زمانے کے آخری ڈبوں کا مسافر ہونا ہماری تقدیر ٹھہرا۔حاصل اور لاحاصل کے درمیان نفس کی پٹڑی پر ہم بہت دور نکل آئے ہیں ۔سست روحوں کی بدولت تیزرفتار مشینری ایجاد ہو رہی ہے۔وسیع و وعریض شہر دریافت ہوئے، مگر انسانیت ناپید ہوتی جا رہی ہے۔قدرتی مناظر پر ماڈرن سوسائٹی حاوی ہے۔جان لیوا بیماریوں کی نحوست سے زندگیاں ڈھیر ہوتی جارہی ہیں۔فرقوں پر مذہب کا لیبل لگا کر ہر شخص پارسا ہوا ہے۔ہم بچوں کی طرح کہانیوں سے بہلنے والا دل رکھتے ہیں۔مگر ہمیں اپنے اردگرد چلتی پھرتی کہانیاں دکھائی نہیں دیتیں۔اور نہ ہمیں ہمارے ڈبے میں کوئی قصے کہانیاں سنانے والا ملا اسی لئے یہ دل تھکاوٹ سے چور ہے۔ہم تیزرفتاری کے قائل ہو چکے ہیں۔شائد اسی لئے یہ گاڑیوں کا شور ہمارے لئے ضروری ہو گیا ہے۔خاموشیوں کی صدائیں دم توڑ چکی ہیں۔ہماری آنکھوں نے برقی روشنیوں کی جگمگاہٹ کو ترجیح دی اسی لمحے چاند میں بیٹھی سوہنی بڑھیا بخار سے تپنے لگی۔اس شور و غل کے درمیان یہ گلیاں سنسان ہیں۔اکیسویں صدی کی ویرانی نے میری آنکھوں کے دیے بجھا دیے ہیں۔آنکھوں کو چندھیا دینے والی ان برقی روشنیوں نے اندھیرے کے سکوت پر وار کیا اور میرے دیس کے جگنو ہجرت کر گئے۔