وہ کتاب پڑھنے میں مگن تھی کہ اچانک دھڑم سے دروازہ کھول کر عناب اندر داخل ہوئی زرناب نے سرسری نظر اس پر ڈال کر دوبارہ اپنی توجہ کتاب کی طرف مبذول کی۔
“اٹھو یہاں سے” ٹیبل کے پاس پہنچ کر عناب نے اسے حکم دیا تھا۔ لمبی سانس اندر کھینچتے ہوئے زرناب نے کتاب بند کی اور اپنی عینک اتار کر اس کتاب پر رکھی اور ایک بھرپور نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا جہاں غصّہ صاف دکھائی دے رہا تھا وہ کرسی چھوڑ کر اٹھ گئی تھی۔ اس کے اٹھتے ہی وہ فورا سے بیٹھی تھی۔
“وہ کرسی بالکل ایسی ہی تھی” عناب نے کرسی گھماتے ہوئے زرناب کو متوجہ کرنا چاہا جو اب لیپ ٹاپ لیے صوفے پر گامزن تھی۔ اس نے نہ سمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔
“ہاں بالکل ایسی ہی تھی اسی طرح کے پہیے اسی طرح کے بازو اور اس جیسے ہی سٹف سے بنی ہوئی تھی” کرسی کا معائینہ کرتے ہوئے وہ پھر بولی تھی اس بار زرناب نے جواب نہیں دیا تھا۔
“آج تم یونیورسٹی ایچ او ڈی سے ایک درخواست پر دستخط لینے گئی تھی ہو گیا تمہارا کام؟” لیپ ٹاپ کی سکرین کے پیچھے سے زرناب نے اس کا چہرہ دیکھ کر پوچھا جو اس کی گلاسز چہرے پر لگائے نہ جانے کیا دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
“میں آج ایچ او ڈی کے آفس میں گئی وہاں کوئی بھی نہیں تھا میری نظر سیدھی ان کی کرسی پر پڑی وہ بالکل اس کرسی جیسی تھی” کرسی کی بات پر زرناب نے کوفت سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
“پھر کرسی۔۔۔ تمہارے دماغ میں کرسی کیوں اٹک گئی ہے؟” زرناب جهنجهلائی تھی۔
“میں ڈرتے ڈرتے ان کی کرسی پر بیٹھ گئی میں دو منٹ تک بیٹھی رہی مجھے لگا میں الگ ہی دنیا کی باسی ہوں اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ وہ آ کر مجھے ڈانٹے گی میں اے سی کے نیچے بیٹھی رہتی” عناب نے میز پر بازو رکھتے ہوئے اس پر اپنا سر ٹکاتے ہوئے کہا۔
یہ بھی بالکل ویسی ہی کرسی ہے لیکن اس پر بیٹھ کر ویسا کیوں محسوس نہیں ہو رہا جیسا تب ہو رہا تھا دل کی دھڑکن کی رفتار بھی نہیں بڑھ رہی” عناب افسوس سے بولی۔
“کیوں کہ یہ معمولی سی کرسی ہے اور وہ ایک عہدے دار کی کرسی تھی” زرناب لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھے بک ریک کی طرف بڑھی تھی اور اپنی مطلوبہ کتاب ڈھونڈھنے لگی تھی۔
“یہ والی کرسی اور ان کی کرسی ایک جیسی ہو سکتی ہے سٹف بھی ایک جیسا ہو سکتا ہے قیمت بھی ایک جیسی ہو سکتی ہے مگر پھر بھی ان میں بڑا نمايا فرق کیوں ہے” عناب پر سوچ انداز میں بولی۔
” کرسی ایک بے جان چیز ہے بیشک اس کی قیمت ہے مگر وہ قیمتی نہیں گردانی جاتی ہاں اس پر بیٹھنے والا شخص قیمتی ہو سکتا ہے” زرناب نے کتاب کا صفحہ پلٹتے ہوئے کہا۔
“تمہیں پتہ ہے میں نے ان کا آدھا گھنٹہ انتظار کیا آدھے گھنٹے بعد وہ جب آئی تو انہوں نے مجھے ڈانٹ کر کمرے سے باہر نکال دیا اور کہنے لگی کہ میں اپنی درخواست ان کی اسسٹینٹ کو جمع کروا دوں اور کل لے لوں میں نے ان سے کہا کہ آج لاسٹ ڈیٹ ہے پھر بھی انہوں نے مجھے انتظار کرنے کے لیے کہا جبکہ وہ بالکل فری تھیں اور ایک آدمی کھانا لے کر آ رہا ہے جا رہا ہے اور میں باہر کھڑی ہو کر ان کا انتظار کرتی رہی اور تھوڑی دیر بعد وہ اپنا بیگ لیے کمرے سے نکلی اور مجھ پر ایک نظر ڈال کر چلی گئی” اس کے لہجے میں حیرت تھی۔
“مطلب کیا اس بات کا کہ عہدہ بڑا مل جائے تو باقیوں کو حقیر سمجھنا شروع کر دو؟” عناب کے لہجے میں ایک دفعہ پھر غصّہ عود آیا تھا۔
“تمہیں پتہ ہے ہماری ٹیچرز بھی ایچ او ڈی کے بارے میں بہت چہ مگویاں کرتی ہیں” زرناب اس کے پاس آئی تھی اسے پانی دیا تھا۔
“جانتی ہوں اور جب وہ سامنے آتی ہیں ایسی مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتی ہیں جیسے بہت اچھی سہلیاں ہو” عناب کی بات پر وہ مسکرائی تھی۔
“کیوں کہ وہ لوگ انہیں عزت ان کی شخصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے عہدے کی وجہ سے دیتی ہیں”
“ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو لوگ رتبہ دیکھ کر سلام ٹھوکتے ہیں”
“کل کو اگر یہ والی ایچ او ڈی بدل گئی اور ہماری ٹیچرز میں سے کوئی اس عہدے پر آ گیا تو پہلے والی ایچ او ڈی اس کو عزت دینے پر مجبور ہو جائے گی ” بڑا عہدہ عزت مانگتا ہے” میری پیاری دوست” وہ میز سے کتاب اٹھائے اپنی جگہ پر واپس آ گئی تھی۔
“تم نے پہلے کہا کہ کرسی پر بیٹھنے والی شخصیت قیمتی ہو سکتی ہے؟ تو کیا کرسی انہیں قیمتی بناتی ہے” عناب کرسی میں ہی کہی اٹک گئی تھی۔
“تم کنفیوز ہو رہی ہو”۔۔۔ کرسی انہیں قیمتی نہیں بناتی ان کی شخصیت میں چھپا اچھا اخلاق انہیں قیمتی بناتا ہے” اس کے ہاتھ کی بوڑ پر تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔
“جیسے کہ؟”
“جیسے کہ ہماری وائس چانسلر”
“یونیورسٹی کیا تھی اور انہوں نے کیا بنا دی ہے صرف اس لیے کہ انہوں نے کرسی پر بیٹھنے کا حق ادا کیا ہے۔”
” زر ہم کسی چیز کا حق ادا نہ کر سکیں تو دل کتنا اداس اور بے چین رہتا ہے نا؟” عناب افسردہ ہوئی تھی۔
“عناب وہ لوگ بہت پیارے قیمتی اور اعلی درجے پر فائز ہوتے ہیں جو حقوق کو سمجھ کر انہیں نبها جاتے ہیں جن میں اللّه کے حقوق بندوں کے اور والدین کے حقوق نمایاں ہیں۔” زرناب مسکرائی تھی عناب نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“زرناب اگر کرسی چھوٹ جائے تو کیا لوگ عزت کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں” عناب کی بات پر اس نے لمبی سانس کھینچ کر لیپ ٹاپ کی سکرین گرائی تھی۔
“پانچ سال بعد اگر وی سی تمہارے سامنے آ گئی تو کیا تم وہی سے پلٹ جاؤ گی؟” اس نے سوال کے بدلے سوال کیا تھا۔
“افکورس ناٹ میں انہیں سلام کروں گی اور اسی دوران میرے دل کی دھڑکن بڑھ جائے گی میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ رقص کرنے لگے گی اور میرا دل چاہے گا میں ان سے اور باتیں کروں” سارے وقت میں وہ اب مسکرائی تھی۔
“جیسے پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتی جیسے پانچ بہن بھائی ایک ہی تربیت پانے کے باوجود ایک جیسے نہیں ہوتے ویسے ہی لوگ ایک بڑا رتبہ پا کر بھی ایک جیسے نہیں ہوتے کچھ لوگ پہلے سے زیادہ نرم مزاج ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ سخت دل کر کہ تبدیلی لانے کی بجائے بس کرسی کا مزہ لیتے ہی رہ جاتے ہیں۔”
“وی سی جیسے لوگ جب کرسی سے اٹھتے ہیں نا تو وہ اپنی عزت اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں اور جو لوگ کرسی کا صرف مزہ لیتے ہیں وہ اپنی عزت اور سکون اسی کرسی پر چھوڑ کر جاتے ہیں۔۔۔ اس لیے جب تم کچھ سالوں بعد ان سے ملو گی تو تمہاری آنکھوں میں ان کے لیے عزت ہو گی احترام ہو گا” زرناب کی مسکراہٹ پر عناب نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا۔
“آؤ تمہیں اچھا سا کھانا کھلاؤں” زرناب اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی طرف چل دی تھی اگر وہ اس کا دیہان کہی اور نہ لگاتی تو اس کرسی کو اس کے دماغ سے نکالنا بہت مشکل ہو جاتا۔ ان کی آوازیں اب دور سے سنائی دے رہی تھیں۔
“ہم جب کسی عہدے پر فائز ہوتے ہیں تو ہم سے حلف لیا جاتا ہے کہ ہم اپنے پیشے سے مخلص رہے گئے مگر ہم جب ان راہوں کے مسافر بنتے ہیں تو ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری زمیداری کیا تھی ہمیں اپنے “کمفرٹ زون” سے نکلنا پڑ جائے تو وہ تکلیف دہ کام لگتا ہے ان سب کے ساتھ ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہم دنیا کی نظر سے تو بچ جائے گے مگر اللّه کی نظروں سے نہیں بچ سکتے۔ جب یہ یاد آ جائے کہ اللّه دیکھ رہا ہے تو اسی کی طرف پلٹ آئیں اور اس کے ساتھ اور اس کے نوازے گئے پیشے کے ساتھ مخلص ہو جائے۔لوگ آپ کی عزت کریں گے اگر آپ اپنا حق ادا کریں گے لوگ آپ سے دس سال بعد ملے گئے تو آپ کو عزت دے گیں اگر آپ نے وہ عزت کمائی ہو گی اور عزت اور عہدہ کمانے کے لیے جان لگانی پڑتی ہے۔ “
1 Comment
Bilkul asa hi hy ohdy ko salam hta hy