ساریہ آفاق صاحب کے گھر سات ماہ پہلے بیاہ کر آئی تھی آفاق صاحب کے تین بچے تھے فراز ،غازه اور صبا آفاق صاحب نے دو شادیاں کی تھی آفاق صاحب کی پہلی شادی فارا بیگم سے ہوئی تھی انہی کے دو بچے تھے فراز اور غازه ۔۔۔ غازه کی پیدائش پر ہی فارا بیگم کا انتقال ہو گیا تھا۔ رشتے داروں کے دباؤں کی وجہ سے انہوں نے نائلہ بیگم سے دوسری شادی کر لی جو سرا سر رشتے داروں کی ہی پسند تھیں۔
فارا آفاق صاحب کی خالہ زاد تھی اور نائلہ پھوپھو زاد تھی آفاق فارا کو پسند کرتے تھے اور نائلہ آفاق کو پسند کرتی تھی جب آفاق کی شادی فارا سے ہوئی تب سے نائلہ نفرت کی آگ میں جلتی رہی تھی اور جب وہ مر گئی تو سب سے زیادہ خوشی اسے ہی ہوئی تھی۔ آفاق نے دوسری شادی اپنے بچوں کی خاطر ہی کی تھی اور وہی بچے آج تک ممتا سے محروم رہے تھے۔ نائلہ بیگم کی ایک بیٹی تھی صبا۔ نائلہ نے کبھی بھی ان بچوں کو اپنا نہیں سمجھا جو ہمارے معاشرے میں سگے اور سوتيلے کا فرق بنا ہوا ہے وہ اس پر پورا اترتی ہیں فراز کی تو چاپلوسی وہ شروع سے ہی کرتی آئی ہیں کہ آگے تو انہوں نے اس کے پاس اور ساتھ ہی رہنا ہے۔
آفاق صاحب کا اچھا بزنس تھا فراز بھی اپنے باپ کی مدد کرتا تھا اور دونوں گھر کے کاموں سے يكسر انجان تھے دونوں کو کچھ پتہ نہیں تھا گھر میں کیا ہو رہا ہے دونوں ہی اپنے گھر سے اور گھر والوں سے لاپروا تھے۔
پہلے گھر میں تین ملازم کام کرتے تھے لیکن جب سے ساریہ اس گھر میں بہو بن کر آئی تھی تب سے ہی سب کو چھٹی مل گئی تھی بقول ان کی ساس کے کہ ساریہ نے خود کہا ہے کہ وہ خود گھر کے سارے کام کرے گی اسے اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کا بڑا شوق ہے ۔
ساریہ کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھی یہ بات نہ جانے اس نے کس وقت کہی تھی۔
ولیمے سے دو دن بعد سے ہی اس کی ساس نے ہاتھ میں جھاڑو اور بیلنا پکڑا دیا تھا۔
نائلہ بیگم نے کبھی بھی اس سے میٹھے لہجے میں بات نہیں کی وہ اپنا سارا غصہ بھی ساریہ پر ہی نکالتی ساریہ تو ان کی بہو تھی خیر دوڑ کا رشتہ ہی بنتا تھا غازه تو ان کے اپنے شوہر کی بیٹی تھی اس نے کبھی اس کے ساتھ اپنا رویہ اچھا نہیں رکھا تھا ان کا میٹھا لہجہ صرف اپنی بیٹی صبا کے لیے ہی ہوتا تھا۔
“ساریہ بڑے لاڈوں سے پلی بچی تھی ہنستی مسکراتی اور ہمیشہ چہکتی ہوئی ہی پائی جاتی تھی اور اب وہ مسلسل کام کی وجہ سے مرجھاتی جا رہی تھی۔
اس کی ساس گھر والوں سے نہ ملنے جانے دیتی تھی اور نہ ہی فون پر زیادہ بات کرنے دیتی تھیں کوئی نہ کوئی کام بتا کر اس کو مصروف ہی رکھتی تھی۔
فراز کو بھی بہت کم اس کے پاس جانے دیتی تھی فراز کے کانوں میں وہ کچھ نہ کچھ بھرتی ہی رہتی تھی فراز ایک سمجھدار اور اچھا لڑکا تھا اپنی ماں کی عزت کرتا تھا اور ان کی ہر بات مانتا بھی تھا وہ اس کو کمرے میں تب بیھجتی جب تک وہ سو چکی ہوتی اور ساریہ بستر پر گرتے ہی سو جاتی اتنی تھکآوٹ کا ایک فائدہ تو تھا ہی نیند بڑی مزے کی آتی تھی۔
“زندگی نے نجانے کیا کیا اور رنگ دکھانے تھے۔”
٭٭٭٭٭
غازہ میری جان اٹھ جاؤ کچھ کھا لو کیا حالت بنا لی ہے اگر کھانا اور میڈیسن نہیں کھاؤ گی تو جلدی ٹھیک کیسے ہو گی۔
“کیا فرق پڑتا ہے بھابھی حالت تو ویسی ہی ہے فرق صرف اتنا آیا ہے کہ اب میں بستر پر ہوں کام کرنے کی سکت نہیں ہے حالت تو وہی ہے جو آنٹی نے بنا رکھی ہے اس کے لہجے میں اداسی تھی۔”
“آنٹی کے لیے نہیں میرے لیے ٹھیک ہو جاؤ” ساریہ نے پیار سے کہا۔
“بس یہ سمجھ لی جیے بھابھی کے غازہ کو اگر جینے کی خواہش ہے نا تو اس کے پیچھے وجہ اس کی بھابھی ہے جو اس کو مرنے نہیں دیتی “۔۔۔اس نے جذب سے کہا۔
ساریہ نے ناشتہ ٹیبل پر رکھا تھا اور غازہ کو اٹھا کر واشروم بھیجا۔
“یا اللّه اس معصوم کے نصیب اچھے کرنا آمین اس نے دل سے دعا دی۔”
واشروم سے آ کر وہ صوفے پر بیٹھی تھی۔ بھابھی آپ نے کر لیا ناشتہ غازہ نے پوچھا۔
نہیں میں بھی کر لوں گی تم تو کرو پہلے۔۔۔ بھابھی پہلے ناشتہ کر لے پھر بعد میں یہ سب کر لیں گے غازہ نے ساریہ سے کہا جو اس کا بستر سمیٹ رہی تھی۔
جب تک آپ نہیں آئیں گی میں بھی نہیں کروں گی۔۔۔ اس نے دو ٹوک کہا۔
اچھا آتی ہوں وہ بیڈ شیٹ درست کرتی ہوئی اس کے پاس آئی۔۔۔ دونوں ناشتہ کر رہی تھیں اور باتوں میں بھی مصروف تھی۔
بھابھی آپ کی فیملی کتنی چِل ٹائپ کی ہے نا بہت مزے کی فیملی ہے آپ کی ماشااللّه اللّه
آپ کی فیملی کو کسی کی نظر نہ لگے۔
“تم ان سے ابھی اچھے سے ملی نہیں ہو جب ملو گی تب دیکھنا ان کے دل بھی بہت خوبصورت ہے کسی دن چلے گئے ان سے ملنے تم بھی چلنا میرے ساتھ ساریہ نے اسے آفر کی۔”
“پھر تو اسے ایک سہانا خواب سمجھ کر بھول جاتے ہیں بھابھی کیوں کہ آنٹی کے ہوتے ہوئے تو یہ ممکن نہیں ہے”۔
“آئے گا یہ دن بھی پیاری غازہ آئے گا ساریہ کے لہجے میں امید تھی۔”
“بھابھی آپ اتنی پازیٹو کیسے رہ لیتی ہیں”۔
کیا آپ کا شکوہ کرنے کو دل نہیں کرتا کہ آپ ہستے بستے خوش حال ماحول کو چھوڑ کر اس ویرانے میں پھنس گئی ہیں؟” غازہ کو ہمیشہ وہ حیران کرتی تھی۔
“غازہ ہمارا بچپن بہت خوشحال کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت میں بھی گزرا ہے۔ ہماری ہر جمعہ کے دن ایک چھوٹی سی کلاس ہوا کرتی تھی اور وہ کلاس دادا جی لیا کرتے تھے اور ان کی باتوں میں اتنی تاثیر ہوتی تھی کے باتیں ہمارے دماغ میں ایسے بیٹھتی تھی کے جیسے کسی نے گھول کر پلائی ہو اور ان کی باتوں میں اتنی تاثیر ہوتی تھی کہ وہ سیدھا دل میں اتر جاتی تھیں اور بالکل وہی تاثیر ادیرا نے بھی وراثت میں پائی ہے۔”
“اور وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے بیٹا جب ان چیزوں پر شکوہ کرنے کو دل کرے جو آپ کو نہیں مل سکی تب ایک دفعہ ان چیزوں کے بارے میں ضرور سوچنا جو تمھارے پاس شکر ادا کرنے کے لیے موجود ہیں۔”
“تم ہی بتاؤ میں کس بات پر شکوہ کروں مجھے اچھا گھر ملا ہے اچھا شوہر ہے انکل بھی اچھے ہیں اور سب سے بھر کر تمہارا ساتھ ملا ہے جو بہنوں جیسا ہے آنٹی اور صبا کا کیا ہے وہ بھی ایک دن ٹھیک ہو جائيں گی۔۔۔ ایک شکوے کو میں ان سب شکر ادا کرنے والی چیزوں پر بھاری کر لوں کیا ؟اس نے الٹا اس سے سوال پوچھ ڈالا۔”
” you are unbelievable”
بھابھی مجھے بھی دادا جی سے ملنا ہے۔۔۔۔ ہاں ضرور ملیں گے اس کی خواہش پر اس نے دوبدو حامی بھر لی۔
