رات کی تاریخی میں خاموشی اپنے پَرپھیلاۓ بیٹھی تھی پورا شہر اندھیرے اور خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا دور دور تک کسی زی روح کا ناموں نشاں نہیں تھا سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں آرام فرما رہے تھے۔
اور یہی حال ابراھیم ولا کے لوگوں کا بھی تھا جو اس وقت خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ تب ہی کسی ایک کے کمرے میں حرکت ہوئی کمرا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا لیکن کوئی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا جو ا اپنے بالوں کو سوار رہا تھا اور اپنے ایک ہاتھ سے پونی کو آزاد کر کے اپنے بالوں کو باندھ رہا تھا اور پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل پر پڑے لمپ کو جلایا اب کمرا روشنی میں نہا گیا تھا اس کا چہرہ سہی سے نظر آیا تھا اس نے ریموٹ سے اے سی کو بند کیا اور خود کو کمبل سے آزاد کر کے اپنے پاؤں زمین پر رکھ کر اٹھ گئی سلیپرز پہن کر وہ واش روم میں گھس گئی۔ اور جب وہ باہر آئی تو اس کے منہ ہاتھوں اور بازؤں سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھی۔ اس نے دوپٹہ اپنے چہرے کے گرد نماز کے سٹائل سے لیا ۔ تب تک الارم کی گھنٹی کی آواز سنائی دینے لگی اس نے آگے بڑھ کر سائیڈ ٹیبل سے الارم کو بند کیا اس کی عادت تھی وہ روزانہ الارم لگا کر سوتی تھی اور الارم بجنے سے پہلے ہی اٹھ جانا بھی اس کی عادت بن گئی تھی الارم وہ اس لیے لگا کر سوتی تھی کہ اگر کبھی وہ نہ اٹھ پاے تو الارم کی وجہ سے اسے جاگ آ جائے اور پھر وہ بیڈ پر بیٹھ کر درودپاک پڑنے لگی ۔ابھی اسے پڑھتے ہوئے دس منٹ ہوئے ہی تھے کہ فجر کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی اس نے اذان کا جواب دیا اور اٹھ گئی ۔جائے نماز کو قبلہ رخ بچھا کر وہ نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑی ہو گئی اس کے بعد وہ اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر کی طرف چل دی ۔ باقی کمروں میں بھی ہل چل مچنا شروع ہو گئی تھی کیوں کے نماز فجر کا وقت ہوا تھا سب نماز کی ادائیگی کے لیے اٹھ گئے تھے سواۓ ایک شخص کے اب وہ اس کے کمرے کے سامنے جا رکی تھی۔ اور اب وہ دروازے کو پِیٹ رہی تھی کیوں کے وہ جانتی تھی عفاف اتنی جلدی اپنی نیند کو خیر باد نہیں کہتی ہے اور یہ اس کا روز کا کام ہے پہلے وہ خود اٹھتی پھر نماز ادا کر کے عفاف کو اٹھانے آتی تھی ۔
“عفاف اٹھ جاؤ نماز کا وقت گزر رہا ہے۔۔۔” اور اب اس نے تب تک دروازہ پیٹنا تھا جب تک عفاف اٹھ کر کھول نہ دیتی عفاف نے اسے آواز دے کر کہہ دیا تھا کہ وہ اٹھ گئی ہے لیکن وہ پھر بھی دروازہ بجانے سے باز نہیں آئی اور آخر کار عفاف میڈم اٹھ ہی گئی تھی اور دروازے کو کھول کر اس پر چڑھ دوڑی تھی۔
