سر ۔۔۔ظفر از رپورٹنگ ۔۔۔ہاں ظفر بولو۔
آج ان کو تین بجے تک آنے پر مناؤ اور میں گارڈ کو وارن کر دوں گا تم ان لوگوں کو گھر کی بیک سائیڈ پر لے کر جاؤ گے اور سارا کام اپنی نگرانی میں کرواؤ گے ۔۔۔ظفر کے رپوٹ دینے پر عباد نے اسے کام سمجھاتے ہوئے کہا۔
اوکے سر ہو جائے گا آپ فکر نہ کریں۔
ہممم ۔۔۔۔ عباد نے فون کاٹا اور ایک اور نمبر پر کال ملائی۔
السلام علیکم ! ماما آج میرا کام جلدی ختم ہو گیا ہے آپ ریڈی رہیں میں آپ کو پک کرنے آ رہا ہوں پھر نانا ابو کی طرف چلتے ہیں اور علی کو بھی فون کر کہ کہہ دیتا ہوں وہ بھی سیدھا وہی آ جائے گا ۔۔۔ فاطمہ بیگم کے فون اٹھاتے ہی عباد نے سب کچھ ایک ہی سانس میں کہہ دیا۔
فاطمہ بیگم نے بھی سلام کا جواب دیا اور حامی بھر لی کیوں کہ ایسے موقع انھیں بہت کم ملتے تھے جب عباد خود انھیں لے جانے کی آفر کرتا تھا۔
عباد نے علی کو بھی فون کر کے کہہ دیا تھا ۔۔اور اب وہ ایک ٹیکسٹ میسج لکھ رہا تھا۔
“کام جلدی ہو جانا چاہیے گھر میں کوئی نہیں ہو گا اس لیے کوئی بھی مداخلت نہیں کرے گا دیہان رہے کام باریک بینی سے ہونا چاہیے۔۔۔”اور اسے ظفر کے نمبر پر سینڈ کر دیا۔
٭٭٭٭٭
“کیا ہو رہا ہے ؟”ساریہ نے بالكنی میں کھڑی غازہ سے پوچھا۔
کچھ نہیں موسم کافی اچھا ہے اس لیے تازہ ہوا کھا رہی ہوں ۔۔غازہ نے ٹھنڈی ہوا کو سانسوں کے زریعے اندر اتارتے ہوئے کہا۔
“بھابھی آپ کو جانا چاہیے تھا وہ لوگ آپ کو لینے آئے تھے۔”
“ہاں تو میں نے کونسا انکار کیا ہے اس سنڈے ہم دونوں جائیں گے۔”
“میرا جانا ضروری نہیں ہے بھابھی آپ چلی جاتیں مزہ کرتیں وہاں آپ فریش ہو جاتیں کیسے مرجھا گئیں ہیں۔”
“ہم دونوں جائیں گے اور پورا ہفتہ رہ کر آئیں گے اور امید کرتی ہوں تمہیں مزہ آئے گا ۔۔”ساریہ نے غازہ کی کوئی بات نہیں سنی۔
“پکوڑے کھاؤ گی ۔۔”غازہ نے ہاں میں سر ہلایا ہاں بالکل کھاؤں گی زبان کا ذائقہ ہی خراب ہو گیا ہے میڈیسن کھا کھا کر ۔۔۔ چلے میں بھی آپ کی مدد کرتی ہوں۔
دونوں کچن کی جانب بڑھ گئیں۔
٭٭٭٭٭
ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی تھی جب پورچ میں آ کر ادیرا اور عفاف کی گاڑی رُکی ابھی وہ کار سے باہر نکلی ہی تھیں کہ پیچھے ایک اور کار آ کر رکی ۔
“آج تم لوگ جلدی آ گئے” ادیرا نے آیت سے پوچھا ۔۔۔”ہاں آج سیکنڈ ایر کا پہلا دن تھا تو آج بس ٹائم ٹیبل ہی کنفرم ہوا ہے اور سبجیکٹس کا ہی پتا چلا اور اپنی گینگ میں سی آر کے ہونا کا یہی تو ایک فائدہ ہے ساری انفو پہلے ہی مل جاتی ہے آج کسی بھی سر نے لیکچر نہیں لینا تھا تو اسی لیے جلدی آ گئے ۔۔۔ “آیت نے تفصیل سے جواب دیا۔
رکو ادیرا ۔۔۔سب لاؤنج کی طرف بڑھے تھے کہ پیچھے سے غازیان نے آواز دی۔