اب تم ذرا کھلی ہوا میں نکلو اور خود کو فریش کرو میں جاتی ہوں بہت سے کام پڑے ہیں وہ برتن اٹھائے چلی گئی۔
“بھابھی تو چلی گئی تھی اور غازہ سوچوں میں الجھ گئی تھی بھابی آپ ان چیزوں پر شکر ادا کر رہی ہے جو آپ کو نوازی گئی ہے مگر آپ کی ہوئی نہیں ہے اور میرے پاس شکر ادا کرنے کے لیے ہے ہی کیا میرا تو شکووں کا پلڑا ہی بھاری رہتا ہے بہت دفعہ سوچا ہے کے ایسی کونسی چیزيں میرے پاس ہیں جن پر شکر ادا کیا جائیں پہلے تو شکر ادا کرنے کے لیے میرے پاس کوئی وجہ نہیں تھی میں نے اپنا بچپن ویرانیوں اور اداسیوں میں گزارا ہے باپ اور بھائی نے بھی کبھی نہیں پوچھا کے مجھے کیا چاہیے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے میرا بچپن ممتا کے آنچل سے محروم رہ کر گزرا ہے کیا ان باتوں پر شکر ادا کرتی اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو اس کے درد کی انتہا کو بیان کر رہے تھے
اس نے اپنے آنسو صاف کیے تھے اور مسکرائی لیکن اب ہے بھابھی اور وہ وجہ یہی ہمارا یہ رشتہ ہے جو اللّه نے شکر ادا کرنے کے لیے میری جھولی میں ڈالا ہے۔”
٭٭٭٭٭
کار پورچ میں آ کر رکی تھی کار لاک کر کے وہ سیدھا چلتا ہوا لاؤنج میں آیا تھا گھر کی ساری لائٹس آف تھی اس کا رخ اپنی ماما کے کمرے کی طرف تھا ابھی اس نے کمرے کا دروازہ کھولا ہی تھا کے گھر کی ساری لائٹس جل گئی۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کو اپنی ماما کا چہرہ نظر آیا وہ واپس پلٹا اور اس نے اپنی ماما کو سلام کیا۔
ماما آپ کیوں جاگ رہی ہیں میں نے آپ سے کہا بھی تھا کہ آپ میرا انتظار مت کیا کریں مجھے آنے میں دیر ہو جاتی ہے۔
فاطمہ بیگم نے سلام کا جواب دیا تھا اور اور کچن میں چلی گئی باقی باتوں کا جواب دینا انہوں نے ضروری نہیں سمجھا۔
فاطمہ بیگم نے کھانا ٹیبل پر لگا دیا تھا عباد بھی فریش ہو کر آ گیا تھا ۔
“ماما آپ انتظار مت کیا کریں ٹائم پر سو جایا کریں خود کو مت تهكايا کریں پلیز اس نے منت کی “۔
“جن ماؤں کے جوان بچے آدھی رات تک گھروں سے باہر رہا کرتے ہیں ان کی آنکھوں میں نیند تو نہیں ہوتی ہاں دل میں وہم ضررور ہوتے ہیں۔۔۔” فاطمہ بیگم کے لہجے میں نرمی بالکل نہیں تھی۔
“میں جانتی ہوں تمہاری جاب ہی ایسی ہے مگر اس جاب کے چکر میں تم سب کچھ فراموش کرتے جا رہے ہو میں بس اتنا جانتی ہوں کے اب اگر کچھ ہوا تو میں برداشت نہیں کر پاؤں گی ہر پل مجھے یہی کھٹکا لگا رہتا ہے کے میرا بچہ کہاں ہے کس حال میں ہو گا جب تمہیں گھر میں اپنے سامنے دیکھتی ہوں تو میری جان میں جان آتی ہے۔۔۔” فاطمہ بیگم کے آنسو بھی جاری تھے جن میں اپنے بیٹے کو کھو دینے کا ڈر چیخ چیخ کر بول رہا تھا۔
عباد اپنی چیئر سے اٹھا تھا اور اپنی ماما کی طرف بڑھا تھا جو ڈائننگ ٹیبل کی دوسری طرف بیٹھی تھیں
“ماما کچھ نہیں ہو گا آپ اللّه پر بھروسہ رکھیں اپنی ماما کو تسلی دیتے ہوئے اس نے انہیں اپنے سینے سے لگایا ۔۔۔”چلیں اب اٹھے اور سونے کی تیاری کریں۔
عباد بھی کھانا کھا چکا تھا ابھی وہ پلٹا ہی تھا کہ فاطمہ بیگم کی آواز اسے سنائی دی۔
“بیٹا جی بعض اوقات ہم ان چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جن کا وجود سرِے سے ہوتا ہی نہیں ہے یا جن کا وجود ہی ختم ہو چکا ہوتا ہے اور ایسی چیزوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہم ان چیزوں کی قدر کھو دیتے ہیں جو ہمارے پاس ہوتی ہیں اتنا مت بھاگو ان چیزوں کے پیچھے کے پھر بعد میں ان چیزوں کے پیچھے بھی بھاگنا پڑے جو تمھارے پاس تھیں لیکن تم نے انہیں اپنی ناقدری کی وجہ سے کھو دیا گھڑے مردے مت اکھاڑو بیٹا ۔۔۔”ان کا لہجہ ہارا ہوا تھا۔
یہ بات مت بھولنا کے تمہاری ماں تمھارے انتظار میں بیٹھی رہتی ہے ایک اور غم کی مہر میرے سینے پر مت لگانا ان کی بات پر عباد سر ہلا کر اپنے کمرے میں آگیا۔
“گھڑے مردے تو اکھڑیں گے ماما اور ایسے اکھاڑوں گا کے جس نے ان مردوں کو دفنایا تھا انہی لوگوں کی قبر بنا کر ان پر مٹی میں خود اپنے ہاتھوں سے ڈالو گا بیڈ سے ٹانگے لٹکائے وہ بیڈ پر لیٹا تھا اور خود سے ہی محوِ گفتگو تھا۔”
٭٭٭٭٭
دادا ابو جی آپ یہاں بیٹھے میں یونیورسٹی کے لیے تیار ہو کر آتی ہوں تب تک ناشتہ بھی آ جاتا ہے۔۔۔ ٹھیک ہے میرا بچہ جاؤ ۔۔۔ادیرا دادا جان کو واک کروانے کے لیے پارک لے کر گئی تھی اور اب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا کر خود تیار ہونے گئی تھی۔
عفاف اٹھ جاؤ یونیورسٹی کے لیے لیٹ ہو جائیں گے۔۔۔ ادیرا سیدھا عفاف کے کمرے میں آئی تھی۔
پانچ منٹ سونے دو پھر پکا اٹھ جاؤں گی۔۔۔ عفاف نیند میں ہی بڑبڑا رہی تھی۔
“جو نیند پوری رات میں پوری نہیں ہوئی وہ پانچ منٹ میں کیسے ہو جائے گی یہ کہتے ہی اس نے كمبل کھینچا تھا۔”
پورے گھر میں صرف تم میری نیند کی دشمن ہو ادیرا ۔۔۔عفاف بہت ہی غصّے میں اٹھی تھی اس کو وہ شخص سخت زہر لگتا تھا جو اس کی نیند میں رکآوٹ بنتا تھا۔
بعد میں یہ کوسنے دے دینا ابھی تیار ہو کر نیچے آ جاؤ ۔۔۔ کہتے ہی ادیرا اپنے کمرے کی جانب چل دی تھی اور عفاف منہ کے برے برے سٹائل بناتی ہوئی واشروم میں گھس گئی۔
“ادیرا محبتوں سے گوندھی ہوئی لڑکی تھی رشتوں کو جوڑنے والی ایک حساس لڑکی تھی سب کو ساتھ لے کر چلنے والی لڑکی تھی گندمی مگر صاف رنگت کی وہ ایک پرکشش لڑکی تھی۔”
بلیک کرتا اور بلیک کیپری پہنے سر پر بلیک كلر کی حجاب کیپ پہنے اوپر آف وائٹ كلر کا حجاب پہنے دائیں بازوں پر دوپٹہ پھیلائے وہ سیڑھیوں سے اتر رہی تھی۔
السلام علیکم ! سب لوگ ناشتے کی ٹیبل پر جمع ہو چکے تھے سب نے مشترکہ اس کے سلام کا جواب دیا۔
وہ دادا ابو جی کے ساتھ والی کرسی سمبھال کر بیٹھ گئی تھی سب نے ناشتہ شروع کر دیا تھا۔
عفاف بھی آ گئی تھی اور ابھی بھی اس کا نیند سے برا حال تھا۔
دادی جان کو کھانسی لگی تو زوریز جو دادی جان کے ساتھ بیٹھا تھا اس نے دادی کو گلاس میں پانی ڈال کر پکڑایا ۔۔۔دادو یہ لے پانی پی لیں۔
بانو باجی جوس کا ایک گلاس لا دیں ادیرا نے وہی پر بیٹھے کچن میں کام کرتی بانو کو آواز دی۔
ارے نہیں بیٹا مجھے اس کی ضررورت نہیں ہے میں ٹھیک ہوں دادی نے پانی پیتے ہوئے کہا۔
“ارے میری پیاری بھولی بھالی دادی امی اس نے جوس آپ کے لیے منگوايا بھی نہیں ہے اس نے دادا ابو کے لیے منگوايا ہے ۔۔۔”عفاف نے اپنی نیند کو بھگاتے ہوۓ جواب دیا۔