کیا مصیبت آ گئی ہے ادیرا کیوں دروازے کو پیٹ رہی ہو جب میں نے ایک دفعہ بولا ہے کہ میں اٹھ گئی ہوں تو کیوں میرے کمرے کے دروازے سے دشمنی نکال رہی ہو بچارے مانا کے وہ کچھ بول نہیں سکتے پر ان کو بھی تو درد ہوتا ہے ۔۔۔عفاف اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑاکا عورتوں کی طرح ادیرا کو گھور رہی تھی اور وہ بڑے آرام سے سینے پر دونوں بازؤں کو باندھ کر اس کی چک چک سن رہی تھی۔
“ہو گیا یا ابھی رہتا ہے ۔۔۔”ادیرا نے عفاف سے بولا اور کمرے کے اندر داخل ہوئی عفاف نہ سمجھی سے بولی “کیا ہو گیا”۔
“یہی تمہاری بکواس ہو گئی یا ابھی باقی ہے اگر باقی ہے بھی تو اس کو بعد میں کرنے کے لیے رکھ لو ابھی نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے “عفاف تو صدمے میں ہی چلی گئی کے وہ اس کی پیاری پیاری معصوم سی باتوں کو بکواس کہہ رہی ہے ہوش تو تب آئی جب وہ اس کو پیچھے سے دکھیلتے ہوئے واشروم کے دروازے تک چھوڑآئی تھی۔
” ادیرا تم بہت ہی ڈیش ہو بعد میں پوچھوں گی تم سے ابھی تو واقع ہی دیر ہو رہی ہے”۔
اف یہ لڑکی کبھی نہیں سدھر سکتی اب عفاف کے واشروم سے پانی کے گرنے کی آواز آ رہی تھی ادیرا نے وہی سے ہانک لگائی کہ نماز پڑھ کر سو مت جانا قرآن پاک کی تلاوت کر کے باہر لان میں آ جانا۔
ادیرا کا رخ اپنے کمرے کی طرف تھا اس کا ارادہ قرآن پاک کی تلاوت کا تھا وہ بیڈ پر بیٹھ کر قرآن پاک پڑھنے لگی تھی۔ آہستہ آہستہ اندھیرا چھٹنے لگا تھا دن کا اجالا ہونے لگا تھا سورج کی روشنی نمودار ہو رہی تھی۔ ادیرا قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے بعد لان میں آ گئی تھی اور اپنے سلیيپرز ایک سائیڈ پر اتار کر نرم نرم گھاس پر ننگے پاؤں چل رہی تھی اور صبح کی تازگی کو اپنی سانسوں کے ذریعے اندر اتار رہی تھی آدھے گھنٹے تک لان میں واک کرنے کے بعد اس نے رخ اندر کی جانب کیا تھا۔
اندر آ کر اس کا رخ دادا ابو جی کے کمرے کی طرف تھا ان کے کمرے میں جانے سے پہلے وہ عفاف کے کمرے میں جھانکنا نہیں بھولی تھی اور عفاف میڈم بالکل اس کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے سوئی ہوئی ہی ملی تھی۔
وہ سر جھٹک کر دروازہ بند کرتے ہوئے دادا ابو جی کے کمرے میں چلی گئی۔
دروازے پر دستک دیتے ہوئے وہ کمرے میں آئی اور دونوں کو مشترکہ سلام کیا۔
السلام علیکم !! صبح بخیر !! صبح کا سلام میرے پیارے دادا ابو جی اور دادی امی جی کے نام بھر پور خوش مزاج اور بھر پور جوش سے وہ سلام کرتی ہوئی ان کے پاس آئی ان دونوں نے بھی اپنی پوتی کے سلام کا جواب دیا دادی قرآن پاک پڑھ کر اب اس کو چوم کر غلاف چڑھا رہی تھی اور دادا جی بیڈ پر بیٹھے ہوئے تھے ادیرا نے دادا جی کو مخاطب کیا “تو پھر چلیں دادا ابو جی”
