چلو لے آیا ہوں تمہارے خوابوں کے
جزیرے پر، ناراضگی ختم کر دو اور بتاؤ
اب تو خوش ہو نا۔
یثرب شاہ نے اپنے پاؤں جوتوں سے آزاد کئے اور سمندر کی ٹھنڈی ریت پہ بیٹھنے لگا۔
پریشے نے اس کے ساتھ بیٹھتے ہی ایک گہرا سانس لیا اور اپنا سر یثرب کے کندھے پہ ٹکا دیا ۔ خوشی کا تو نہیں پتہ لیکن میں اب پرسکون ضرور ہوں۔ آپ جانتے تھے نا میری خواہش تھی یونہی آپ کے کندھے پر سر رکھا ہو، قدموں میں سمندر کی لہریں ہوں، میری اور آپ کی ایک الگ دنیا ہو جہاں صرف ہم دونوں ہوں اور کوئی تیسرا ہمارے درمیان نہ ہو۔
وہ اتنی سنجیدگی سے سنتا رہا کہ پری کو گمان ہوا وہ نہیں سن رہا تب ہی اچانک خاموش ہوگئی تھی۔
ارے تم بولو نا ، تم جانتی تو ہو مجھے تمہیں سننا کتنا پسند ہے، تب ہی تو بے مقصد باتیں چھیڑتا ہوں کہ تم بولتی رہو اور میں سنتا رہوں اور اتنا سنوں کہ باقی آوازیں مدہم پڑ جائیں۔
وہ حیران ہوتی سنتی گئی ۔ وہ اتنی خاص تھی اس کی زندگی میں، یہ تو وہ پچھلے پانچ سال میں نہ جان پائی تھی۔
کیسا انکشاف تھا جو سالوں میں نہ ہو سکا تھا اور چند لمحوں میں اقرار پا گیا تھا۔
اتنا سب بولنے کے بعد یثرب شاہ کی زبان کو بریک لگی تو احساس ہوا کہ آج پوری رات کے چاند اور سمندر کی ان بے رحم لہروں کے سامنے وہ اپنی انا کو پرے کرتے کیا کچھ کہہ گیا تھا۔
اچھا اب آگے تو بولو۔ کوٹ میں سے سگریٹ اور لائٹر نکالتے اس نے بات بدلی۔
“بات بدلنا تو کوئی آپ سے سیکھے شاہ صاحب۔”
اچھا سنیں اب، پتہ ہے میں سوچتی تھی ہم دونوں بیٹھے ہوں گے اور ٹھنڈی ہوا سے مجھے ٹھنڈ لگنے لگے گی تو آپ مجھے اپنی شال اوڑھائیں گے،کبھی تو اپنی خوشبو میں بس جانے دیں گے، کبھی تو جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک بار دل سے مسکرا کر دیکھیں گے، اسی مسکراہٹ سے جس سے میں روزانہ آپ کو صبح پہلی نظر میں دیکھتی آئی ہوں۔
وہ کش لگاتا خیالوں میں کھویا سا تھا، وہ جانتا تھا وہ صبح اٹھتے ہی اسے دیکھتی ہے اسے محسوس کرتی ہے لیکن وہ سرد جذبات کا لڑکا اسے ایک نظر دیکھنا بھی اپنی انا کی توہین سمجھتا تھا۔ اس کا دل کرتا تھا کہ جس محبت پہ صرف اس کی محرم کا حق تھا وہ اسے ہی دے لیکن انا آڑے آتی تھی۔ ماضی میں کی گئی غلطیاں اسے روکتی تھیں۔ وہ ڈرتا تھا کہ اگر اسے پری سے محبت ہوگئی تو وہ اس کے بارے میں سب جان جائے گی اور چھوڑ کے چلی جائے گی، وہ اس کے بےحد قریب ہونے کے باوجود اس سے میلوں دور تھا۔
اسی سوچ میں اس کہ سگریٹ جل کے راکھ بن چکی تھی۔ دونوں ہی اپنے خیالوں میں گم تھے مگر پرسکون تھے۔
لیکن پھر جیسے یثرب نے نئے سرے سے زندگی جینے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا جس میں وہ صرف سچ بولے گا اور پری کو کبھی خود سے دور نہیں کرے گا اور اسی کی ابتداء کرنے وہ پری کی من پسند جگہ لے آیا تھا۔
پریشے کے نرم بال تیز ہوا سے بکھر چکے تھے یثرب نے ہئیرپن لگا کے اس کے چہرے سے لٹ ہٹائی اور اپنی شال اسے اوڑھا دی۔
اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس کے ماتھے پہ ثبت مہر رقم کی اور کہا اس چاندنی رات کو، ان خوبصورت سمندری لہروں کو، تاروں سے بھرے آسمان کو اور اپنی خوبصورت شریک حیات کو گواہ بناتے ہوئے یہ یثرب شاہ تم سے اقرار کرتا ہے کہ یہ مر جائے گا لیکن کبھی تمہیں خود سے دور نہیں جانے دے گا۔
تمہارے سارے خوابوں کو آج سے پورا کرے گا۔ بتاؤ پریشے کیا تم اس سب کے بدلے میں مجھے محبت کرنا سکھاؤ گی۔ کیا مجھے پھر سے اپناؤ گی۔؟
پریشے نے سر اثبات میں ہلا دیا تھا اور اس میں مزید سمٹ گئی تھی۔
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً.
Previous ArticleBeauty of Eyes By Maha Anaya
Next Article Akhri Khawahish By Iqra AbdulRaouf