عفاف کی بات پر ادیرا نے نظریں اٹھا کر دیکھا کہ ہوا کیا ہے ادیرا اپنے ہی دیہان میں بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی پھر جب سمجھ آیا تو وہ دادو کی جانب متوجہ ہوئی۔
وہ سوری دادو مجھے دیہان ہی نہیں رہا میں آپ کے لیے جوس لے کر آتی ہوں۔۔۔ وہ فورا اٹھی تھی۔
ارے نہیں بیٹا کوئی ضرورت نہیں ہے تم اپنا ناشتہ کرو لیٹ ہو جاؤ گی دادی نے اس کو بازو سے پکڑ کر بٹھایا جو کچن کی طرف جانے لگی تھی۔ ادیرا اپنی جگہ شرمندہ ہو گئی تھی اور باقی سب کے چہروں پر دبی دبی سی ہنسی تھی دادا جی بھی مسکرا رہے تھے۔
عفاف اور ادیرا یونیورسٹی کے لیے نکل رہی تھیں۔۔۔ آیت تم چل رہی ہو ہمارے ساتھ راستے میں ڈراپ کر دیں گے ابھی آیت جواب دینے ہی والی تھی کے پیچھے سے آواز آئی۔
“اب اس کی ضرورت نہیں ہے ہم اسے ڈراپ کردیا کریں گے ۔”
سب کی نظریں دروازے کے پار کھڑے غازیان کی طرف مڑی جو چہرے پر شرارتی مسکان لیے سب کو اپنی طرف متوجہ ہوئے دیکھ رہا تھا۔
عفاف بھاگ کر گئی تھی اور اپنے بھائی کے گلے لگی تھی ۔۔۔شکر ہے غازی میرے بھائی تم آ گئے میں نے تمہیں اتنا مس کیا کتنے دن ہو گئے ہیں تم تو گھر کو شاید بھول ہی گئے تھے مزا ہی نہیں آ رہا تھا۔ عفاف غازی کے ساتھ لگی اپنے بور گزرے ہوۓ دنوں کی روداد سنا رہی تھی۔
“بس کر دے پگلی بہنا اب کیا بھائی کو رولاۓ گی”۔۔غازی نے اپنے نہ آنے والے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا۔جس پر عفاف نے اس کے کندھے پر تھپڑ رسید کیا سب لوگ دروازے پر ہی جمع ہو گئے تھے سواۓ آیت کے اور دادا جان کے۔۔۔غازی سب سے باری باری مل رہا تھا گھر پھر سے چہکتا ہوا نظر آ رہا تھا ۔
“کیسا ہے بڈی تو ۔۔۔”زوریز نے غازیان کے گلے لگتے ہوے پوچھا۔
” فٹ ہوں یارا” غازی نے چہکتے ہوئے کہا۔
“ویسے تو تم دو دن بعد آنے والے تھے ۔۔۔”زوریز نے استفسار کیا۔
ہاں یار تم سہی کہہ رہے ہو ۔۔ایک کام کرتا ہوں میں واپس چلا جاتا ہوں دو دن بعد آؤں گا اوکے تو پھر ملتے ہیں دو دنوں بعد ۔۔اللّه حافظ۔۔۔بیگ اٹھائے غازیان ابھی واپس پلٹا ہی تھا کے زوریز نے پیچھے سے اس کہ ایک بازو پر تھپڑ رسید کیا ۔
آیت بھی دروازے تک گئی تھی۔۔۔ اب قدم اندر پھوٹ بھی لو یا پھر تیل لے کر آئیں نئی نویلی دلہن کی طرح تمہارا استقبال کریں آیت نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
“کیسے اندر آ جاؤں مجھے تو گھر سے کسی کے جلنے کی بوُ آ رہی ہے چچی جان کہی آپ نے چولہے پر کچھ رکھا تو نہیں تھا جس کے نیچے سے آپ آنچ بند کرنا بھول گئیں ہو۔۔۔”غازیان نے چچی کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے رازدرانہ انداز میں پوچھا۔
“ارے۔۔۔نہیں بیٹا جی میں نے کچھ نہیں رکھا”۔۔۔ چچی نے مسکراتے ہوئے نہ میں سر ہلایا ۔
” چچی جان اپنے ذہن پر زور دے کر سوچيں کہی آپ اپنی بیٹی کا دل چولہے پر رکھ کر بھول تو نہیں گئیں اُسی سے جلنے کی بوُ آ رہی ہے اور اس سے اٹھنے والا دهواں اتنا خطرناک ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہی میری آكسيجن ہی ختم نہ کر ڈالے۔۔۔ “اس نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
“چچی جان کا ہاتھ سیدھا اپنے دل پر گیا تھا ۔۔۔ “غازیان نے کیا خوفناک منظر کھینچا تھا ۔ جب بات چچی جان کی سمجھ میں آئی تب چچی نے رکھ کے ایک تھپڑ غازیان کی کمر پر رسید کیا۔
“اوئی ماں چچی جان نے میری کمر ہلا دی اپنی کمر کو سہلاتے ہوئے غازیان نے کہا۔”
“مجھے لگا میری فیملی میرے بغیر اتنی اداس بیٹھی ہوگی کہ میری یاد میں پھولوں کے ہار لے کر دروازے پر ڈیرا جما کر بیٹھی ہوگی کہ کب ہمارا سپوت آئے گا کب ہمارے جگر کے ٹکڑے کا دیدار نصیب ہو گا اور یہاں الٹا دریا ہی بہا دیا ظالم لوگوں نے ہر ایک سے میں نے تھپڑ کھا لیا آتے ہی غازیان کے ڈرامے شروع ہو چکے تھے۔”
“تم سیر سپاٹے کر کے وآپس آ رہے ہو جنگ لڑ کر یا حج کر کے واپس نہیں لوٹ رہے جو تمہیں پھولوں کے ہار پہناۓ جاتے” آیت نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
“ہنہ جل ککڑی۔۔۔ “آیت کو ایک نئے لقب سے نواز کر اسے پیچھے ہٹاتے ہوئے غازیان اندر کی جانب بڑھ گیا۔آیت بھی پیر پٹختی ہوئی لاؤنج کی جانب بڑھ گئی تھی اسے تو اس بات کا ہی غصّہ ختم نہیں ہو رہا تھا کے غازی اور علی اسے اپنے ساتھ کیوں نہیں لے کر گئے۔
“السلام علیکم دادا ابو ! کیسے ہیں آپ” ان کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے ان کا حال دریافت کر رہا تھا۔
“وعلیکم اسلام! میں بالکل ٹھیک ہوں۔”
“ہاں جی ٹھیک تو ہو گئے ہی ادیرا کی نگرانی میں جو چھوڑ کر گیا تھا اگر دادی جان کی نگرانی میں چھوڑ کر جاتا تو پتا نہیں میرے دادا جان کا کیا بنتا”۔۔۔مسکراہٹ دباتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے کہا۔
ادیرا میں تمھارے کام سے بہت خوش ہوا ہوں اسی بات پر میں تمہیں کچھ دینا چاہتا ہوں۔
“کیا دینا چاہتے ہو آپ کنجوس غازیان سر” ادیرا نے بھی اس کے ڈرامے میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے غلاموں کی طرح گردن جھکا کر کہا۔
“ویسے تو تم نے میری بے عزتی کی ہے لیکن خیر ہے کوئی بات نہیں “
“یوں کہو خیر ہے کونسا نئی بات ہے “آیت نے بھی اپنی ٹانگ اڑانا ضروری سمجھا تھا۔ غازيان نے اس کی بات کو اگنور کیا تھا اور پھر سے ادیرا سے محوِ گفتگو ہوا۔
پھر بھی میں تمہیں ایک تهپكی دینا چاہتا ہوں غازیان نے ادیرا کی پیٹھ پر دو تهپكیاں دی تھی اور تهپكیاں ایسی تھی کہ ادیرا دو قدم آگے کو گئی تھی۔
دادی کے ہاتھ میں غازیان کا کان تھا۔۔۔
“بد تمیز انسان اپنی دادی کا مذاق اڑا رہا ہے۔ ۔۔” ارے نہیں دادی جان میں اڑا نہیں رہا میں اڑا چکا ہوں ۔۔۔کان ابھی بھی دادی کے ہاتھ میں ہی تھے لیکن پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا تھا دادی جان نے اب کی بار زور سے کان دبايا تھا۔
“آئی۔۔۔” دادی جان کیوں ظلم کر رہی ہے مجھ معصوم پر چھوڑ دیں۔
“میرا کان اتارنے کا ارادہ ہے کیا اور اتار کر کیا آیت کو جہیز میں دینے کا ارادہ رکھتی ہیں جو ہر وقت اپنی چک چک سے میرے اس کان کی دهجیاں اڑاتی رہا کرے گی میں ایک بات سچی سچی کہہ دیتا ہوں میرے کان نے بھی پک جانا ہے اس کی بک بک سے۔۔۔ غازیان کی دھایاں عروج پر تھیں۔
“بکواس نہیں کرو خبر دار جو میری پوتی کے بارے میں بکواس کی تو۔۔۔” دادی جان نے دبدبے سے کہا ۔
اوکے اوکے دادی جان ٹھیک ہے نہیں کرتا لیکن کان تو چھوڑ دیں۔۔۔ اب غازیان کو نہ بولنا ہی مناسب لگا تھا کیوں کے کان پر زور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