دادا جی مصنوئی حیرت چہرے پر سجاۓ پوچھ بیٹھے کہ کہا چلیں جبکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کے کہا جانے کا کہا جا رہا ہے۔
“دادا ابو جی لگتا ہے آپ کی یاداشت بھی کمزور ہوتی جا رہی ہے خیر کوئی بات نہیں آپ کی اطلاع کے لیے ادیرا عرض کرتی ہے کہ ہمیں ابھی اور اسی وقت واک کے لیے قریبی پارک میں جانا ہے۔ کچھ یاد آیا میرے پیارے دادا ابو جی اب وہ ان کے قریب جا کر ان کے سرہانے کھڑی کمر پر ہاتھ جماۓ ان کو یاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی یہ بات سنتے ہی دادا جی کے منہ کے زاویے بگڑے تھے۔
کیا بیٹا جی کبھی تو بھول جایا کرو آج اتوار کا دن ہے سب چھٹی کا مزہ لے رہے ہیں اور آپ اپنے دادا ابو جی سے پارک کی دوڑ لگواؤ گی ذرا شرم نہیں آۓ گی آپ کو ایسا کرتے ہوئے۔۔۔ دادا جی دنیا جہاں کی معصومیت لہجے میں سموۓ اپنی لاڈلی پوتی سے مخاطب تھے دادی امی جان بھی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاۓ ان دونوں کی گفتگو سن رہی تھی۔
بالکل بھی نہیں دادا ابو جی سب کو چھٹی ہو گی لیکن آپ کو بالکل بھی چھٹی نہیں مل سکتی ڈاکٹر نے سختی سے واک کرنے کا کہا ہے اور آپ کے معاملے میں لاپرواہی بالکل بھی نہیں چلے گی۔
“سہی تو کہہ رہی ہے بچی آپ کو بھی پتا ہے کہ آپ جتنی مرضی معصوم شکل بنا لیں لیکن پھر بھی آپ پر ترس نہیں کھایا جاۓ گا تو پھر کیوں فضول بحث میں پڑے ہوۓ ہیں چپ کر کے اٹھ کر چلے جائے کیوں کہ جانا تو آپ نے ہے ہی آپ کی اس پوتی سے تو بالکل بھی آپ کی جان کی خلاسی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی کروا سکتا ہے”۔۔۔ یہ کہہ کر دادی جان نے قدم باہر کی جانب بڑھا دیے تھے اور پیچھے سےادیرا کی آواز ان کے کانوں میں پڑی تھی جو کہہ رہی تھی۔
“دیکھا دادا ابو جی میری دادی امی جی کتنی سمجھدار ہے کتنی جلدی بات کو سمجھ جاتی ہے اب آپ بھی اٹھیں شاباش “۔۔۔دادی جان سر جھٹک کر اور مسکراتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
“ہاں اب تو اٹھنا ہی پڑنا ہے” وہ بیڈ سے اٹھے تھے اور اِدھر ادھر نظریں گھوما رہے تهے شاید کچھ ڈھونڈ رہے تھے ۔
“دادا ابو جی کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟”
بیٹا اپنی چَھڑی ڈھونڈ رہا ہوں پتہ نہیں کہا رکھ دی ہے تمہاری دادی نے ۔۔۔”میں دیکھتی ہوں اِدھر ہی ہونی ہے۔۔۔ ویسے دادا ابو جی جب میں ہوں تو پھر آپ کو ان کھوکھلے سہاروں کی کیا ضرورت ہے” دادا ابو جی اس کی بات سن کر مسکراۓ تھے تب ہی ادیرا کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔
“یہ لیجیے دادا ابو جی آپ کی سٹک مل گئی ادیرا نے چَھڑی دادا جان کی طرف بڑھائی اور پھر وہ دادا جی کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی جانب قدم بڑھ گئی۔”
