آج اس محاورے کو بھی لے کے بات ہو جائے۔ یہ محاورہ میں لکھاریوں کی وجہ سے بولوں گی۔ ان لوگوں کے لیے جن کا بلاواسط یا بلواسطہ اس ادب کی دنیا سے تعلق بن جاتا ہے اور وہ انہیں دیکھ کر بہت سے گمان پال لیتے ہیں۔ پہلا گمان تو یہ کہ لکھاری کماتا بہت ہے۔ وہی دور کے ڈھول سہانے کہ انکا نام ہے تو کمائی بھی ہو گی۔
میں جب سے ادب میں آئی ہوں تب سے بہت سارے لوگوں سے ایک فقرہ سنتی آ رہی ہوں کہ ہم لکھنے سے کیسے کما سکتے ہیں۔
جو نئے لکھنے والے آتے ہیں انکا پہلا سوال ہی یہی ہوتا ہے کہ ہم اپنی تحاریر سے کما کیسے سکتے ہیں یا پھر اگر وہ کسی زیادہ نام والے لکھاری کو دیکھیں اسکے کام کو دیکھے یا کسی میگزین چلانے والے کو دیکھیں تو یہ سوال لازمی پوچھا جاتا ہے کہ ہم بھی یہ سب کام کر کے پیسے کما سکتے ہیں یا کوئی ایسا ذریعہ جس سے ہمیں آمدنی ہو۔
میرے نزدیک ایک لکھاری کبھی بھی یہ سوچ کے نہیں لکھتا کہ ہماری تحریر بکے گی۔ اگر کوئی یہ سوچ دماغ میں رکھ کہ لکھتا ہے تو میں پھر اسے لکھاری نہیں کہہ سکتی۔
آپ ذرا خود سوچیں آجکل ڈیجیٹل دور ہے۔ لوگ کتابیں خریدنا تو دور پڑھنا تک بھول گے ہیں۔ ان کے اس دور میں ایک لکھاری کو اپنی کتاب شائع کروانا مشکل ہو گیا ہے تو وہ کمائے گا کیسے؟ کوئی کتاب خریدے گا تو اسے کچھ مل سکے گا۔ آج صرف 30٪ لوگ رہ گے ہیں جو کتابوں سے شگف رکھتے ہیں۔
لکھاری اپنے شوق سے اور اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت کی وجہ سے لکھتا ہے ۔ لکھاری بننا ایک جنون ہو سکتا ہے لیکن ذریعہ معاش نہیں۔
ہم نے کیوں آج تک کتابوں، کہانیوں ، قصوں میں ایک ادیب کو امیر نہیں دیکھا؟
کیوں ہم نے ان ادیبوں کو غربت کی چکی میں پیستے دیکھا؟
کیونکہ وہ ادیب صرف قلم سے محبت کرتے تھے ۔ انہیں صرف لکھنا ہوتا تھا اور وہ لکھتا ہی جانتے تھے اس کے بدلے میں انہیں کچھ نا کچھ مل جاتا تھا۔ قلم سے محبت کی وجہ سے وہ اور کوئی ذریعہ معاش اپنا ہی نہیں سکے اس لیے ہم۔نگ انہیں ہمیشہ غربت میں ہی دیکھا، پڑھا اور سنا۔
اگر آپ لکھت کو ذریعہ معاش بنانے کی کوشش کریں گے تو کبھی بھی آج کے دور میں جی نہیں سکے گے۔
یہاں پہ ایک اور بات کہنا چاہوں گی کہ جو نئے لکھنے والے ہیں وہ آتے ہی اس کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ بس جلد از جلد ہمارا نام بن جائے۔ اس چکر میں وہ بنا سوچے سمجھے کسی بھی ادارے کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں۔ خود کو ایسے چکرویو میں پھنسا لیتے ہیں کہ پھر بس تھک ہار کے بیٹھے جاتے ہیں۔ پہلے جن کی تحاریر ہر روز آتی تھی پھر وہ مہینے میں ایک بار سنگ لگتی ہے، پھر سال میں ایک بار اور پھر آہستہ آہستہ تو وہ نام ہی غائب ہو جاتا ہے۔
قلم سے محبت کریں۔ دل سے لکھیں جو بھی لکھیں ۔ خود کو مجبور کر کے نا لکھیں۔ بس یہی کہوں گی کہ ایک لکھاری بن کر لکھیں کاروباری بن کر نہیں۔
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً.
Previous ArticleUjala Basheer’s Words
Next Article چکرویو از قلم ملائکہ حورین