“ایک شرط پر چھوڑوں گی کہ اب تم میری پوتی کو تنگ نہیں کرو گئے۔”
“اوکے پیاری دادی جان ابھی کے لیے بالکل بھی تنگ نہیں کروں گا” اس نے حامی بھر لی۔
دادی امی نے کان چھوڑ دیا تھا سب لوگ لیونگ روم میں اکٹھے ہو گئیں تھے۔
چلیں یونیورسٹی ادیرا نے عفاف کو مخاطب کیا یار آج رہنے دیتے ہیں دیکھو تو سہی کتنا مزا آ رہا ہے میرا بھائی بیچارہ کتنی دور سے آیا ہے۔
“او میری پیاری بہنا اگر تو تم یہ سوچ کر چھٹی کر رہی ہو کے میں تمھارے لیے کچھ لے کر آیا ہو گا تو تم اپنی غلط فہمی دور کرو اور جتنی بھی گالیوں سے نوازنا ہیں نوازوں اور چلتی بنو”۔۔۔ عفاف کی بات کو بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے غازیان نے جواب دیا۔
“نہیں ایسا نہیں ہو سکتا تم مذاق کر رہے ہو نہ مجھے یقین ہے تم لے کر ہی آئے ہو گئے “عفاف نے بھی بٹر لگانے کی کوشش کی۔
“اگر یقین نہیں آ رہا تو میرا بیگ چیک کر لو تمہیں کچھ نہیں ملے گا” غازیان نے ہاتھ گردن کے پیچھے باندھ کر آرام سے جواب دیا۔
“مجھے تم سے یہی امید تھی تم ایک نمبر کے بھوکے انسان ہو بدتمیزی میں تو تم نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے دفع ہو جاؤ ڈیش انسان صوفے پر پڑے سارے کشن اس نے کھینچ کر غازیان کو مارے تھے۔”
“چلو ادیرا چلے خامخوا اتنا ٹائم ویسٹ ہو گیا وہ پیر پٹختی ہوئی وہاں سے واک آوٹ کر گئی۔”
دیہان سے جانا پھر نہ کسی کی گاڑی ٹھوک دینا غازیان نے پیچھے سے جلے پر نمک چھڑکا تھا ۔۔۔موقع ملا تو سب سے پہلے تمہاری ہی ٹھوکوں گی اس نے بھی وہی سے ہانک لگائی۔
وہ آ کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی ادیرا بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکی تھی ۔۔”سب لوگ اپنے آپ کو بہت تیس مار خان سمجھتے ہیں جیسے سارے اچھے کام انہی کو آتے ہیں میں تو نہیں ٹھوکتی کسی کی گاڑی اب وہ خود آ کر میری گاڑی میں ٹکڑ مارے تب بھی غلطی میری ہی ہوتی ہے میں اپنی نظر میں سب سے اچھی ڈرائیونگ کرتی ہوں باقی سب جائیں بھاڑ میں۔۔۔”عفاف ابھی تک غصے میں جل بھن رہی تھی ۔
سب بڑے آفس چلے گئے تھے عفاف اور ادیرا بھی یونیورسٹی چلی گئی تھیں آیت اپنے کمرے میں چلی گئی تھی دادا دادی اور ان کی دو بہویں اور غازیان ہی لیونگ روم میں بچے تھے۔
“بیٹا علی کیوں نہیں آیا تمھارے ساتھ” نازیہ بیگم نے استفسار کیا۔
“ماما میں نے اس کو اندر آنے کا بولا تھا کہہ رہا تھا پھوپھو اور بھائی کے ساتھ چکر لگاؤں گا۔”
چلو ٹھیک ہے تم بھی فریش ہو جاؤ میں تمھارے لیےناشتہ بناتی ہوں ۔
نہیں ماما میں ناشتہ نہیں کروں گا میں فریش ہو کر سوؤں گا ناشتہ رستے میں کر لیا تھا۔
“چلو ٹھیک ہے جاؤ تم ریسٹ کرو “وہ اجازت لیتا ہوا کمرے میں چلا گیا۔
٭٭٭٭٭
فاطمہ بیگم کچن میں کام کر رہی تھیں کہ باہر سے ہارن کی آواز سنائی دی وہ جلدی سے دروازے کی جانب بڑھی تھی۔
گاڑی پورچ میں کھڑی کر کہ وہ باہر نکلا تھا کہ اسے دروازے پر کھڑی فاطمہ بیگم دکھائی دی۔
السلام علیکم ! بازو وا کرتے ہوئے وہ دروازے کی جانب بڑھا اور اپنی ماما کو سینے سے لگایا۔
وعلیکم اسلام کیسا ہے میرا بچہ فاطمہ بیگم کے لہجے میں نمی گھلی تھی۔
“یار ماما میں ٹھیک ہوں آپ رو کیوں رہی ہیں آپ کو پتہ ہے وہاں غازی کی یقیناً بینڈ بجائی ہونی ان لوگوں نے اور آپ یہاں میری بینڈ بجانے کی بجائے اپنی آنکھوں کا بینڈ بجا رہی ہیں یہ تو غلط بات ہے نا “۔۔۔اپنی ماما کو چپ کرواتے ہوئے اس نے ان کی آنکھیں صاف کی۔
اتنے دنوں بعد اپنے بیٹے کو دیکھا تو آنسو نکل آئے چلو اندر آ جاؤ۔ فاطمہ بیگم کو ساتھ لگائے علی انہیں اپنے ساتھ ہی لاؤنج میں لے آیا۔
تم تھک گئے ہو گے فریش ہو جاؤ پھر میں ناشتہ لگاتی ہوں۔
“نہیں میں کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھوں گا ناشتہ میں نے کر لیا تھا ناشتے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔”علی فاطمہ بیگم کی گود میں سر رکھ کر صوفے پر ہی لیٹ گیا اور اپنی ماما سے باتیں کرنے لگا۔
“کیا ہو رہا ہے تم کب آئے؟ “عباد نے لاؤنج میں آتے ہی علی سے استفسار کیا۔
“ماما کیا میں اتنی جلدی خواب دیکھنے لگ گیا کہ بھائی مجھے اس وقت گھر میں نظر آ رہے ہیں” علی عباد کے وہاں موجود ہونے کی یقین دہانی چاہ رہا تھا۔
“بیٹا جی سمجھ لو اس خواب کی تعبیر سچی ہے آج تمہارا بھائی گھر پر ہی ہے” فاطمہ بیگم نے اس کے سر میں ہاتھ چلاتے ہوئے جواب دیا۔
“او بھائی کیسے ہیں آپ “علی عباد سے بغل گیر ہوا۔
“میں ٹھیک ہوں تم سناؤ کیسا رہا ٹرپ ؟”عباد نے بیٹھتے ہوئے جواب کے ساتھ سوال بھی کر ڈالا
“جی بہت اچھا رہا سب مزا تو سچ میں بہت آیا “۔۔۔تینوں باتوں میں مشغول ہو گئے۔
آج فاطمہ بیگم کے چہرے پر خوشی ہی خوشی جھلک رہی تھی آج ان کے دونوں بیٹے جو ان کے ساتھ تھے یقیناً یہ دن بہت خوشگوار تھا۔
٭٭٭٭٭
ادیرا اور احلام یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بیٹھی ہوئی تھیں تبھی وہاں عفاف بھی آ گئی۔اپنا بیگ زمین پر رکھتے ہوئے وہ بھی زمین پر گرنے کے انداز میں بیٹھی تھی۔
“کیا ہوا ہےتمہیں ایسے کیوں منہ لٹکایا ہوا ہے؟” احلام نے استفسار کیا۔
ہونا کیا ہے سر نے ایک اور پروجیکٹ منہ پر مار دیا ہے عفاف نے بیزار ہوتے ہوئے جواب دیا۔
تو اس میں کیا بڑی بات ہے تمھارے لیے کون سا یہ مشکل کام ہے ادیرا نے کہا۔
“مشکل کام میرے لیے یہ ہے کہ مجھے اپنی نیند کی قربانی دینی پڑے گی کیوں یہ اگلے دو دنوں میں سبمٹ ہونا ہے “۔۔اس کا منہ لٹکا۔
“ہمم تو یہ بات ہے چلو کوئی بات نہیں تم چِل مارو میں اور ادیرا تمہاری مدد کر دیں گئے۔”
“یار کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میرا یہ پروجیکٹ تم دونوں ہی بنا دو “عفاف نے بیچاری سی شکل بناتے ہوئے پوچھا۔
“بالکل نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو گا دونوں نے یک زبان جواب دیا۔”
یہ ہمارا ڈیپارٹمنٹ نہیں ہے تم ایسا سوچنا بھی مت یہ سب مدد کی حد تک ٹھیک ہے۔
“ہنہ مدد اپنے پاس ہی رکھ لو تم دونوں اپنی یہ مدد مجھے نہیں چائیے یہ کہتے ہی وہ وہاں سے واک آوٹ کر گئی۔”
“کہاں جا رہی ہو؟” احلام نے پیچھے سے آواز دی۔
“بھاڑ میں نہیں جا رہی کینٹین جا رہی ہوں۔”
عفاف فائن آرٹس کی سٹوڈنٹ تھی ادیرا اور احلام بیسٹ فرینڈز تھی اور دونوں ہی انگلش لٹریچر کر رہی تھیں۔