پارک گھر کے بالکل نزدیک تھا پانچ منٹ پیدل چل کر وہ لوگ پارک پہنچ گئے تھے آج اتوار تھا تو پارک میں بھی خوب رونق لگی ہوئی تھی بچے جوان بوڑھے سب پارک میں نظر آ رہے تهے۔ پارک میں آج باقی دنوں کی نسبت کافی رونق لگی ہوئی تھی۔
ادیرا دادا ابو جی کا ہاتھ پکڑ کر واک کروا رہی تھی وہ بھی دادا جان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہی تھی ہر دس منٹ واک کرنے کے بعد وہ دادا جان کو ایک بینچ پر بیٹھا دیتی اور دو منٹ آرام کرنے کے بعد پھر سے واک کرواتی اور یہ پراسیس پورے آدھے گھنٹے تک جاری رہنا تھا
واک کرنے کے بعد اب وہ دونوں پارک کے بینچ پر بیٹھے پارک میں لگی رونق کو دیکھ رہے تھے۔
“بیٹا جی پانی تو پلاؤ ذرا ” لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے انہوں نے ادیرا سے کہا۔ادیرا نے بوتل دادا ابو جی کو دی جس میں سے انہوں نے پانی پیا۔
“اب گھر چلیں بیٹا جی “۔۔۔”جی بالکل چلیں” دادا جان کے کہنے پر ادیرا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
اب وہ دونوں گھر کے راستے پر گامزن تھے۔
“بیٹا جی یہ جو انسان ہوتے ہیں نا ان سے بڑا مصنوعی اور عارضی سہارا اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہوتا ۔دنیا میں صرف اللہ تعالی کا سہارا مستقل ہوتا ہے ۔ انسان صرف چند سانسوں کا محتاج ہوتا ہے اور وہ سانسیں کب اور کہا ں ختم ہو جاۓ کوئی نہیں جانتا سواۓ اللّه کے جب بھی مصیبت میں پھنس جاؤ تو صرف اللّه کے مستقل سہارے کی طلب کرنا اور وہی مستقل اور مضبوط سہارا ہی تمہیں تھام لے گا اور یہ جو چیزیں ہوتی ہے نا بعض وقت انسانوں سے زیادہ ساتھ دے جاتی ہیں ان چیزوں کی گرانٹی دی جاتی ہے کہ یہ چیزیں کب تک آپ کے کام آ سکتی ہیں اور کب یہ ناکارہ ہو جایں گی اور جب وہ ناکارہ ہو جاتی ہیں تب ہم انھیں پھینک دیتے ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہوتے ہیں کے اب یہ ہمارے کسی کام کی نہیں اور یہ جو انسان ہوتا ہے نہ اس کی کوئی گرانٹی نہیں دیتا سواۓ اللّه کے وہ خود سانسوں کا محتاج ہوتا ہے وہ کیا کسی کو سہارا دے سکتا ہے کیا پتا ہم اگلا قدم اٹھاۓ اور ہمیں سانس ہی نہ آئے زندگی وہی پر خاک ہو جاتی ہے وہ سہارا تو ختم ہو گیا نا زندگی میں کبھی بھی ان مصنوعی سہاروں کے پیچھے نہ خود بھاگنا اور نہ ہی کسی دوسرے کو بھگانا۔”
باتیں کرتے ہوئے گھر بھی آ گیا تھا ادیرا ان کی بات بہت غور سے سن رہی تھی بات کے آخر میں وہ ہلکا سا مسکراۓ تھے وہ بھی دادا جان کو دیکھ کر مسکرائی تھی اسے اپنی کھوکھلے سہارے والی بات یاد آئی تھی اور پھر وہ دونوں گھر کی دہلیز عبور کر گئےتھے۔
٭٭٭٭٭
کچن میں ناشتے کی تیاری کی جا رہی تھی عائشہ بی بی (دادی جان ) کی دونوں بہویں ملازمہ کے ساتھ مل کر ناشتہ بنوا رہی تھی آج سب کی پسند کا ناشتہ بننا تھا آٹھ بج چکے تھے سب ڈاینینگ ہال میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔
عدیل صاحب اور احمد صاحب بھی اپنی اپنی کرسیوں پر براجمان ہو چکے تھے ادیرا بھی اِبراھیم صاحب (دادا جان ) کو لے کر آ گئی تھی ہیڈ کرسی پر دادا ابو جی کو بیٹھا کر اب وہ دادا جی کے بالکل ساتھ والی چیئر سمبھال کر بیٹھ چکی تھی جبکہ دادی ادیرا کے بالکل ساتھ والی چیئر پر بیٹھی تھی ادیرا کی جان اپنے دادا جی میں بستی ہے تو بس پھر دادا جی کے ساتھ ساتھ ہی پائی جاتی تھی یہاں تک کہ وہ اپنی دادی جان کو بھی نہیں بخشتی تھی دادا جی کے معاملے میں لاپرواہی وہ کبھی نہیں برتتی تھی۔
السلام علیکم ! سب بمعہ اہل و عیال کو!!! وہاں پر موجود سب لوگ اس کے سلام کرنے کے انداز سے مسکرائے تھے۔
“زوریز بیٹا کل آپ گھر لیٹ کیوں آۓ تھے” احمد صاحب نے استفسار کیا۔
“جی بابا بس آفس سے نکلتے ہوئے دیر ہو گئی اور پھر رستے میں ٹریفک بہت زیادہ تھا” زوریز نے وضاحت دیتے ہوئے جواب دیا۔
“پکا یہی بات ہے نہ بھائی یا پھر بات کچھ اور ہے ادیرا اب آنکھیں مٹکاتے ہوئے اپنے بھائی کی ٹانگ کھینچ رہی تھی “جس پر زوریز نے اس کو گھورا تھا۔
“بابا بھائی پر نظر رکھا کریں کہی بھابھی لانے کے چکروں میں تو نہیں ہیں۔”
“زیادہ بک بک نہ کرو بابا آپ اس کی باتوں پر نا جایں فضول بکواس کر رہی ہے “زوریز نے اپنی طرف سے بات کلئیر کرتے ہوئے احمد صاحب سے بولا۔
بانو جاؤ ذرا عفاف کو بھی اٹھا کر لاؤ اس کو بولو ناشتہ تیار ہے جلدی سے آ جاۓ دادی جان نے وہی سے ہانک لگائی تھی بانو (ملازمہ)کو جو کچن میں کام کر رہی تھی۔
“جی ابھی بلا کر لاتی ہوں “وہ کہتی ہوئی چلی گئی ۔
“ہیلو ایوری ون ! “آیت سب کو اپنے انداز میں سلام کر کے چیر گھسیٹ کر بیٹھی تھی سب کی نظریں اسی کی طرف تھی۔
“ہاے اللّه آپ سب لوگ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو ۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ میں بہت خوبصورت لگ رہی ہوں ۔۔۔اب کیا نظر لگاؤ گے ہٹاؤ بھی سب مجھ پر سے نظریں آپ سب جانتے تو ہو کہ مجھے کتنی جلدی نظر لگ جاتی ہے ۔۔۔”آیت نے ٹھہر ٹھہر کر اک ادا سے کہا تھا وہ جب سے آ کر بیٹھی تھی نون اسٹاپ بس بولی جا رہی تھی اس کی باتوں کو بریک اپنے تایا جان کے پکارنے پر لگا تھا۔
“بیٹا جی آپ سے کتنی بار کہا ہے کہ سلام کیا کرو اور آپ ہر بار یہ بات بھول جاتی ہو۔ “
“او سوری تایا جان مجھے بے دیہانی میں پتا ہی نہیں چلا آیت منمنائی۔”
” کوئی بات نہیں بیٹا جانی اگلی بار دیہان رکھنا اس بات کا۔”
“جی اچھا “وہ سر ہلا گئی۔ وہ کرسی سے کھڑی ہوئی تھی اور پھر سب کو سلام کیا تھا اور سب نے سلام کا جواب دیا تھا۔
“اب سب کے چہروں پر دبی دبی سی ہنسی تھی تقریباً گھر کے سارے افراد ہال میں پہنچ چکے تھے سواۓ عفاف کے۔”