“کیا ہے ۔۔۔”ادیرا نے روکنے کی وجہ پوچھی ۔۔۔” دیکھو موسم کتنا پیارا ہے تو تم یہاں سے سیدھا کچن میں جاؤ گی اور ہم سب کے لیے پکوڑے بناؤ گی “۔۔۔ غازیان نے روب جھاڑتے ہوے کہا۔
“اور ہاں عفاف کے ہاتھ کی چائے بھی ہو جائے تو آہا مزہ ہی آ جائے ۔۔”علی نے بھی ٹھنڈی آہیں بھرتےہوئے کہا۔
“ایک منٹ ایک منٹ ۔۔۔میں کیا تمہاری ملازم ہوں جو تمھارے لیے چائے بناؤ گی ادیرا پر تم لوگ یہ روب جھاڑ سکتے ہو وہ تم لوگوں کو کچھ نہیں کہتی لیکن مجھ پر جھاڑنے کی “غلطی” غلطی سے بھی نہ کرنا ورنہ تم لوگ تو مجھے جانتے ہی ہو ۔۔”عفاف نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا اور سیدھا لاؤن میں چلی گئی اور ہاں کوئی مجھے ڈسٹرب نہ کرے آج میں بارش انجوے کرنا چاہتی ہوں۔
“یار ادیرا اس گھر میں مجھے صرف تم ہی ایک سمجھدار لگتی ہو باقی ساری تو سر پھیری ہی لگتی ہیں ۔۔۔ “علی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
“اگر تو تم مجھے بٹر لگا رہے ہو تو یقین مانو اتنا مہنگا بٹر ضائع ہی کر رہے ہو میں بغیر بٹر کے بھی کام کر لیتی ہوں ۔۔۔ “ادیرا نے مسکراتے ہوئے کہا اور سب اندر کی جانب بڑھ گئے۔
“ہاو سویٹ ادیرا ۔۔۔ تم واقع ہی بہت اچھی ہو ۔۔۔”ادیرا نے نفی میں سر ہلایا اور آگے بڑھ گئی ۔
لاؤنج میں قدم رکھتے ہی سب نے مل کر سلام کیا جہاں پر سب بڑے بھی موجود تھے اور پھوپھو اور عباد بھی موجود تھا۔
پھوپھو کے ایک طرف ادیرا تھی اور ایک طرف آیت تھی اور ٹانگوں کے قریب نیچے زمین پر کشن رکھے غازیان بیٹھ گیا۔
“پھوپھو آپ اتنے دن بعد کیوں آئیں ہیں ۔۔”آیت نے منہ پھلاتے ہوئے پوچھا جیسے وہ ناراض ہے۔
“بہت اچھے بیٹا جی میں نہیں ملنے آئی تو آپ کونسا آ گئی ۔۔۔” پھوپھو نے آیت اور غازیان دونوں کے کان کھینچتے ہوئے کہا۔
“ارے پھوپھو جان ۔۔۔ میں نے تو پکا ملنے آنا تھا لیکن صبح تھوڑا سا باہر کا ماحول گرم ہو گیا تھا کار سے باہر قدم رکھتا تو میرا تو رنگ ہی کالا ہو جانا تھا جیسی صبح آب و ہوا تھی توبہ توبہ ۔۔”غازیان نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔
ایک غصیلی نظر آیت نے عباد پر اور غازیان پر ڈالی تھی اور پھر منہ موڑ کر پھوپھو سے باتیں کرنے لگ گئی ادیرا اٹھ کر کچن میں چلی گئی تھی باقی سب چھوٹے بڑے بھی باتوں میں مشغول ہو گئے کوئی موسم پر بات کر رہا تھا کوئی سیاست پر تو کوئی بزنس کا ٹاپک چھیر دیتا دادا جان اس وقت آرام کر رہے تھے اور دادی جان بھی سب کے ساتھ بیٹھی مسکرا رہیں تھی پورا خاندان جو اکھٹا ہو گیا تھا۔
بارش کی بوندیں ابھی بھی ہلکی ہلکی برس رہیں تھی عفاف بھی لاؤن میں جھولے پر بیٹھی آسمان پر نظریں جماۓ بیٹھی تھی اس کو تو بارش کے تیز ہونے کا انتظار تھا۔