“احلام مجھے تم بجھی بجھی سی لگ رہی ہو کوئی بات ہے کیا جو تمہیں پریشان کر رہی ہے “ادیرا نے احلام سے پوچھا جو اداس دکھائی دے رہی تھی۔
“نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے “اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔
“یہ ڈرامے بند کرو اور بتاؤ مجھے ادیرا نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور انہیں ہلکہ سا دبايا۔”
“وہ کل میں نے فون چارجنگ پر لگایا تھا اور بٹن دبانا بھول گئی اور پھر جب صبح اٹھی تو فون ویسے کا ویسا ہی تھا اور چارج کرنے کے بعد جب میں نے فون کو اوپن کیا تو یشب کے بہت سارے میسجز اور کالز آئی ہوئی تھی اور پھر میں نے بعد میں ریپلائے بھی کیا کالز بھی کیں لیکن انہوں نے نا میسجز کا جواب دیا اور نہ ہی کال پک کی کہی وہ مجھ سے ناراض تو نہیں ہو گئے اور ماما کو بھی بتایا تو وہ بھی مجھے ڈانٹنے لگ گئی کہ میں نے اپنے شوہر کو ناراض کر دیا “۔۔۔احلام نے ادیرا کا ساتھ پا کر اپنے دل میں دبی بات بیان کر دی۔
“بس اتنی سی بات پر تم نے منہ لٹکایا ہوا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ بزی ہو فری ہو کر تمہیں کال کر لیں گے” ادیرا نے اسے تسلی دی۔
“اللّه کرے ایسا ہی ہو ادیرا”
“انشاءاللّه ایسا ہی ہو گا “وہ پر امید تھی۔
اب لاسٹ لیکچر تو ہونا نہیں ہے تو گھر چلتے ہیں عفاف کو بھی کال کر کے بلا لو اور تم بھی ہمارے ساتھ ہی چلو ہم تمہیں گھر چھوڑ دیں گئے ادیرا نے احلام سے کہا جو بکس اپنے بیگ میں ڈال رہی تھی۔
میرا روٹ اور ہے اور تم لوگوں کا اور ہے اس کی ضرورت نہیں ہے میں چلی جاؤں گی۔
“ہم لوگ پھوپھو کے گھر جا رہے ہیں اور اسی راستے میں تمہارا گھر بھی ہے تو ہم ساتھ ہی جائیں گے” اس نے روب سے کہا۔
اوکے جناب ہم نے پہلے کبھی آپ کی بات ٹالی ہے جو اب ٹالیں گے احلام نے اک ادا سے کہتے ہوے ادیرا کی جانب دیکھا دونوں کی نظریں ملی تھی دونوں مسکرائی تھیں اور اٹھ گئی تھی اب دونوں کا رخ کار کی جانب تھا۔
عفاف کے آتے ہی وہ تینوں اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھیں۔
٭٭٭٭٭
دروازے کی بیل مسلسل بج رہی تھی ایسا لگتا تھا کہ کوئی بیل پر ہاتھ رکھ کر اٹھانا ہی بھول گیا ہو۔
“آ رہا ہوں بھئی صبر نہیں ہوتا” ۔۔۔علی نہا دھو کر فریش سا اپنے کف کو کوہنیوں تک فولڈ کیے سیڑھیوں سے اتر رہا تھا اور اس نے وہی سے ہانک لگائی تھی لیکن بیل بجانے والا بھی شاید نہیں یقیناً ڈھیٹ ہی تھا۔
“کیا مسلہ ہے بھئی تم لوگوں کو “دروازہ کھولتے ہی وہ سامنے والے کو بنا دیکھے ہی بولنا شروع ہو گیا تھا کہ جب نظر سامنے پڑی۔
“اوہ تو چڑیلیں آئی ہیں اوپس سوری مجھے یہ کہنا چائیے تھا کہ ایک پری کے ساتھ ایک چڑیل فری میں آئی ہے”۔
“ہٹو یہاں سے میں تمھارے منہ نہیں لگنا چاہتی “عفاف اس کو پیچھے ہٹاتی اندر کی جانب بڑھ گئی۔
“کیا بات ہے آج بھوتنی کا موڈ بہت خراب لگ رہا ہے آج بنا لڑے ہی چلی گئی اِسے کچھ ہوا ہے ؟” علی نے ادیرا سے استفسار کیا۔
“نہیں ہوا تو کچھ نہیں ایسا رویہ صرف تمھارے اور غازی کے لیے ہی ہے بقول عفاف کے تم دونوں سے بات کرنا ہی فضول ہے۔”
علی اور ادیرا بھی باتیں کرتے ہوئے کچن میں چلے آئے جہاں پھوپھو اور بھتیجی کا ملن ہو رہا تھا۔ادیرا بھی پھوپھو سے ملی۔
کیسی ہے میری بیٹیاں اور کیسے یاد آ گئی پھوپھو کی۔۔۔”پھوپھو کتنے دن ہو گئے ہیں آپ ہماری طرف آئی نہیں تو ہم ہی آ گئے اور ہمیں نہیں پتہ تھا کہ یہاں پر آتے ہی ہمارا ذکوٹا جن سے سامنا ہو جائے گا “عفاف نے شیلف پر بیٹھتے ہوئے آنکھیں گھما کر کہا۔
“اور جیسے ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ تم یہاں کس لیے آئی ہو۔” علی نے دوبدو کہا۔
“اچھا تو تمہیں زیادہ پتہ ہے کہ میرے دل اور دماغ میں کیا چل رہا ہے۔”۔۔عفاف اور علی بالکل لڑنے کے موڈ میں آ چکے تھے۔
“اچھا تو پھر بتاؤ ہم لوگ کیوں آئے ہیں۔”
“ضرور تمہیں الہام ہوا ہو گا کے ماما بریانی بنا رہی ہیں اور یہ جو تمہاری اتنی بڑی ناک ہے بریانی کی خوشبو سونگھتے ہی اس کے نقشے قدم پر چلتی ہوئی آ گئی ہوگی ۔۔۔لیکن ایک بات میں صاف صاف کہہ دوں یہ بریانی ماما نے میرے لیے میری کہنے پر بنائی ہے تو تمہیں اس میں سے ایک چمچ لینے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔۔۔”علی نے اس کی ناک پر انگلی مارتے ہوئے کہا جس پر عفاف نے اس کے بازو پر تھپڑ مارا۔
“تم سے اجازت مانگ کون رہا ہے” سیب کھاتے ہوئے عفاف نے اس کی بات پر آنکھیں گھمائی۔
اچھا چلو بعد میں لڑ لینا پہلے کھانا کھا لیتے ہیں پھوپھو نے ان دونوں کو ڈائننگ ٹیبل پر آنے کو کہا۔
“ابھی رک جائیں ماما اس چڑیل کو جانے دے پھر آرام سے بیٹھ کر کھاتے ہیں”۔
“پھر تو تم بریانی کھانا بھول ہی جاؤ کیوں کہ میں تو یہاں سے شام تک ہلنے نہیں والی” شیلف سے چھلانگ مارتے ہوئے اپنے پختہ ارادے بتائے۔
“تم سے امید بھی یہی ہے” علی بھی منہ بسورتا ہوا ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
کھانے کے دوران سب باتیں بھی کر رہے تھے اور عفاف کو جلانے کے لیے علی اپنے ٹرپ کی باتیں بھی کرتا رہا لیکن عفاف کو اور کسی چیز سے غرض ہی کیا تھی جب تک بریانی اس کے ہاتھ میں تھی اس نے کھانے کے دوران اسے فل اگنور مارا تھا۔
٭٭٭٭٭
ہاں ہاں میں آ رہی ہوں تم پانچ منٹ تک انتظار نہیں کر سکتے رافعیہ بیگم فون پر اپنے بیٹے سے مخاطب تھی۔
یار ماما حد ہو گئی ہے آپ کے پیچھلے آدھے گھنٹے سے پانچ منٹ ہی ختم نہیں ہو رہے اب اگر آپ پانچ منٹ تک نہ آئی تو میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا یہ کہتے ہی اس نے فون رکھ دیا وہ پیچھلے آدھے گھنٹے سے کار میں بیٹھا اپنی ماما کا انتظار کر رہا تھا جو آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔
“ہاں چلو اب “رافعیہ بیگم کار میں آ کر بیٹھی تھیں اور آبص کو چلنے کا کہا تھا۔
“ماما اتنا سارا سامان لے کر جائے گی “اپنی ماما کے ہاتھ میں موجود سامان دیکھ کر آبص نے کہا ۔
ہاں تو میں اپنی بیٹی کے گھر جا رہی ہوں خالی ہاتھ تو نہیں جا سکتی نا پچھلی سیٹ پر بیگز منتقل کرتے ہوئے رافعیہ بیگم نے کہا۔
وہ پانچ بجے کے قریب ساریہ کے گھر پہنچے تھے نائلہ بیگم جو لاؤنج میں بیٹھی تھی پہلے سامنا انہی سے ہوا تھا ان کو دیکھتے ہی ان کی رنگت اڑی تھی۔
السلام علیکم ! بہن جی کیا حال ہے رافعیہ بیگم نے سلام کیا۔
وعلیکم اسلام ! ہم ٹھیک ہیں آپ کیسی ہیں۔
