خزاں کے بعد کی بہار
فقیہ بتول
یوں لگا تھا جیسے بہار آئی ہو
لیکن یہ موسم تو خزاں کا ہے
خوش مت ہو جانا کہ نئے پھول کھل اٹھے ہیں
یہ وہ پھول ہیں جنھیں شاخوں سے گر جانا ہے
پر تم اداس مت ہونا
ایک دن خزاں کے موسم کو بھی ختم ہو جانا ہے
شاخوں نے پھر سے ہرا بھرا ہو جانا ہے
فقیہ بتول
ہر موسم کی اپنی حقیقت تھی، لیکن خزاں کا موسم کچھ خاص ہوتا تھا۔ جب درختوں کے پتے پیلے پڑنے لگتے اور ہوا میں خنکی آتی، تو فضاء بھی غمگین سی ہو جاتی۔ خزاں کے موسم کو بہت بھاری محسوس کیاجاتا کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا جب شاخوں سے پتے اور پھول گرتے تھےاور زمین پر سوگ کی سی خاموشی چھا جاتی تھی۔پیلے پتے جو شاخوں سے گر کر نا آشنا سے ہو کر مردہ ہو جاتے ہیں وہ دیکھنے میں ایک دلکش منظر تو پیش کرتے ہیں لیکن دل میں اداسی کا بیج بو جاتے ہیں انتظار کی ڈور تھما جاتے ہیں اور انتظار اذیت کے سوا کچھ نہیں۔
بہار کے آنے کا انتظار
نئی اُمیدیں
نئے اسباب
نئے سفرکا آغاز
پرانے لوگوں کے ساتھ کچھ نئی خوشیاں
اس دن خزاں کی ہوا اور تیز ہواؤں کے درمیان، علیمہ نے اچانک ایک درخت کے نیچے پڑا ایک خوبصورت پھول دیکھا۔ وہ پھول، جو ابھی تھوڑی دیر پہلے درخت کی شاخ پر تھا، اب زمین پر پڑا تھا۔ علیمہ نے اسے اُٹھایا اور حسان سے کہا۔
“دیکھو، یہ پھول کتنا خوبصورت ہے! لیکن یہ کیوں گرا؟”
“یہ خزاں کا موسم ہے، علیمہ۔ خزاں میں پھولوں کا گرنا، پتے جھڑنا معمول کی بات ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہر چیز اپنا راستہ بدلتی ہےاور پھولوں کا جھڑنا ضروری ہوتا ہے تاکہ نئے پھول اگ سکیں۔”علیمہ خاموش ہو گئی، لیکن اس کے دل میں ایک سوال تھا۔ وہ پھول اب کہاں جائے گا؟ کیوں اُس کا وجود اتنی جلدی ختم ہو گیا؟ حسان نے جیسے علیمہ کی سوچوں کو پڑھ لیا۔
“پھر بھی، تم اداس مت ہونا۔ ایک دن خزاں کا موسم ختم ہو جائے گا، اور شاخوں پر نئے پھول کھلیں گے۔ اور ایک دن، جب خزاں چلی جائے گی، تو درخت پھر سے ہری بھری شاخوں سے بھر جائیں گے۔”علیمہ نے حسان کی باتوں پر سر ہلایا، لیکن پھر بھی وہ ادھوری سی محسوس ہو رہی تھی۔ اُس کا دل چاہا کہ وہ اس وقت میں پھنسے ہوئے، ان جھڑے ہوئے پھولوں کو دوبارہ شاخوں پر واپس لگا سکے، تاکہ وہ اور بھی خوبصورت ہو سکیں۔ لیکن حسان کی باتوں میں ایک ایسی سچائی چھپی ہوئی تھی جو علیمہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی تسلی دے رہی تھی۔
“یہ دنیا کا اصول ہے، علیمہ، کہ ہر خوشی کے ساتھ دکھ اور ہر موسم کے بعد ایک نیا موسم آتا ہے۔ خزاں کے بعد بہار آتی ہے اور ہر خزاں کی تکلیف کے بعد زندگی ایک نیا رنگ اور خوشبو لے کر آتی ہے۔” حسان نے کہا۔علیمہ نے ایک گہری سانس لی اور اس نے پھول کو اپنے ہاتھوں میں تھاما، جیسے وہ اس کی تقدیر کا حصہ بن چکا ہو۔
“یعنی، خزاں کا موسم بس عارضی ہے اور ہمیں اس کا سامنا کرنا پڑے گا، تاکہ پھر ایک دن شاخوں پر نئے پھول کھلیں؟”
“بالکل!” حسان نے مسکرا کر کہا۔یہ بات علیمہ کے دل میں گھر کر گئی۔ وہ جان چکی تھی کہ خزاں کے موسم کی تکلیف، وہ گرتے ہوئے پھول، اور جھڑتے ہوئے پتے سب عارضی ہیں۔ ایک دن خزاں کا موسم ختم ہو جائے گا، درختوں کی شاخوں پر نئی زندگی آئے گی، اور پھر سے پھولوں کی مہک ہر طرف پھیل جائے گی۔