باہر گیٹ پر گھنٹی کی آواز سنائی دی ۔۔اس نے دیکھا گارڈ انکل وہاں نہیں تھے وہ خود گیٹ کی جانب گئی اور دروازہ کھولا ۔۔ دروازہ کھولتے ہی اس کے منہ کےزاویے بگڑے اور اس نے فورا سے دروازہ بند کیا تھا کہ آبص نے ہاتھ بڑھا کر اسے بند کرنے سے روک دیا۔
“دیکھو مسٹر ہم نے بن بلائے مہمانوں کو نہیں بلایا تو آپ جا سکتے ہیں ۔۔”عفاف نے دانتوں کو چباتے ہوۓ کہا۔
آبص نے ادھر ادھر دیکھا لیکن وہاں تو کوئی نہیں تھا اس نے ہاتھ سے اپنی طرف اشارہ کیا۔
“ہاں میں تم سے ہی مخاطب ہوں ۔۔۔”عفاف نے اس کو اپنی طرف تکتے ہوئے پا کر کہا ۔
“ہٹو سامنے سے میں تم سے ملنے نہیں آیا پھوپھو لوگوں سے ملنے آیا ہوں۔۔” وہ دروازہ دهكیلاتا ہوا اندر کی جانب بڑھ گیا۔
“ہیں ۔۔”پھوپھو آئیں ہیں اور مجھے کسی نے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا وہ بھی اندر کی جانب بڑھ گئی۔
آبص نے سب کو سلام کیا اور عباد علی اور غازیان سے بغل گیر ہوا۔عفاف بھی آ کر پھوپھو سے ملی اور عباد بھائی کو سلام کیا ۔۔مانا کہ میں نے کہا تھا کہ مجھے ڈسٹرب مت کرنا مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ مجھے کسی نے پھوپھو کے آنے کا بتانا ضروری ہی نہیں سمجھا عفاف نے منہ پھلاتے ہوئے کہا۔
عفاف بیٹا جاؤ ادیرا کی مدد کرو وہ اکیلی کچن میں لگی ہوئی ہے اور آیت آپ بھی جاؤ بیٹا نازیہ بیگم نے دونوں کو کہا۔
“لیکن ماما میں ابھی تو آئی ہوں ابھی میں نے پھوپھو سے باتیں کرنی ہے ۔۔”عفاف نے نہ جانے کا بہانہ گھڑا۔
“اور مجھے کونسا یہ سب کام آتے ہیں مجھے تو صرف کافی بنانا ہی آتی ہے اور اس ٹائم کافی تو کوئی نہیں پینے والا ۔۔ہیں نہ ۔۔۔”آیت نے اپنی بات پر خود ہی تصدیق کی اور آرام سے وہی جم کر بیٹھ گئی۔
عفاف آپ جاؤ جا کر مدد کرو اس بار نازیہ بیگم نے دوبارہ کہا اور آنکھوں سے اشارہ بھی کیا جس کا مطلب وہ اچھے سے سمجھ گئی تھی اور اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔
“اب آئی نہ آوٹنی پہاڑ کے نیچے “علی نے غازیان کے کان میں گھستے ہوئے کہا جس پر غازیان نے مسکراہٹ پاس کی ۔۔۔”اور ہاں سنو وہ کباب جو فرج میں پڑے ہو گے پلیز اسے بھی فرآئی کر لانا ۔۔”غازیان نے اسے تاؤ دینے کے لیے پیچھے سے ہانک لگائی ۔۔”ابھی لاتی ہوں چھوٹے بھیا ۔۔”عفاف نے دانت کچکچاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ پیچھے دونوں ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہسنے لگے۔
اور سناؤ بھئی کیسا رہا ٹرپ آبص نے ان دونوں سے استفسار کیا ۔۔بہت اچھا بہت مزے دار ۔۔ہم تمہیں تصویریں دیکھاتے ہیں ۔۔دونوں نے اپنے فون نکالے اور اٹھ کر آبص کے پاس چلے گئے۔