اللّه کا شکر ہے ہم بھی ٹھیک ہیں۔۔۔آئیں آئیں بیٹھے نا نائلہ بیگم نے انہیں بیٹھنے کا کہا۔
“بھابی بھابی ۔۔۔۔۔ کہاں ہو آپ لو جی یہاں پر ہو جلدی جائے نیچے آپ کے گھر والے آئے ہیں” غازہ اپنی بھابھی کو ڈھونڈتے ہوئے چھت پر آئی تھی جہاں وہ کپڑے دھونے میں مصروف تھی۔
“میرے گھر والے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کون کون آیا ہے۔”۔۔۔ساریہ حیران ہوئی اسے اس بارے میں بالکل نہیں پتا تھا کہ گھر سے کوئی آنے والا ہے۔
وہ ہاتھ صاف کرتے ہوئے نیچے کی جانب بڑھی جہاں اسے لاؤنج میں ہی اپنی ماما اور بھائی بیٹھے نظر آئيں۔ وہ آ کر ان سے ملی تھی وہ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ خوش بھی ہوئی کہ اس کے گھر والے اسے ملنے آئے ہیں۔
لیکن گھر والوں کے چہرے پر ایسی کوئی خوشی نہیں تھی۔
“بیٹا تم نے اپنا کیا حال بنایا ہے یہ سب کیا ہے تم تو ایسے کبھی شادی سے پہلے بھی نہ تھی اتنا رف حلیہ” رافعیہ بیگم کو اس کے حلیے سے حیرت ہوئی تھی۔
“وہ ماما میں کپڑے دھو رہی ۔۔۔۔۔۔ “ابھی ساریہ بات ہی کر رہی تھی کہ نائلہ بیگم بیچ میں ہی بول پڑی۔
“میں نے تو اسے کہا تھا بہن جی کے آج ملازمہ چھٹی پر ہے تو وہ کل آ کر کپڑے دھو لے گی لیکن یہ مانی ہی نہیں اور خود کپڑے دھونے چلی گئی۔”
“جی ماما میں فارغ تھی تو سوچا میں ہی دھو لیتی ہوں ۔۔۔اچھا یہ سب چھوڑیں آنے سے پہلے بتایا نہیں آپ نے میں آپ کے لیے کچھ بنا لیتی”۔
اس کی ضرورت نہیں ہے ہم تو بس تمہیں سرپرائیز دینا چاہتے تھے آبص نے مداخلت کی۔
“نائلہ جی آج ہم اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ لے کر جائیں گے جب سے شادی ہوئی ہے ایک بار بھی رہنے نہیں آئی جب بھی آتی دو گھنٹے میں ہی واپس بھی چلی جاتی ۔۔۔ “رافعیہ بیگم نے نائلہ سے اجازت چاہی۔
“ہاں جی بہن کیوں نہیں مجھے کیا اعتراض ہو گا بس غازہ بیمار ہے اور وہ اس کے علاوہ کسی کے ہاتھ کا کچھ نہیں کھاتی “انہوں نے ٹالنا چاہا۔
“میں بالکل ٹھیک ہوں آنٹی آپ بھابی کو لے جا سکتی ہیں “غازہ نے آنٹی کی باتیں سن لی تھی وہ اس کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہ رہی تھی۔
السلام علیکم ! کیسے ہیں آپ سب اور انکل کیسے ہیں غازہ نے وہاں بیٹھتے ہی سلام بھی کیا اور حال چال بھی پوچھ ڈالا۔
دونوں بیٹیاں کیسے مرجھا گئی ہیں مجھے تو لگتا ہے تم دونوں اپنا دیہان ہی نہیں رکھتی انہوں نے فکر مندی سے کہا۔
جی آنٹی وہ بس ملازمہ چھٹی پر ہے تو سارے کام مجھے اور بھابی کو ہی کرنے پڑتے ہیں ۔۔ غازہ آگے بھی کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن ساریہ نے اس کے ہاتھوں پر دباوں ڈالا اور اس کو بولنے سے منع کیا۔
“چھوڑیں یہ باتیں ماما ہم لوگ آئے گے لیکن ابھی نہیں ابھی غازہ پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئی اس ویکنڈ پر آئے گے اور میں اپنے ساتھ غازہ کو بھی لے کر آؤں گی ۔۔۔ “ساریہ نے تفصیلی جواب دیا۔
“یہ تو اچھی بات ہے جب بھی بیماری سے اٹھو تو ماحول چینج کرنا اچھا رہتا ہے انسان فریش ہو جاتا ہے “آبص نے بھی گفتگو میں حصّہ لیا ۔۔۔تو ٹھیک ہے پھر تم دونوں اتوار کو تیار رہنا میں لینے آ جاؤں گا۔
“ویسے تم یہاں بور نہیں ہوتی یہ ٹوٹلی مختلف ماحول ہے۔۔۔” آبص نے پوچھا۔
بالکل میں بھی بھابی سے یہی کہتی ہوں لیکن ان کا جواب۔۔۔۔ آپ انہی کی زبانی سن لیں غازہ نے آنکھیں گھمائی۔
“جب ادھر ہی رہنا ہے یہی میرا گھر ہے تو دل تو لگانا ہی پڑنا ہے ۔۔۔آپ لوگ باتیں کرو میں کھانے کو کچھ لاتی ہوں “ساریہ نے اٹھتے ہوئے کہا ۔
“بھابی آپ بیٹھی رہے میں لے کر آتی ہوں “غازہ کچن کی جانب بڑھ گئی۔
نائلہ بھی کسی کام کا بتا کر چلی گئی اب وہاں پر ان کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔
ماما ان سب کی کیا ضرورت تھی آپ نے ایسے ہی تکلف کیا گفٹس کو دیکھتے ہوئے ساریہ نے کہا۔
ضرورت نہیں تھی لیکن میں اپنی خوشی کے لیے لائی ہوں۔ بیٹا تم خوش تو ہو نہ رافعیہ بیگم کے دل کو نہ جانے کیا بات کھٹک رہی تھی۔
“جی ماما میں بہت خوش ہوں “اس نے ان کے ہاتھوں کو ہلکہ سا دبايا۔
باتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا وہ لوگ کچھ دیر اور گزار کر گھر کے لیے روانہ ہوگئے تھے۔
ساریہ کے لیے آج کا دن کافی خوشگوار رہا تھا۔
٭٭٭٭٭
عفاف اور ادیرا بھی شام کو گھر لوٹ آئی تھیں سب لوگ رات کا کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں بند ہو گئے تھے۔
ادیرا نے اپنے کمرے میں آتے ہی احلام کو کال ملائی جو دوسری بیل پر ہی اٹھا لی گئی۔
“ہاں ادیرا تم صحیح کہہ رہی تھی ان کا میسج آیا ہے اور وہ کہہ رہے تھے کہ وہ میٹنگ میں بزی تھے اس لیے رپلائے نہیں کر پائے بعد میں کال کریں گے ۔۔۔” کال پک ہوتے ہی اس کی چہکتی ہوئی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
“اللّه تمہیں ہمیشہ ایسے ہی خوش رکھے چلو ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا اللّه حافظ ۔۔۔ ٹھیک ہے اللّه حافظ”۔
فون بند ہوتے ہی ادیرا کئی سوچوں میں الجھ گئی ۔۔۔تم لکی ہو احلام جو تمہارا شوہر تمہارا حال چال تو پوچھتا ہی ہے میرا شوہر تو مجھ سے لا پروا ہی رہتا ہے ہمارے نکاح کو پانچ سال ہو گئے ہیں آج تک کوئی میسج کوئی کال نہیں آئی گھر والوں کا یہ فیصلہ نہ جانے کس موڑ پر کھڑا کرنے والا ہے ان کی مرضی بھی تو شامل نہیں تھی وہ نکاح انہوں نے صرف گھر والوں کے دباؤں میں آ کر کیا تھا ۔۔۔ “کیا وہ مرد اتنا کمزور تھا کہ اس پر دباؤں ڈال دیا گیا ؟”
“سوچوں کا تسلسل تو بہت گہرا تھا۔”ساری سوچوں کو جھٹک کر وہ سونے کے لیے لیٹ گئی۔
٭٭٭٭٭
“آج موسم خوشگوار تھا لگتا تھا جیسے بارش ہو گی ٹھنڈی ہوا محو رقص تھی جیسے گنگنا رہی ہو کہی سرگوشی کر رہی ہو جیسے درختوں کے پتوں سے اٹخلیاں کر رہی ہو جیسے مسکرا رہی ہو۔”
ڈائننگ ٹیبل پر گہما گہمی کا منظر تھا سب ناشتہ کر رہے تھے عفاف اور ادیرا نے ناشتہ کر لیا تھا اور اب وہ یونی کے لیے نکل گئی تھیں۔
“غازی کیا ہاتھ صحیح سے کام نہیں کر رہے جو اتنا سلو کھانا کھا رہے ہو اگر تمہیں یاد نہیں تو میں تمہیں یاد کرواتی چلوں کہ آج ہمارا نیا سیمسٹر شروع ہونے والا ہے اور ہمیں آج جلدی جانا ہے ۔۔۔”آیت نے غازی پر چوٹ کی جو کھانے سے شاید پوچھ پوچھ کر کھا رہا تھا کہ تمہیں کھاؤں یا نا کھاؤں۔
“اوکے چمگادڑ چلتے ہیں “غازی اٹھ کر پورچ کی طرف چلا گیا۔