گاؤں کے ایک گوشے میں، جہاں ہر طرف درختوں کی قطاریں تھیں اور زمین پر خزاں کی دھندلائی ہوئی چپ تھی، علیمہ اور حسان چلتے جا رہے تھے۔ علیمہ کے ذہن میں اب بھی خزاں کے گرتے پھول اور پتے گھوم رہے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا واقعی زندگی میں اتنی تیز تبدیلیاں ضروری ہیں؟ کیا ہر موسم کا آنا اور جانا ضروری تھا؟ لیکن حسان کے الفاظ میں ایک ایسی حقیقت چھپی ہوئی تھی جسے وہ سمجھنا چاہتی تھی۔
“حسان، تمہیں لگتا ہے کہ واقعی خزاں کے بعد بہار آتی ہے؟” علیمہ نے سوال کیااور اس کی آواز میں ایک نرمی تھی۔حسان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
“جی ہاں، علیمہ۔ ہر گزرے ہوئے لمحے کے بعد ایک نیا لمحہ آتا ہے۔ زندگی کے ہر موسم میں اس کی برکات اور اس کی تکلیفیں ہوتی ہیں، لیکن یہ سب ہمیں کچھ سیکھانے کے لیے آتا ہے۔ خزاں کی ہوائیں، پتے اور پھول جو گرتے ہیں، وہ ہمیں صبر سکھاتے ہیں۔ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ کچھ چیزوں کا ختم ہونا بھی ضروری ہے تاکہ کچھ نیا شروع ہو سکے۔”
“یعنی جب ایک درخت کے پتے گرتے ہیں، تو وہ درخت مر نہیں جاتا، بلکہ وہ اگلے موسم کے لیے تیار ہوتا ہے؟” علیمہ نے تھوڑی سی حیرانی کے ساتھ کہا۔
“بالکل! جب درخت کے پتے گرتے ہیں، تو وہ درخت خود کو نیا کرنے کی تیاری کرتا ہے۔ اس کا مقصد نہیں ہوتا کہ وہ مر جائے، بلکہ وہ دوبارہ اپنی زندگی کو ایک نیا رنگ دینے کے لیے خود کو دوبارہ زندہ کرتا ہے۔” حسان نے جواب دیا۔علیمہ کواپنے دل میں ایک تازہ روشنی سی محسوس ہوئی۔ اس نے اپنے دل کی گہرائیوں میں وہ بات محسوس کی جو حسان نے کہی تھی۔ خزاں کا موسم واقعی عارضی تھااور جب تک وہ اس موسم کا حصہ بنتی، وہ خود بھی اپنی تکالیف سے سیکھ کر ایک نیا روپ اختیار کر سکتی تھی۔
“لیکن، حسان اگر خزاں کا موسم اتنا ضروری ہے، تو کیا ہم اپنی زندگی میں آنے والی مشکلات سے خوف زدہ نہیں ہو سکتے؟” علیمہ نے دوبارہ سوال کیا۔حسان نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
“خوف ہمیں اس وقت آتا ہے جب ہم اس موسم کو ختم ہونے سے پہلے ہی ٹوٹنے لگتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر تکلیف کے بعد، ہر مشکل کے بعد، ہمیں ایک نیا موقع ملتا ہے۔ جیسے خزاں کا موسم ختم ہوتا ہے، ویسے ہی ہمارے اندر بھی نئی طاقت اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر، بہار آتی ہے۔
نیا رنگ، نئی خوشبو، اور نئی زندگی کے امکانات لے کر۔””
علیمہ نے آہستہ سے سر ہلایا، اور اس کے دل میں ایک تازہ امید کی لہر دوڑ گئی۔ وہ جان چکی تھی کہ جب تک وہ اپنی مشکلات کا مقابلہ کرے گی اور ان سے سیکھے گی، اس کی زندگی میں ہمیشہ ایک نیا موقع آئے گا۔
“حسان، تم نے مجھے ایک نئی سوچ دی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ خزاں کا موسم ہمیں نہ صرف صبر سکھاتا ہے، بلکہ یہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں خود کو دوبارہ سے دوبارہ زندگی دینے کی ضرورت ہےاور ہر نئے آغاز کے لیے خود کو تیار کرنا ہے۔” علیمہ نے کہا۔
“بالکل! اور یہی زندگی کا راز ہے۔ ہمیں اپنے اندر کی طاقت کو پہچاننا ہوتا ہے اور ہر بدلتے موسم کے ساتھ خود کو نئے انداز میں ڈھالنا ہوتا ہے۔” حسان نے جواب دیا۔
وہ دونوں اب گاؤں کے قریب پہنچ چکے تھےاور علیمہ کے دل میں ایک نیا جذبہ اور سکون تھا۔ وہ جان چکی تھی کہ خزاں کا موسم جتنا بھی سخت ہو، وہ ہمیشہ ختم ہو جاتا ہےاور اس کے بعد شاخوں پر نئے پھول کھلتے ہیں۔ اور جب تک وہ موسم کے تبدیل ہونے کا انتظار کرے گی، وہ خود کو ہر لمحے میں ایک نیا شخص بنائے گی۔