کیا بات ہے بیٹا کوئی کام ہے اگر کوئی ضروری کام ہے تو کر آؤ احمد صاحب نے عباد سے پوچھا جو بار بار اپنے فون کو دیکھ رہا تھا ۔۔نہیں ماموں ایسی کوئی بات نہیں ہے کوئی ضروری کام بھی نہیں ہے ۔۔اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا جس پر ماموں نے بھی ہاں میں گردن ہلائی۔
“کیا ہوا ہے تمہیں ایسے منہ کیوں لٹکایا ہے ؟”ادیرا نے عفاف سے پوچھا جو کچن میں آ کر زور زور سے چیزیں پٹخ رہی تھی۔
“کچھ نہیں ہوا میں بتا رہی ہوں کسی دن غازی اور اس علی کے بچے نے میرے ہاتھوں سے قتل ہو جانا ہے ۔۔”فرج سے دودھ نکالتے ہوئے اس نے کہا۔
“تم جاؤ میں کر لوں گی بس تقریباً کام ختم ہونے ہی والا ہے چائے بھی ساتھ رکھ لیتی ہوں تم جاؤ ۔۔”ادیرا نے اسے جانے کا کہا۔
“ایسے کیسے چلی جاؤں اب تو ایسی چائے پلاؤں گی کہ یاد رکھے گے “۔۔۔یہ کہتے ہی اس نے چائے کا پانی رکھا اور مسکرائی۔
تھوڑی دیر تک پکوڑے بن گئے تھے اور عفاف نے چائے بھی بنا لی تھی اور اب وہ دونوں لاؤنج میں لے کر گئی سب کو چائے سرو کرنے کے بعد اس نے علی اور غازیان کو چائے دی۔
“ارے بہنا تم کباب نہیں لائی ۔۔”غازیان نے شرافت سے پوچھا۔
“لو بھیا آپ بھی کیا بات کرتے ہو ادیرا کہ ان پکوڑوں کے آگے ان کبابوں کی کیا اوقات ہے بھلا ۔۔”عفاف نے بھی اسی کہ انداز میں جواب دیا اور اپنا کپ اور پکوڑوں کی ایک پلیٹ اٹھا کر وہ لاؤنج کی جانب چلی گئی اس کے پیچھے آیت اور ادیرا بھی چلی گئی تھیں۔
“یار علی کوئی گڑبڑ تو نہیں کر کہ گئی دیکھا تم نے کتنے پیار سے بات کر رہی تھی “غازی نے رازدرانہ انداز میں پوچھا۔
یار مجھے بھی یہی لگتا ہے پکوڑے تو ہم بے فكری سے کھا سکتے ہیں لیکن چائے پینا تھوڑا رسكی ہو سکتا ہے علی نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
لیکن سب لوگ چائے آرام سے پی رہے ہیں دیکھ ادھر علی نے غازی کو سب کی طرف متوجہ کیا۔
“ابے او بیوقوف ۔۔۔ وہ باقیوں کو کیوں خراب چائے دے گی ۔۔”دونوں ایک دوسرے کے کان میں کھسر پھسر کر رہے تھے۔
“ایک کام کر پہلے تو پی لے چائے اگر گڑبڑ نہ ہوئی تو پھر میں بھی پی لوں گا۔۔۔ دیکھ دوست ایک دوسرے کے لیے جان دے دیتے ہیں تم میرے لیے ایک کپ چائے نہیں پی سکتا ۔۔”غازی نے علی سے کہا۔
“او بھائی ۔۔۔دیکھ میں تیرے لیے جان دے سکتا ہوں پر یہ چائے نہیں پی سکتا ۔۔۔”علی نے صاف انکار کیا۔
“یار ایک ہی بات ہے چائے پینا اور جان دینا تو بات کو سمجھ تو سہی ۔۔”غازی نے پھر سے کہا ۔
“ایک کام کرتے ہیں ہم دونوں ایک ساتھ ہی پی لیتے ہیں ایسے کسی کو بھی امتحان دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔۔”علی نے بات ہی ختم کر دی غازی نے بھی ہاں میں سر ہلایا۔