آیت بھی پاؤں پٹختی ہوئی اس کے پیچھے آئی اس کو تپانے کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اس کا ہمیشہ کی طرح نام بگاڑ گیا۔
کار اس نے پھوپھو کے گھر کے راستے پر ڈالی ےتھی اپنے ہونٹوں کو گول کرتے ہوئے ایک شوخ سی سیٹی بجاتا ہوا وہ کار ڈرائیو کر رہا تھا۔
گھر کے باہر پہنچ کر اس نے ہارن بجایا تبھی فوراً سے علی بھی باہر آ گیا۔
“ہیلو ۔۔۔”اس نے جھک کر کھڑکی سے آیت کو ہیلو بولا۔جس پر آیت کا کوئی ردعمل نہیں آیا وہ بالکل اپنی سیدھ میں دیکھ رہی تھی۔
“علی نے آئی برو اچکا کر غازی سے پوچھا کیا بات ہے ؟”
غازی نے بھی کندھے اچکاۓ مجھے کیا پتہ کیا بات ہے۔
“چل چوزی باہر نکلو” علی نے کار کا فرنٹ ڈور کھولتے ہوئے آیت کو باہر آنے کا کہا۔
“میں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ نکلو ۔۔۔گی ۔۔۔” آیت نے دانتوں کو کچکچاتے ہوئے علی سے کہا۔
دیکھو آیت چپ کر کے باہر نکلو اور آرام سے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھو ورنہ ہم لیٹ ہو جائے گے۔
“نہیں دیکھتی کیا کر لو گے؟”
“اچھا تو تم ایسے نہیں مانو گی “علی بھی اپنی ضد پر اڑ گیا تھا۔
“تم جس طرح بھی مجھے اس سیٹ سے ہٹا سکتے ہو ہٹا کہ دیکھ لو آج میں یہاں سے نہیں اٹھنے والی ۔۔۔”آیت بھی جم کر سیٹ پر بیٹھی تھی۔
غازیان مزے سے ہیڈ فون لگا کر گانے انجوۓ کر رہا تھا بنا ٹکٹ کے وہ فری میں مووی کا ٹریلر دیکھ رہا تھا۔
دروازہ کھول کر علی نے اس کو کھینچا وہ بھی پوری طاقت سے اس کا مقابلہ کر رہی تھی اس نے سیٹ بیلٹ کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔
“کیا ہو رہا ہے یہاں پر ۔۔۔۔” عباد جو اپنی فائل گھر پر بھول گیا تھا وہی لینے واپس آیا تھا لیکن یہاں پر کیا ہو رہا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
“بھائی آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔۔”علی نے ہڑبڑاتے ہوئے کہا اور آیت کا بازو چھوڑا۔
“علی یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے ۔۔۔” عباد تھوڑے سخت مزاج والا انسان تھا اس نے تھوڑے سخت لہجے میں ہی علی سے استفسار کیا۔
“آہا ۔۔۔۔۔ اور اب ہم دیکھے گے مووی ود فل آف ایکشن ۔۔۔” غازی نے فون نکالا اور ویڈیو بنانے لگا۔
“وہ بھائی میں آیت کو کہہ رہا تھا کہ تم پیچھے بیٹھ جاؤ تم کیوں دو جگری یاروں کے درمیان کباب میں ہڈی بننا چاہتی ہو یہ مان ہی نہیں رہی تھی اس لیے ۔۔۔”
“اس لیے تم زبردستی نکال رہے تھے ۔۔۔”عباد نے جملہ مکمل کیا۔
“ہاں بھائی بالکل میں ایسا ہی کر رہا تھا ۔۔”علی نے بھی ڈھٹائی کی اخیر کر دی۔
“اور شرم تو تمہیں ذرا بھی نہیں آئی ہو گی ایسے عورتوں سے پیش آتے ہیں”
“ہیں شرم ۔۔۔ یہ کس آنٹی کا نام ہے” علی نے آنکھیں بڑی کرتے ہوئے کہا۔ عورتوں کا لفظ سن کر آیت بھی باہر آئی تھی۔
“کیا کہا آپ نے ۔۔۔عورت میں آپ کو عورت لگتی ہوں ۔۔آپ نے مجھے عورت کہا ابھی میں لڑکی ہوں ۔۔۔ آپ کو کہاں سے میں عورت دکھتی ہوں ۔۔۔ہاں بتائیں مجھے ۔۔۔ وہ لڑاکا عورتوں کی طرح عباد پر برس رہی تھی۔”
موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے علی فورا گاڑی میں بیٹھا تھا اور دروازہ لاک کیا اب دونوں یار مل کر مووی دیکھ رہے تھے۔
عباد کو باتیں سناتے ہوئے ساتھ میں وہ اپنا عکس بھی کار کے شیشوں میں دیکھنے لگی۔
“دیکھو آیت ۔۔۔کیا دیکھوں میں دونوں بھائی مجھے پتا نہیں کیا دکھانا چاہتے ہیں ۔۔” عباد کی بات کاٹتے ہوئے آیت نے غصے میں جواب دیا۔
“شٹ اپ آیت ۔۔۔ تمیز نہیں ہے تمہیں بات کرنے کی کب سے بک بک کر رہی ہو ۔۔۔ میں نے تو ایک جرنل سی بات کی تھی ۔۔تم نے تو بات کا بتنگڑ ہی بنا لیا۔”
عباد دھاڑا تھا اس کی دھاڑ سے آیت سہم گئی تھی عباد کی دھاڑ سے اندر بیٹھے غازیان اور علی بھی لمحے بھر کو چونکے تھے۔
“یار غازی تو جا ٹھنڈا کر انہیں جا کر ۔۔آیت کو بیٹھا جا کر ۔۔۔واہ میرے یار واہ۔۔۔ یعنی کے تو کہہ رہا ہے کہ میں شیر کے چھتے میں جا کر ہاتھ ڈالوں “۔۔۔۔۔ “ابے او ڈھکن شیر کا چھتا نہیں ہوتا بھیڑوں کا چھتا ہوتا ہے “۔۔۔۔۔ علی نے اس کے کان کے نیچے ایک لگائی ۔۔۔”ہاں ہاں وہی میرے کہنے کا وہی مطلب تھا سمجھ تو تم گئے ہی نا ۔۔”کان کھجاتے ہوئے غازی نے لاپروائی سے جواب دیا۔
اب جا کر چپ کر کے بیٹھو پچھلی سیٹ پر تمہاری اس فضول کی لڑائی نے تمہاری سیٹ بھی چھین لی۔آیت کو اپنی سیٹ کا خیال آیا تو اس نے آگے دیکھا جہاں علی براجمان ہو چکا تھا۔آنکھوں میں نمی لیے وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی اور زور سے کار کا دروازہ بند کیا۔
تمیز سے گورنمنٹ پراپرٹی نہیں ہے میری ذاتی کار ہے غازی نے بھوکے شیر کو دعوت دی۔
“بکواس بند کرو اگر اب تم دونوں نے کوئی بکواس کی تو میں تم دونوں کا سر پھاڑ دوں گی “آیت پورے زور سے چلائی۔
یار غازی چپ کر جا کیوں اپنی موت کو دعوت دے رہا ہے ۔۔۔علی نے غازی کو باز رہنے کا کہا۔ دونوں اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے دوسری باتوں میں مصروف ہو گئے غازی نے کار یونی کی طرف گھمائی۔
غازی علی اور آیت میڈیکل کے دوسرے سال میں تھے تینوں ہی زہین تھے ان کا ایڈمشن میریڈ پر ہی ہوا تھا تینوں كزنز بھی تھے غازی اور علی کی دوستی کچھ زیادہ ہی تھی دونوں کوئی موقع نہیں چھوڑتے تھے آیت کو تنگ کرنے کا اس کو چڑھانے میں ان کو مزہ آتا تھا دونوں ایک دوسرے کے بنا کہی نہیں جاتے تھے ابھی بھی اسی وجہ سے لڑائی ہو رہی تھی کہ علی نے غازی کے ساتھ بیٹھنا تھا اور ہر بار کی طرح اس کو اس سیٹ سے اٹھا ہی دیا گیا تھا۔
٭٭٭٭٭
“کیا نوٹ کر رہی ہو سر تو پڑھا کر چلے گئے ہیں اور یہ کونسی زبان میں لکھا ہے تم نے ذرا پڑھ کر سنانا ۔۔”ادیرا نے احلام سے کہا جو بے دیہانی میں نوٹ بک پر پنسل چلائی جا رہی تھی اور سارا پیج خراب کر چکی تھی۔
ادیرا ساتھ ساتھ اپنی چیزیں بھی سمیٹ رہی تھی جو اس نے لیکچر کے دوران باہر نکالی تھی اور احلام سے بھی مخاطب تھی جو الگ ہی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔
“کبھی کبھی میں سوچتی ہوں وقت کتنی تیزی سے گزر گیا جیسے وقت پر لگا کر اڑ گیا ہو کبھی واپس نہ آنے کے لیے اور کبھی کبھی لگتا ہے وقت ٹھہر گیا ہے لمحوں کی قید میں کہی جکڑا گیا ہے تھم تھم کر چل رہا ہے گزرنے کا نام ہی نہیں لیتا کتنے حسین لوگ کتنے حسین منظر کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔۔۔ کیا آنے والا وقت ہر زخم کی دوا لے کر آتا ہے ؟”