“خزاں آتی ہے، پھر بہار آتی ہے۔ لیکن اس بہار کے لیے، ہمیں خزاں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور وہی ہمیں حقیقت میں مضبوط بناتا ہے۔” علیمہ نے اپنے دل میں یہ بات کہی، جیسے اس نے زندگی کا ایک نیا سبق سیکھا ہو۔اور یوں، گاؤں میں خزاں کے موسم نے اپنی مہک اور گرتے ہوئے پھولوں کے باوجود، علیمہ کو زندگی کی سچائیاں سکھا دیں اور وہ جان چکی تھی کہ ہر موسم کی برکت میں ایک خاص راز چھپا ہوتا ہے۔
“زندگی ایک مسلسل سفر ہے، جس میں خوشی، غم، کامیابی، اور ناکامی سبھی کا اپنا وقت اور مقام ہوتا ہے۔ کبھی زندگی میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہوتا ہے، اور کبھی لگتا ہے کہ ہر چیز ٹوٹ کر بکھر گئی ہو۔ لیکن، اس ساری اتار چڑھاؤ میں ہم جو سب سے بڑا سبق سیکھتے ہیں، وہ صبر اور امیدہے۔
زندگی کو سمجھنے کے لیے کبھی کبھی ہمیں قدرت کے چھوٹے چھوٹے رازوں سے سبق لینا پڑتا ہے۔ جیسے خزاں کا موسم آتا ہےاور درختوں کے پتے سستے اور بے رنگ ہو کر زمین پر گرنے لگتے ہیں، ویسے ہی ہماری زندگی میں بھی کبھی نہ کبھی ایسا وقت آتا ہے جب ہمیں لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ ہم احساس کرتے ہیں کہ ہم نے جتنی محنت کی، جتنی امیدیں رکھی، وہ سب بکھر گئیں ہیں۔ لیکن یہ خزاں کا موسم عارضی ہوتا ہے۔
یہ موسم ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہر ختم ہونے والی چیز کے پیچھے کچھ نیا شروع ہوتا ہے۔ جیسے درختوں کے پتے گرنے کے بعد زمین پر وہ ذخیرہ ہوتا ہے جو اگلے موسم کی تیاری کرتا ہے، ویسے ہی زندگی کے کسی بھی غم یا تکلیف کے بعد ہم نئے انداز سے خود کو سمجھتے ہیں،اور یہ ہمیں آگے بڑھنے کی طاقت دیتا ہے۔
زندگی کے خزاں کے موسم میں، ہم اپنی ناکامیوں اور غموں کے درمیان تھک کر بیٹھ سکتے ہیں، یا پھر ان کا سامنا کر کے خود کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ وقت، یہ درد، یہ مایوسی صرف عارضی ہیں۔ جیسے خزاں کے بعد بہار آتی ہے، ویسے ہی ہماری زندگی میں بھی ایک نیا دور آئے گا۔ ہمیں صرف صبر سے کام لینا ہوتا ہے اور یقین رکھنا ہوتا ہے کہ ہر تکلیف کے بعد خوشی کا موسم ضرور آتا ہے۔
“خزاں کا موسم اس لیے آتا ہے تاکہ ہم بہار کے موسم کی قدر جان سکیں۔“
“اگر درخت ہمیشہ ہرے رہیں، تو ہم کبھی ان کے بدلتے رنگوں کی اہمیت نہیں سمجھ پاتے۔ اسی طرح، اگر زندگی ہمیشہ خوشیوں سے بھری رہتی، تو ہم کبھی مشکلات اور ان سے سیکھنے کی اہمیت کو نہیں سمجھ پاتے۔”
زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ ہر موسم کی اپنی جگہ ہے۔ ہم جس لمحے میں ہیں، ہمیں اس کا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جب تک خزاں کا موسم ہے، ہمیں اپنے اندر صبر اور حوصلہ پیدا کرنا ہوتا ہے، اور جیسے ہی بہار آتی ہے، ہمیں اس کا استقبال خوشی سے کرنا ہوتا ہے۔ یہ قدرت کا سب سے بڑا راز ہے، جو ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے کی ہمت دیتا ہے۔
زندگی کبھی بھی ایک ہی موسم میں نہیں رہتی۔ ہر موسم اپنے ساتھ نیا سبق لے کر آتا ہے اور ہمیں اسے گلے لگانا سیکھنا ہوتا ہے۔ اس سفر میں اگر ہم صبر کے ساتھ آگے بڑھتے جائیں، تو ہم دیکھیں گے کہ زندگی کا ہر موسم، چاہے وہ خزاں ہو یا بہار، ہمیں کچھ نہ کچھ سکھانے کے لیے آتا ہے۔”