بیماریوں کی نحوست سے اٹے چہروں سے بھری ہوئی وہ سرکاری ہسپتال کی وارڈ میں کھلے دروازے کے پٹ کے ساتھ وہ چھپ کر بیٹھی تھی ۔تنفس مسلسل بڑھ رہا تھا۔وہ ہنوز دروازے پر نظریں ٹکائے بیٹھی تھی۔مرجھائے چہرے والی تیس سالہ حسینہ۔دفعتاً پاؤں فرش پر مچلنے لگے اور سانس مزید تنگ ہونے لگا۔کسی نے بھاگ کر اسے بازو سے تھاما تھا۔جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ آئ سی یو میں تھی۔کوئی ریپوٹس تیار کر رہا تھا کوئی انجیکشن لئے اس کے سر پر کھڑا تھا۔وہ ہنوز دروازے کو تک رہی تھی۔دروازے کے پار کھڑے دو ڈاکٹروں نے مصلحتاً نرس کو اشارہ کیا۔وینٹی لیٹر کا بٹن آن کر دیا گیا۔کئی گھنٹے گزر گئے اس نرس کو وہاں اس مریضہ کی سانسوں کی جدو جہد دیکھتے ہوئے۔اس نے دروازے سے نظر ہٹائی تو ایک آنسو اس کے گال کو گیلا کر گیا۔اس نے دائیں ہاتھ کو حرکت دی تو گلاس گرنے کی آواز سے نرس متوجہ ہوئی۔کیا چاہئے تمہیں؟؟
ٹوٹے پھوٹے الفاظ نرس کے کانوں میں گونجے
“مجھے مہلک مرض ہے۔۔”
بی بی یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے آرام کرو۔۔۔
“تمہارے علاؤہ مجھے یہاں سننے والا کوئی نہیں میرا آخری کام کر دو”
اس موٹی جسامت والی عورت کو اس پر ایک دم ترس آیا تو وہ اس کے قریب ہوئی۔ہاں بی بی بولو میں۔۔۔
“بٹن آف کر دو”
کیا؟نرس حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی اس نے ایک بار پھر پوری قوت سے سانس کھینچا
“وینٹی لیٹر آف کر دو…”
نرس الٹے قدم پیچھے کو ہٹنے لگی اتنے سالوں میں ایسی خواہش اس نے کسی مریض کے منہ سے نہیں سنی تھی اسے وحشت ہونے لگی تھی۔
اور وہ حسینہ بے بسی سے اسے دیکھے گئی جو اب تک حیران کھڑی تھی۔
وینٹی لیٹر بند کرنا مطلب سانسوں کی جدو جہد روکنا مطلب یہ چاہتی ہے میں وینٹی لیٹر بند کر کے یہاں مانیٹر پر چمکتی لائٹ کو دیکھوں اس کے دل کی حرکت صفر ہو اور سکرین پر سیدھی لکیر نظر آنے لگے۔یا اللہ!ہم پچھلے آٹھ گھنٹے سے تمہارے سانس بحال کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔نرس نے افسوس سے سر جھٹکا اور باہر نکل گئ۔۔۔
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً.
Previous ArticleKuch Khawab Adhore By Alisbha Ishaq
Next Article Katy Pankh By Iqra AbdoulRouf