احلام کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولی نہ جانے کونسا درد چھپا تھا اس کے لہجے میں۔۔۔ “آج بابا کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ایک سال ہو گیا لیکن وقت اس تکلیف کا مرہم لے کر نہیں آیا آج بھی وہ دن دلوں دماغ میں پہلے دن کی طرح ہی بھاری ہے وقت مرہم لے کر نہیں آیا ادیرا۔۔۔ نہیں آیا مرہم لے کر نہیں آیا ۔۔۔”احلام پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
ادیرا نے اسے گلے لگایا اور اسے رونے دیا “رونے سے اکژ دلوں کے بوجھ ہلکے ہو جاتے ہیں “۔
جب احلام نے بہت سارا رو لیا تو ادیرا نے اسے خود سے علیحدہ کیا اور اسے پانی پلایا۔
“وقت مرہم لے کر نہیں آتا لیکن وقت کے ساتھ جڑے لوگ مرہم بن کر آتے ہیں جو تمہارا نقصان ہوا ہے وہ بہت بڑا ہے اور اس نقصان پر صبر کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جاتا تمھارے بابا نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے اپنی آخری سانسوں تک انہیں صرف تمہاری فکر رہی اور تمہارا ہاتھ وہ یقیناً ایک اچھے انسان کے ہاتھ میں ہی دے کر گئے ہیں وہی شخص تمہارا مرہم بن کر آئے گا اور زخم کی دوا بن جائے گا۔۔۔ ” “ہاں وہ وقت تمہیں کبھی نہیں بھولے گا تم چاہ کر بھی ان لمحوں کو نہیں بھلا پاؤں گی لیکن آہستہ آہستہ ان لمحوں پر صبر کی مہر لگ جائے گی ۔۔۔ “چلو شاباش اب آنسو صاف کرو ورنہ یشب بھائی کو بتاؤں گی کے آپ کی بیگم اپنی آنکھوں پر ظلم کر رہی ہیں پھر وہ خود ہی تمہیں چپ کروائیں گے ۔۔۔ادیرا نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے یشب کا ٹاپک چھیڑا۔
“ہاں تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے وہ پچھلی گلی میں ہی رہتے ہیں اور میرے آنسوؤں کا سن کر وہ بھاگے بھاگے آئیں گے اور میرے آنسو صاف کریں گے ۔۔۔”احلام نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
“خیر ہے بڑی حسرتیں پل رہی ہیں دل میں ۔۔”ادیرا نے مسکراتے ہوۓ کہا جس پر احلام بھی مسکرا دی۔
لو جی تم لوگ یہاں پر ہو اور میں کب سے تم دونوں کا انتظار کر رہی ہوں ۔۔۔عفاف دونوں کو ڈھونڈتی ہوئی وہاں آ پہنچی۔
“اور کیا باتیں ہو رہی ہیں بڑا مسکرایا جا رہا ہے مجھے بھی بتاؤ میرا بھی مسکرانے کو دل کر رہا ہے۔”
کچھ نہیں میں تو احلام سے یشب بھائی کی بات کر رہی تھی۔
“اوہو تو یہ ہے مسکرانے کی وجہ ۔۔۔” عفاف بھی چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔
“یار ویسے اتفاق کی بات ہے تم دونوں کے شوہروں کا نام ایک جیسا ہی ہے ویسے تو دوستوں کے یہ خواب ہوتے ہیں کہ ان کی شادی ایک ہی گھر میں ہو جائے جہاں دو بھائی آباد ہو تا کہ ہم کبھی جدا نہ ہو اور یہاں دوستوں کو ایک ہی نام کے شوہر مل گئے ۔۔۔ بات تو دلچسپ ہے “
“ادیرا کا نکاح میرے بھائی یشب سے ہوا ہے اور تمہارا نکاح بھی جس سے ہوا ہے اس کا نام بھی یشب ہے فرق اتنا ہے کہ میرے یشب بھائی امریکہ میں ہیں اور تمہارے وہ لندن میں ویسے ان کا پورا نام کیا ہے ؟۔۔۔”عفاف نے چہکتے ہوئے احلام سے پوچھا۔
“پورا نام ۔۔۔ پورا نام تو مجھے نہیں پتہ میں نے کبھی پوچھا ہی نہیں ۔۔کبھی دیہان ہی نہیں دیا ۔۔۔” احلام نے سوچتے ہوئے کہا۔
“کیا تمہیں واقع نہیں پتا ۔۔۔”عفاف کے سوال پر احلام نے معصومیت سےنفی میں گردن ہلائی۔
“یار نکاح کے وقت تو مولوی نے پورا نام لیا ہو گا ۔۔ “عفاف نے تجسس میں آتے ہوئے پوچھا ۔
“یار تم لوگ جانتی تو ہو کس حالت میں نکاح ہوا تھا اس وقت تو میرا دماغ بالکل ماؤف تھا مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہو کیا رہا ہے ۔۔۔ اور ان کا نام بھی تب پتہ چلا تھا جب انہوں نے میسج پر مجھ سے بات کی تھی ۔۔۔” احلام نے تفصیل سے جواب دیا۔
“اچھا چھوڑو یہ سب یہ ہی بتا دو کیا بات ہوتی ہے “عفاف نے رازدرانہ انداز میں پوچھا۔
کچھ زیادہ بات تو نہیں ہوتی بس وہ حال چال پوچھتے ہیں اسٹڈی سے ریلٹڈ پوچھ لیتے ہیں اور تفصیل سے بات تو کبھی نہیں ہوئی اور میں بھی صرف انہی کے سوالوں کا جواب دیتی ہوں میں نے کبھی خود سے بھی ان سے بات نہیں کی ۔۔۔لیکن وہ روز میسج ضرور کرتے ہیں اور کبھی کبھی کال بھی کر لیتے ہیں ۔۔۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب ان سے میری بات ہوتی ہے بے شک زیادہ نہیں ہوتی ۔۔۔اتنے میں ہی میں بہت خوش ہوں۔۔۔مجھے ان کے میسج کا انتظار رہتا ہے۔”
ایک احساس میرے ساتھ رہتا ہے
کہ کوئی ہے جو میری پروا کرتا ہے
“واہ واہ کیا شعر بنا دیا میں نے ۔۔”احلام جو ایک جرنل سی بات کر رہی تھی بات کرتے کرتے اس نے اپنے جذبوں کو شعر کی شکل دے دی جس پر اس نے خود ہی واہ واہ سمیٹ لی۔
“واہ ۔۔۔ “ہمہیں تو پتا ہی نہیں تھا ہمارے درمیان شاعرانہ مزاج والے بھی موجود ہے ۔۔۔ عفاف نے دانتوں کو چباتے ہوئے کہا ۔۔۔ اب یہ مت کہہ دینا کہ تم دونوں نے ابھی ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہیں ہے۔
“ہاں ۔۔۔ تو نہیں دیکھا ۔۔۔انہوں نے کبھی کہا ہی نہیں کہ اپنی فوٹو بھیجو میں نے تمہیں دیکھنا ہے اس لیے میں نے بھی کبھی نہیں کہا۔۔۔ اور دیکھ ہی لے گیں جب وہ مجھے رخصت کروانے آئیں گے ۔۔۔”احلام نے معصوم شکل بنا کر جواب دیا۔
“اف اف ۔۔کیا چیز ہو تم دونوں لگتا ہے کہ تم دونوں صبر کی مٹی سے ہی بنائی گئی ہو اگر تم لوگوں کی جگہ میں ہوتی نا تو میں نے ایک منٹ کا چین نہیں لینے دینا تھا اس انسان کو ۔۔۔۔ اور ایک یہ ہے ادیرا جس کا شوہر جس کو نکاح کر کے گئے ہوئے پانچ سال ہو گئے اور ابھی تک واپس نہیں آئے ۔۔۔ذرا پیار سے زور ڈالتی تو آ ہی جاتے اور اب تک میں خالہ اور پھوپھو بن ہی چکی ہوتی ۔۔۔”عفاف نے ادیرا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جس پر ادیرا نے اس کے بازوں پر تھپڑ رسید کیا۔
“اٹھو اب ۔۔۔چلیں موسم بھی خراب ہے اس سے پہلے بارش ہو ہمہیں گھر کے لیے نکلنا چائیے ۔۔”ادیرا نے دونوں کو اٹھنے کا کہا۔
“اوے۔۔۔ موسم خراب نہیں موسم بہت پیارا ہے اور آج جم کے بارش ہو گی اور میں جم کے اس بارش میں نہاوں گی” عفاف نے چہکتے ہوئے کہا۔
احلام کا موڈ پورا تو نہیں لیکن پہلے سے بہتر تھا۔ تینوں کلاس روم سے نکل کر گاڑی کی طرف بڑھی تھیں۔
“احلام کا موڈ پل میں بدل جاتا تھا اور ادیرا اس کا موڈ بدلنا اچھے سے جانتی تھی۔”
٭٭٭٭٭
3 Comments
Anxiously waiting for it… thanks writer❤️
Nice
Nice