ایک۔۔۔ دو۔۔۔تین۔۔۔ تین تک گن کر دونوں نے ایک سپ لیا سپ لیتے ہی ان کو کھانسی کا دوڑا پڑا ۔۔دونوں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کچن کی جانب بھاگے۔
ان کو کیا ہو گیا یہ چائے پی رہے تھے یا مرچوں کا مقابلہ کر رہے تھے ایسے کیوں کھانسنے لگ گئے ۔۔دادی نے ان دونوں کی حرکتوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
دادی جی بات کرتے کرتے کوئی ایسی بات کر لی ہو گی جس پر اچانک سے کھانسی لگ گئی ہو دونوں بالکل عورتوں کی طرح تو ایک دوسرے کے کان میں کھسر پھسر کرتے رہتے ہیں ۔۔آبص نے بات سمبھالی وہ اچھے سے جان چکا تھا کہ ہوا کیا ہو گا وہ تو خود شکر کر رہا تھا کہ آج اس نے اس سے پنگا نہیں لیا تھا ورنہ اس کا بھی یہی حال ہوتا۔
دونوں کچن میں آ کر پانی کی تلاش میں ادھر ادھر ہاتھ مار رہے تھے اور ہڑبڑاہٹ میں برتن بھی نیچے گر گئے تھے ۔۔غازی کو پانی کا جگ نظر آیا تو اس نے جگ کو ہی منہ لگا لیا اور علی نے سنک کے نل کو ہی منہ لگا لیا پورا جگ ختم کرنے کے بعد بھی اس کی زبان ویسے ہی جل رہی تھی۔
اب دونوں چینی کا ڈبہ ڈھونڈ رہے تھے ۔۔ لیکن چینی ان دونوں کو کہا ں ملنی تھی وہ تو عفاف کہی اور چھپا کر گئی تھی۔
“یار یہ چینی کہا ں ہے ۔۔”سی سی کرتے ہوئے علی نے ہر کیبنٹ چھان مارا تھا۔
یہ لے غازی نے اس کی طرف سیب اچھالا جو اس نے فرج سے نکالا تھا اب دونوں کا رخ باہر کی طرف تھا جہاں پر عفاف بارش کا مزہ لے رہی تھی۔
بارش پہلے سے تیز ہو گئی تھی اور عفاف دونوں بازوں کھولے گول گول گھوم رہی تھی چہرہ آسمان کی طرف تھا جس پر بارش کا صاف پانی گر کر اسے اور شفاف بنا رہا تھا۔
آیت اور ادیرا سائیڈ پر شیڈ کے نیچے چیئر رکھے اس کو گھومتے ہوئے دیکھ رہی تھیں تبھی غازی اور علی وہاں آئے تھے۔
“عفاف کی بچی ۔۔۔” “آج تم بچ کے دکھانا ہم سے دونوں نے اپنے بازؤں کے كف فولڈ کرتے ہوئے کہا ۔۔”کیا ملایا تھا تم نے چائے میں؟
“زیادہ تو کچھ نہیں بس دو دو چمچ کالی مرچوں کے ڈالے تھے اور بڑے پیار سے اس چائے کو بنایا تھا ۔۔”عفاف نے بھی بھیگتے ہوئے وہی سے جواب دیا جانتی تھی وہ دونوں بارش میں تو نہیں آئیں گے اس لیے آرام سے وہ ادھر سے ہی ان کی شکلیں دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی تھی۔
یاد رکھنا مائی ڈیر یہ بدلہ ادھار ہے تم پر اور ہم سود سمیت وصول کریں گے علی نے کہتے ہی وہاں پر پڑا تیسرا مگ اٹھا لیا جو یقیناً عفاف کا ہی تھا اور غازی نے آیت کے سامنے پڑا ہوا مگ اٹھا لیا جو وہ آدھا پی چکی تھی۔
