نیا آغاز
نئے لوگ
انجان سفر
بھٹکے مسافر
ویران راستے
نئے قصّے
نئی کہانیاں
انچاہی مسافتیں
انکہی امیدیں
ٹوٹتے بکھرتے حوصلے
خواہشوں کا بوجھ
حسرتوں کا انبار
ہزاروں سوال آنکھوں میں
جواب نہ معلوم سے
منزل کے کنارے ڈھونڈھتے ہوئے
ہم راستوں میں ہی کہی کھو جائیں گے
کلاک ٹاور کے سامنے کھڑی وہ اس کو دیکھ رہی تھی شائد اس کو آنکھوں میں سمانا چاہتی تھی۔ اس سے کچھ راز کہنا چاہتی تھی۔ کچھ اس کی ہم راز بننا چاہتی تھی۔
کچھ خواب ادھورے سے
کچھ ضرورتیں مکمل سی
چاہ سب حاصل کرنے کی
اور خواہش راہوں میں تھم جانے کی
فقیہہ بتول
کیا ہوا حیران ہو؟ کہ میں یہاں کیسے؟” وہ اس کو دیکھ رہی تھی جیسے وہ اس کے سوالوں پر جواب میں کچھ کہے گا۔
حیران مت ہو۔ کیا تمہیں ایک راز کی بات بتاؤں؟ وہ سرگوشیانہ انداز میں گویا ہوئی۔
کسی سے ناپسندیدگی کا اظہار کھلے عام نہیں کرنا چاہیے قدرت کو یہ بات پسند نہیں آتی پھر وہ ہمیں ہماری ناپسندیدہ چیز میں سے گزارنے کے لیے بہت سی کوششیں کر جاتی ہے اور ہمیں اسی چیز کے روبرو کھڑا کر دیتی ہے پھر ہمارے سارے کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔” اس نے آہستہ سا کہا۔
میں بھی یہاں نہیں آنا چاہتی تھی میں بھی کہیں اور راستے ڈھونڈتی تھی لیکن دیکھو زندگی نے مجھے تمہارے روبرو کھڑا کیا ہے صرف اور صرف اس لیے کہ میں تمہارے راستے میں نہیں آنا چاہتی تھی اور اس بات کا اعلان میں کھلے عام کرتی تھی۔
اچھا چلو چھوڑو ان سب باتوں کو آؤ کچھ عہد و پیمان کر لیتے ہیں۔ سنا ہے بہت سے لوگ یہاں آتے ہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے ملتے ہیں اور پھر بچھڑ جاتے ہیں بہت ساری کہانیاں تم نے بھی دیکھی ہوں گی بہت ساری کہانیاں تم نے لکھی بھی ہوں گی۔ کیا تمہیں پتہ ہے کہ میں بھی کہانیاں لکھنے میں ماہر ہوں؟ چلو دونوں مل کر کہانیاں لکھتے ہیں۔
کیا تم سے ایک گزارش کروں؟”
تم میری کہانی مت لکھنا ان میں لوگوں کا ملنا اور بچھڑنا بھی نہ لکھنا۔ مجھے لوگوں سے وابستگی ہو جانے سے ڈر لگتا ہے۔ محبت سے پیش آ کر لوگ آپ کی ذات کی دھجیاں اڑا کر چلے جاتے ہیں آج کل محبت کی نقل کی گئی کاپیاں بازاروں میں بڑے سستے داموں بکنے لگی ہیں” وہ اداس ہوئی تھی۔
لوگ سمجھتے ہیں میں بہت بیوقوف ہوں میں زیادہ بات نہیں کرتی ایسا نہیں ہے کہ مجھے باتیں آتی نہیں ہیں لیکن ہر بات ہر ایک سے کرنے والی نہیں ہوتی مجھے زیادہ بولنا نہیں پسند اور زیادہ بول بھی نہیں پاتی ہوں۔ ہاں ایسا بھی نہیں ہے کہ میں کسی کی پکار پر جواب نہیں دیتی لوگ سوال پوچھتے ہیں اور میں سوالوں کا جواب دے دیتی ہوں ہاں سوالوں سے نکلتے مزید سوال میں نہیں پوچھتی۔ میں زیادہ بولتی ہوں تو میرا دل اداس ہو جاتا ہے۔ اللّه نے میرے اندر زیادہ بولنے والی کپیسیٹی رکھی ہی نہیں ہے لوگ اس کو میری خامی کہتے ہیں لیکن میں اس کو ہمیشہ اپنی خوبی کہتی ہوں مجھے ڈر ہوتا ہے کہ میں اپنے لفظوں سے اپنے لہجے سے کسی کی دل آزاری نہ کر جاؤں۔ میں نے اللّه کی دی گئی حدود کو مد نظر رکھ کر اپنے گرد ایک باؤنڈری بنائی ہے میں نہیں چاہتی کوئی اس حدود میں بغیر حق کے داخل ہو اور نہ ہی میں خود کو اس بات کی اجازت دیتی ہوں کہ میں یہاں سے باہر نکلوں۔ لیکن لوگ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔” اس نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔
