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتہائی کوئی چالاک لڑکی ہو جیسے میں تو تمہیں جانتی نہی کہ جب موڈ خراب ہو تو تم پہلے سے بھی زیادہ کھاتی ہو صدا کی بھوکڑ ۔۔۔۔۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی
چلو پیسے دو چھوٹے کو ۔۔۔۔ علوینا نے کھانے سے فارغ ہو کر کہا
کس چیز کے پیسے ؟ حنادی حیرانگی سے پوچھنے لگی
کم عقل لڑکی کھانے کے پیسے اور کس کے ۔۔۔۔ اسے اپنی دوست کی عقل پر افسوس ہوا
کیا مطلب ہے کون سے پیسے اور میں کیوں دوں گی ؟ کھانا کھاؤ تم وہ بھی اس قدر جانوروں کی طرح اور پیسے دوں میں ۔۔۔ وہ اپنی طرف اشارہ کر کے ہونقوں کے طرح اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی
جی بلکل محترمہ آپ ہی دیں گی کیوں کہ چھٹی بھی آپ ہی نے کی تھی میں نے نہیں۔
علوینا نے کمال بےنیازی سے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا
اب دو یا پروفیسر رحمان سے پٹنے کے ارادے ہیں تمہارے۔۔۔۔
حنادی نے اسے کوستے ہوۓ بیگ سے پیسے نکالے اور چھوٹو کو تھما دئے اور بغیر علوینا کی طرف دیکھے کلاس کی طرف چل دی جب کہ علوینا بھی مسکراتے ہوۓ اس کی پیروی کرنے لگی
✸_______________ ✸_______________✸
Had Muqarar Hai By Maha Anaya Download Pdf
Join our Instagram
https://www.instagram.com/adab.avenue
Join our Youtube Channel