سب لوگ ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے کے زوریز کی نظر سیڑھیوں سے اترتی عفاف پر پڑی اس نے آنکھ کے اشارے سے ادیرا اور آیت کو عفاف کی جانب متوجہ کیا۔ تینوں نے ایک ساتھ سر ہلایا اور اپنی کرسی دکھیلتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوۓ۔
تینوں ایک ساتھ ایک ہاتھ آگے کو باندھ کر آگے کو جھکے تھے اور نہایت ہی ادب سے عفاف عدیل سے مخاطب ہوئے تھے۔۔۔” مہارانی عرف نیندوں کی ملکہ عرف نیند کی دیوانی شہزادی صاحبہ آپ کے غلام یہ جاننا چاہتے ہیں کیا آپ کی نیند پوری ہو گئی یا ابھی بھی رہتی ہے اگر نہیں ہوئی تو کیا ہم آپ کی اجازت سے ڈائننگ ٹیبل پر آپ کا بسترہ لگا دیں۔”
عفاف میڈم منہ کھولے ان کی نوٹنکی دیکھ رہی تھی ۔۔”شہزادی صاحبہ منہ بند کر لیجیے ورنہ مکھی آپ کے منہ کے اندر براجمان ہو جاۓ گی” غلام ادیرا کی طرف سے جملہ آیا تھا۔
“عفاف میڈم ہاتھ پیچھے کر کے دونوں ہاتھوں کو ملا کر گردن ذرا کھڑی کر کے اپنے غلاموں سے مخاطب ہوئی۔”
“اے غلاموں”۔۔۔” شہزادی صاحبہ یعنی کہ میں تم لوگوں کو حکم دیتی ہوں کہ ابھی تو فلحال میں ناشتہ کروں گی اور اس کے فورابعد مجھے میرا بسترہ تیار ملے اگر تو آپ نے میرے حکم کی تعمیل نہ کی تو آپ کی گردنیں میری تلوار کے نیچے ہو گی سمجھ گے نا چلو شاباش اب یہاں پر مجھے تم لوگوں کی منحوس شکلیں نہ دکھیں” یہ کہتے ہوۓ ہی اس نے دوڑ لگا دی تھی کیوں کے اب وہ اکیلی تھی اور وہ تین لوگ تھے مطلب اب ان کے ہاتھ بھی اگر گردن تک پہنچ گئے نا تو یہ تلوار سے زیادہ خطرناک ہو سکتا تھا۔عفاف آگے آگے تھی اور وہ تینوں پیچھے پیچھے تھے۔
“دیکھو یار بہت بھوک لگی ہے اس کا بدلہ پھر کبھی سہی عفاف منتی لہجے میں بولی تھی ۔”
“کیا کہہ رہی تھی تم منحوس شکلیں ۔۔۔”زوریز نے اس کی بات یاد کرواتے ہوئے اسے کہا ۔باتیں ان کی ابھی بھی جاری تھی اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے کیوں کے ابھی بھی عفاف ان کے ہاتھ نہیں لگی تھی۔ عفاف کو پکڑنے کی جدوجہد میں ابھی بھی وہ اس کے پیچھے ہی بھاگ رہے تھے۔
“روکو۔۔۔ “کمر پر ہاتھ رکھ کر اس نے سانس نارمل کرتے ہوۓ ان تینوں سے کہا وہ تینوں بھی رک گئے تھے۔
“آپس کی بات ہے ویسے میں نے کچھ غلط بھی تو نہیں کہا”۔۔۔ عفاف کا اتنا ہی کہنا تھا کے زوریز نے آنچی آواز میں کہا “حملہ۔۔۔۔”
تینوں نے لآنج میں پڑے سارے کشن اٹھا کر عفاف پر پھینکنا شروع کر دیے اور ساتھ ساتھ اسی کی کہی ہوئی باتیں بھی یاد دلا رہے تھے۔
“شہزادی صاحبہ”، “حکم “،”اے غلاموں “،” گردن “، “تلوار “
باتوں پر زور دیتے ہوئے وہ لوگ دوہرا رہے تھے اور جو جو چیز نظر آ رہی تھی وہی اس پر پھینکی جا رہے تھے۔ مگر ان چیزوں میں صرف وہی چیزیں شامل تھی جس سے چوٹ نہ لگے یہ سب ان کے روز کے ہی ڈرامے تھے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا ان سب کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