چلو ہم دوستی کر لیتے ہیں میں تمہاری ہمراز بن جاتی ہوں اور تم میرے راز قید کر لینا۔ گھبراؤ نہیں میں بہت اچھی دوستی نبھاتی ہوں۔” کچھ توقف کے بعد وہ گویا ہوئی۔
لوگ یہاں کے نہیں ہیں مختلف علاقوں سے آنے والے لوگ جب یہاں آ کر ملتے ہیں تو نئے رشتے قائم کر لیتے ہیں نئے تقاضے جنم لینے لگتے ہیں مختلف عادتوں والے لوگ تعین شدہ راستوں پر جب چلنے لگتے ہیں تو یک ہو جاتے ہیں کچھ راستے میں ہی چھوٹ جاتے ہیں کچھ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور کچھ لوگ تقاضے نبھاتے نبھاتے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ اور پھر منزل پر پہنچ کر وہ مسکراتے ضرور ہیں لیکن اداسی دل میں قید ہو جاتی ہے اس منزل کے پار بچھڑنے کا سائن بورڈ لگا ہوتا ہے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سائن بورڈ کراس کر کے ہاتھ چھوڑ کر نئے راستوں کی طرف نکلنا پڑتا ہے۔
پھر تمہیں پتہ ہے کیا ہوتا ہے؟ وہ ایک آئی برو اٹھاتے سوال پوچھ رہی تھی۔
پھر جب آپ نئے راستوں پر نکلتے ہو تو آپ کے پاس پیچھے دیکھنے کا وقت ہی نہیں ہوتا آپ ان راستوں میں اتنا الجھ جاتے ہو کہ آپ کو تب صرف اور صرف ان راستوں کو سلجھانے کا وقت چاہیے ہوتا ہے۔ آپ اپنا کرئیر بنانے پر فوکس کرتے رہ جاتے ہیں۔ جہاں روز ملتے تھے وہاں برسوں بعد صرف ایک دن ملنے کے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔۔۔ برسوں بعد بس یہی سوچیں رہ جائیں گی پتہ نہیں وہ شخص کہاں گیا پھر کسی اور کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص کس عہدے پر پہنچ گیا یا اس نے شادی کر لی رابطوں کا سلسلہ ہاتھ چھوٹنے پر ہی منقطع ہو گیا۔
کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ تم تو مجھ سے بہتر جانتے ہو گئے کہ ایسا ہی ہوتا ہے آخر تم نے مجھ سے زیادہ لوگوں کو ملتے بچھڑتے دیکھا ہو گا۔۔۔ ویسے بہت ہی بے مروت ہو میں تمہاری مہمان ہوں اور تم نے مجھے ایک دفعہ بھی بیٹھنے کو نہیں بولا۔ سر جھٹکتی ہی وہ خود ہی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی تھی۔
میں ایک جہاں پیچھے چھوڑ کر آئی ہوں جن آنکھوں کو میں چبھنے لگی تھی میں وہ لوگ پیچھے چھوڑ آئی ہوں کچھ آنکھوں میں نمی میرے دور جانے کی بھی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں بس کچھ چیزوں میں میں ان کو اچھی نہیں لگتی اور ایسا بھی نہیں ہے کہ میں وہ راستے اس لیے چھوڑ آئی کہ وہ میری قدر جان سکیں نہیں میں سات سمندر پار بھی چلی جاؤں تو میں ان کے دلوں میں اپنی قدر نہیں جگا سکتی یہ وہ لوگ ہیں جن سے میرا ڈائریکٹلی واسطہ نہیں پڑتا لیکن یہ لوگ میری زندگی پر بہت بڑا اثر چھوڑتے ہیں۔ میں نے خود کو اس منظر سے ہٹا لیا ہے میں کچھ لوگوں کو نظر آنا بند ہو گئی ہوں میں اس منظر کے لیے بہت غیر ضروری ہو گئی تھی میں نے خود کا مورال ہائی رکھنے کے لیے خود کو لوگوں کی نظروں سے ہٹا لیا ہے میں نے خود کو تلاش کرنے کے لیے تمہیں چنا ہے کیا میں امید رکھوں کہ تم ہمیشہ میرے لیے اچھے ثابت ہو گئے۔ میں نے جو راز تم سے کہے تم وہ کسی کو نہیں بتاؤ گئے” آخر میں وہ سنجیدہ ہوئی تھی۔ اور جانے کے لیے اٹھ گئی تھی۔
عجیب پاغل لڑکی ہے انسانوں سے بات نہیں کرتی اور بے جان چیزوں سے گھنٹوں گھنٹوں باتیں کر لیا کرتی تھی۔” اس نے کسی کو کہتے ہوا سنا۔
پاغل ہی تو ہوتے ہیں ہم جو اپنے راز کسی کو بھی دے دیتے ہیں جو چرچا کرنے سے باز نہیں آتے یہ لوگ ہمارے نہیں ہیں یہ ہمارے ہوتے ہی نہیں ہیں ان کو اپنی دھجیاں اڑانے کا موقع ہم خود فراہم کرتے ہیں لوگوں کے شر سے بچنا سیکھ جاؤ” وہ دل ہی دل میں مخاطب تھی۔
بتایا نہیں آپ نے اپنا نام؟” وہ خیالوں سے چونکی تھی یا پھر کھلی آنکھ سے دیکھتے ہوئے خواب سے چونکی تھی۔اس نے کلاک ٹاور کو دیکھا وہاں گھڑی پر چھوٹی سوئی گیارہ پر تھی اور بڑی سوئی پانچ پر تھی آہ تو یہ ایک خیال تھا۔ وہ اپنا نام بتاتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی وہ نہیں چاہتی تھی وہ لڑکی اس سے کوئی نیا سوال پوچھے۔
میں چاہتی ہوں مجھے کوئی نہ جانے
میں سب سے ملوں اور ادھورا ہی تعارف چھوڑ دوں
میں چاہتی ہوں میں ایک پہیلی کی طرح رہوں
اور پہیلی ہی بن کر اس دنیا سے چلی جاؤں
جسے کوئی بھی بوجھ نہ پائے
کیوں کہ جب لوگ جان لیتے ہیں
تو جان لے لیتے ہیں
فقیہ بتول
اس نے بڑی آہستگی سے سرگوشیانہ انداز میں کلاک ٹاور سے کہا۔ میں اپنی زندگی کے دو سال کا وقت تمہیں دے رہی ہوں دو سال بعد اسی جگہ کھڑے ہو کر میں تم سے ایک سوال یہ ضرور پوچھو گی کہ تم نے مجھے ان سالوں میں کیا دیا میں امید کرتی ہوں تم مجھے اچھے استاد دو گی اور آخری نظر اس پر ڈالتے ہوئے وہ چلی گئی تھی۔
14 Comments
Yarr or kitna dil jeeto gi 😭🥺❤️
Tumary alfaz parh k me apny alfaz kho deti hn smjh nai ata kya bolon 😩🥺❤️
Zaroori Nahi aik hi dil aik bar hi jeeta jaye bar bar aisi koshishain krte rehna chahiye
Alfaz ka chunao dill ki gheri wadio mah utarta ha … bhut bhut ALA ❤️❤️❤️ Allah pak tumhy daro kamyabia day
Aur any waly 2 sal ky bad tumhy is ka end acha Mily clock tower tumhy aik acha sa surprise dy 🤫😄🤭
Ameen In Sha Allah
Nice MashAllah Allah Pak sbko unki Manzil pr pohnchay
Yar or kitna dil jeeto gi 😭❤️
Tumary alfaz parh k me apny alfaz kho deti hn smjh nai ata kya bolon😩❤️
This is really gteat
I love u’r article
Your words have touched my heart differently ❤️
Well said writer faqeeha✨❤️
JAzakAllah
Wah kamal bht allaaa likha hy 💓inshallah bht achy guzryn gy do saal.
Allah pak kamyab kryn zindagi k hr mor pr ameeeeeeeeeen
Ameen
God bless u my dear…
JazakAllah Mam Means a Lot