ہر چیز اپنے اندر ہزاروں مطلب چھپا لیتی ہے۔ایک لفظ کے ہزار مطلب ہوتے ہیں لیکن اُس کا استعمال ہمیشہ مختلف ہوتا ہے۔کچھ الفاظ جو ایک جیسے ہوتے ہیں دیکھنے میں بھی اور پڑھنے میں بھی لیکن جب اُن کے مطلب تک رسائی ہوتی ہے تو وہ ایک اور شکل میں سامنےآتے ہیں ایسے لفظوں کو ہم کہتے ہیں۔
“Homonyms”
لیکن کیا تمہیں ایک بات بتاؤں؟ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ کس سینس میں کہا گیا ہے وہ اُس لفظ کو اس طرح لیتے ہیں جیسے وہ لینا چاہتے ہیں وہ اپنے مطلب کا لفظ اُٹھاتے ہیں اور مطلب کی بات رکھتے ہیں اور باقی لوگوں کے منہ پر مار دیتے ہیں۔ یقین جانو ایسا ہی ہوتا ہے اگر تم کسی سے کہتے ہو کہ نہیں میری بات کا وہ مطلب نہیں تھا تم غلط سمجھے ہو تب لوگ پتہ ہے کیا کہتے ہیں؟ جو دل کی بات ہوتی ہے وہ زبان پر آ جاتی ہے۔ ہاں کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے لیکن وہ سب ہمیں لہجے آگاہ کر دیتے ہیں لیکن جو ہم نے کہا نہیں ہوتا وہ بات لوگ دل پر لکھ لیتے ہیں انتقام کو حسین بنانے کے لیے وہ اپنی زندگی کا سکون قربان کر لیتے ہیں اور جانتے ہو؟ کہ انتقام کے بعد کیا ہوتا ہے؟ ایک اور نسل انتقام کے لیے پروان چڑھتی ہے۔ انتقام کی رمق اُس نسل میں “گرو” کرتی ہے۔ انتقام ایک ایسا سرکل ہے جس کو کبھی ختم نہیں ہونا ہوتاوہ ہرنسل میں اپنا سائیکل چلاتا ہے۔
“کیا تم اس کو روکنے کا طریقہ جانتے ہو؟”
“اس کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔۔۔ اس میں انتقام لینے والے پر منحصر کرتا ہے کہ زندگی نے اُس میں کتنا شعور منتقل کیا ہے اگر وہ سمجھ گیا کہ انتقام نسلیں تباہ کر دیتا ہے اگر وہ یہ جان گیا کہ یہ سب نام و نشان مٹا دیتے ہیں تو وہ خود جو اس سائیکل میں قید محسوس کر کہ خود کو گھٹن سے آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو وہ خود کو “جی ناٹ فیز” میں داخل کر لیتا ہے۔اور کیا تم جانتے ہوکہ “جی ناٹ فیز” کیا ہوتا ہے؟
خیر یہ سائینس کی ایک ٹرم ہے جس میں سیلز ریسٹنگ فیز میں چلیں جاتے ہیں جہاں پر وہ خود کو ڈیوائیڈنگ سٹیج کی قید سے آزاد محسوس کرتے ہیں۔
اگر وہ ایک شخص شعور کی منزلوں سے گزر کر اُس سایئکل سے نکل کر خود کو جی ناٹ فیز میں گرا لیتا ہے تو اپنی آنے والی نسل میں وہ سب “انہیریٹ” ہونے سے بچا لیتا ہے۔ ایسا مت سمجھنا کہ یہاں انتقام ہار جاتا ہے بلکہ یہ سمجھنا کہ یہاں نسلیں جیت جاتی ہیں۔ اور یہ وہ نسلیں ہیں جو ہمیں ہمارا مستقبل لگتی ہیں۔
“اور یاد رہے یہ نسلیں صرف مردوں کی بقا سے نہیں چلتی مردوں کی پسلی سے بنائی گئی وہ عورت ہی نسلوں کو سنوارنے کا فن جانتی ہے۔ ایک عورت کی مداخلت ہر نسل میں بہت ضروری ہے۔سنوارنے کا فن بھی اُسی پر ہے اور بگاڑنے کا فن بھی اُسی کو آتا ہے۔ ایک عورت کو اچھا ماحول دو اچھی تعلیم دو وہ تمہاری نسل میں اپنی اچھی تعلیم اور تربیت ضرور منتقل کرے گی۔
فیصلے خوبصورتی کے معیار پر نہیں ججتے۔۔ یہ وہ حُسن ہے جو وقت نے ڈھال دینا ہے وقت کے ایک حصے نے آپ کی جوانی کھا جانی ہے۔ لیکن جو آخر تک رہے گا وہ کردار ہو گااور کردار کا معیار قیمتی ہونا چاہیےاُس کا اسٹیٹس ہائی ہونا چاہیے۔یہ دیکھنے کی چیزیں نہیں ہے کہ ایک عورت کتنی ماڈرن ہے اُس کو پہننے اُوڑھنے کا کتنا فن آتا ہے وہ اس زمانے کے ساتھ چلنے کے قابل ہے یا نہیں۔ آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اُس عورت کو اللہ نے کہاں کھڑا کیا ہے۔ وہ اللہ تعالی کی راہ میں کہاں کھڑی ہے کیا وہ دن میں اللہ سے پانچ وقت ملاقات کرتی ہے یا نہیں۔
“اپنی اولاد کو عزت کرنا اس لیے نہیں سکھانی کہ یہ ضروری ہے اور یہ عزت صرف بڑوں کے احترام تک نہیں رہنے دینا یہ اس لیے سکھانا ہے کہ کل کو یہ عزت آپ کی طرف لوٹ کر واپس آنی ہے پہچان بیشک آپ کی اولاد اپنی بنا لے گی مگر وہ ہمیشہ آپ کے نام سے جانی جائے گی۔ کوئی یہ نہیں کہے گا کہ دیکھو وہ فقیہ بتول آ رہی ہے کوئی یہ ضرور کہے گا کہ دیکھو شبنم خان اور مبشراحمد کی بیٹی آ رہی ہے اور یہ کہتے ہوئے اُن کے لہجے میں خوشی ہونی چاہیے احترام ہونا چاہیے اور وہ سب تب ہو گا جب آپ نے وہ سب اُنہیں دیا ہو گا یہ وہ چیزیں ہیں جو لوٹ کر ضرور آتی ہیں۔