گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ کھڑے پیپل کے نازک پتوں کو بے باک ہوا اپنے سنگ اڑا لاتی ہے اور اس سنگ مرمر کے فرش پر بکھیر دیتی ہے۔
ہوا کو درخت سے ہمدردی کیوں نہیں ہوتی۔۔۔؟؟
خیر۔۔۔
میری مالکن کو بہت غصہ آتا ہے اس ہوا پر کیونکہ مالکن کو بار بار صحن کی صفائی کرنی پڑتی ہے۔مجھے یہ بات اداس کرتی ہے کہ پیپل کے پتے کم ہوتے جارہے ہیں اور لکڑی سنسان ہوتی جارہی ہے۔یہ پیپل مجھے میرے گھر کی یاد دلاتا ہے۔چند برس پہلے مالک مجھے جس باغ سے پکڑ کر لایا تھا وہاں ایک گھنے پیپل پر میرا گھونسلہ تھا۔اتنے برس بیت گئے نہ جانے ہوا نے میرے گھونسلے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہو گا۔اب تو یہ سنگ مرمر کا مکان ہی میرا گھر ہے۔
میں سورج سے پہلے جاگ جانے والی چڑیا ہوں۔طلوع آفتاب سے پہلے پنچھی غول کی صورت آسمان پے بکھرے ہوتے ہیں۔دانے کی تلاش میں گھومتے پنچھیوں کے چہکنے کی آوازیں مجھے بہت بھلی لگتی ہیں۔میں روز اس منڈیر پر بیٹھ کر یہ منظر حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہوں۔مالکن کو ڈر ہے کہ کسی روز میں ان پرندوں کے سنگ اڑ ہی نہ جاؤں۔مالکن کو مجھ سے بہت محبت ہے۔اسی لئے تو ہر ماہ وہ میرے پنکھ کاٹ دیتی ہے۔
ہائے یہ انسانوں کی خود غرض محبتیں۔۔۔۔۔۔
کاش میں مالکن کو بتا سکتی کہ اس مکان میں رہتے رہتے میں اڑنا بھول چکی ہوں۔میرے پر مفلوج ہو چکے ہیں۔مجھے اونچائیوں سے ڈر لگنے لگا ہے۔ایک وقت تھا جب میں اپنی بلند پرواز پر اترایا کرتی تھی۔سرمئی بادلوں کو چھونے کی خواہش میں میں نے اپنے سنہری پنکھوں کو بہت تھکایا ہے۔مجھے اپنی خوبصورتی پر ناز تھا اور اسی خوبصورتی کی بدولت مالک مجھے پکڑ لایا تھا اب میں اکثر سوچتی ہوں
“کاش میں بدصورت ہوتی”
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً.
Previous ArticleAkhri Khawahish By Iqra AbdulRaouf
Next Article Alllah Ki Muhabat By Alishba Ishaq