“بابا جانی بچالیں “عفاف نے اپنے بابا کو آواز دی۔۔۔ جو سامنے ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھے انہی کا ڈرامہ ملاحظہ فرما رہے تھے۔
تبھی کچن کے داروزے سے نازیہ بیگم نمودار ہوئی تھی اور لاؤنج کا حال دیکھ کر غش کھا گئی تھی۔
” یہ کیا حال کر دیا ہے لاؤنج کا اب بس کر دو اور آ کر ناشتہ کرو لگ گیا ہے ۔۔۔ اور ناشتے کےبعد تم لوگ ہی صاف کرو گے ۔۔۔ ادیرا اور زوریز مجھے آپ لوگوں سے یہ امید نہیں تھی انہوں نے ان کو غصّے سے کہا۔ دونوں شرمندگی سے سر جھکا گے تھے۔
“جی بس آ گئے “آیت کی طرف سے جواب آیا تھا ان چاروں کا ہی بھوک سے حال بے حال ہوا تھا سب ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گئے ساتھ ساتھ ان کی نوک جھوک بھی جاری و ساری تھی۔
عدیل بیٹا یہ غازیان کب آ رہا ہے ابراھیم صاحب نے اپنے بیٹے سے پوچھا۔
جی بابا میری بات ہوئی تھی اس سے کہہ تو رہا تھا کے دو یا تین دن تک آجائے گا۔
“یہ اس کا ٹرپ کچھ زیادہ ہی لمبا نہیں ہو گیا۔”
“جی بابا جان آپ صحیح کہہ رہے ہے عدیل صاحب نے ان کی بات کی تصدیق کی۔”
٭٭٭٭٭
ابراھیم صاحب اور ان کی زوجہ محترمہ کے تین بچے تھے ۔ عدیل ابراھیم ، فاطمہ ابراھیم ، احمد ابراھیم ۔ سب سے بڑے عدیل تھے جن کی زوجہ نازیہ بیگم تھیں اور ان کے چار بچے تھے ۔ صفا ، یشب ، عفاف اور غازیان ۔ پھر فاطمہ بیگم تھی ان کے شوہر حیات نہیں تھےان کے دو بیٹے ہی تھے عباد اور علی ۔ پھر آتے تھے سب سے چھوٹے احمد ابراھیم جن کی زوجہ ردا بیگم تھیں ان کے تین بچے تھے زوریز ، ادیرا اورآیت۔
سب بچوں کی پروش بہت اچھی کی گئی تھی ابراھیم صاحب نے اپنی اولاد کو بہت ہی مہذب طریقے سے پالا تھا اور آگے ان کے بچوں نے بھی اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی کمی نہیں رہنے دی تھی ۔
سب کی آپس میں بہت محبّت تھی صرف خود ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے تھے دوسرا کوئی کچھ کہہ تو دے کسی کو پھر سب ایک ٹیم میں ہو کر اس کو مزہ چکھاتے تھے ۔ ویسے تو كزنز تھے مگر دوست بن کر رہتے تھے ایک دوسرے کو ہی تنگ کرتے تھے ایک دوسرےمیں ہی ان کی جانیں بسی ہوئیں تھی۔ سب کی آپس میں محبت بے مثال تھی رشتوں کو جوڑنا اور رشتوں کو نبھانا انہیں خوب اچھی طرح آتا تھا۔
ادیرا سلجھی ہوئی پر کشش، پر اعتماد اور سمجھدار لڑکی تھی دھیمہ لہجہ جو اس نے اپنے دادا ابو جان سے چرایا تھا جو بھی اس سے ملے وہ دوبارہ ملنے کی خواہش ضرور کرتے تھے۔ عفاف، آیت اور غازیان اس گھر کے شرارتی بچے تھے تینوں ایک دوسرے کی بینڈ بجاتے تھے کبھی تینوں مل کر دوسروں کی بینڈ بجاتے تھے۔
1 Comment
Super 😊