“یہ میرا کپ ہے غازی “آیت نے غازی کو گھوڑا ۔۔۔”پتا ہے مجھے یہ لو۔۔۔” اس نے ایک سپ لے کر اسے واپس کیا ۔۔۔”میں تمہارا جھوٹا نہیں پیئوں گی پیوں اب تم ہی اسے ۔۔”آیت نے غازی کی پیشکش کو رد کیا ۔۔”میں جانتا تھا تم نہیں لو گی اسی لیے تو دی تھی تمہیں ۔۔”اب جو پکوڑے ان کو اندر نصیب نہیں ہوئے تھے وہ انہوں نے ادھر سارے پکوڑوں کا صفايا کر دیا تھا تھوڑی دیر بعد دونوں وہاں سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔
“عفاف کو بارش بہت پسند تھی وہ کوئی بارش مس نہیں کرتی تھی سردیوں میں گھر والوں سے چھپ چھپ کر وہ نہایا کرتی تھی سب اسے بارش کی دیوانی کہتے تھے وہ کہتی ہے جب بارش زمین پر آ کر ٹکراتی ہے تو ایک دھن بجاتی ہے اور وہ اسی دھن پر مسکراتی ہے بارش اس کو اللّه کی رحمت سے بھیگاتی ہے۔”
“کیا ہوا ادیرا کن سوچوں میں کھوئی ہو ۔۔”آیت نے ادیرا کے آگے چٹکی بجائی جو چیئر پر ٹانگے اوپر کیے سامنے ایک ہی زاویے میں دیکھ رہی تھی جہاں عفاف بارش میں بھیگ رہی تھی۔
“سوچ رہی ہوں ایک ہی چیز ایک ہی وقت میں خوشی بھی لے کر آتی ہے اور غم بھی فائدہ بھی اور نقصان بھی ۔۔۔” اس نے کھوۓ کھوۓ لہجے میں جواب دیا۔
“کیا مطلب ہے میں سمجھی نہیں ۔۔”آیت نے نہ سمجھ آنے پر پوچھا۔
“وہ دیکھو سامنے عفاف کتنی خوش ہے اسے بارش بہت پسند ہے وہ دعائیں کرتی ہے بارش ہونے کی بارش اس کے چہرے پر مسکراہٹ لاتی ہے۔۔۔ ایک کسان بارش ہونے کی دعا کرتا ہے تا کہ وہ بارش اس کے کھیت کو زرخیز کر سکے ۔۔۔۔”اور” ایک جھومپڑی میں رہنے والا شخص سڑک پر رات گزارنے والا شخص کچے مکانوں میں رہنے والے شخص کی زبان پر یہی دعا ہوتی ہو گی کہ بارش نہ ہو میری چھت ٹپکنے لگ جائے گی ساری رات وہ اسی پریشانی میں ہی گزارتا ہو گا۔
چھت سے ٹپکتا بارش کا وہ پانی ہو گا
اس غریب کو کہا ں سونے دیتا ہو گا
چھت سے ٹپکتے پانی کے نیچے بالٹی رکھتا ہو گا
بالٹی رکھ کر وہ پانی کی بوندوں کو گنتا ہو گا
بالٹی کے بھر جانے پر وہ پانی باہر گرا کر آتا ہو گا
آکر دو پل سکون کے وہ بھی گزارتا ہو گا
اور پھر بالٹی کے بھرنے کا انتظار کرتا ہو گا
ساری رات انہی چکروں میں کاٹتا ہو گا
وہ غریب تو بس یہی سوچتا ہو گا
یہ بارش کا مزہ تو امیر لوگوں کو ہی آتا ہو گا
غریب کی چھت ٹپکنے کا کون سوچتا ہو گا
(فقیہہ بتول)
ادیرا نے ایک نظم کی شکل میں اپنی اس وقت کی کفیت بیان کی۔کبھی سوچا ہے کیا بنتا ہو گا کس طرح رات گزرتی ہو گی ان کی کس طرح وہ بسر کرتے ہو گے ۔۔کوئی نہیں سوچتا ہو گا آیت اپنی خوشی میں سب لوگ بھول جاتے ہو گے۔
لیکن میری بہن تو سوچتی ہے اور اس کا مطلب تو یہی ہوا نہ کہ اس دنیا سے اچھائی ختم نہیں ہوئی آیت نے ادیرا کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور مسکرائی وہ جانتی تھی اس کی بہن بہت حساس ہے وہ اپنے علاوہ سب کا سوچتی ہے اور ان کی ہر ممکن مدد کرتی ہے۔
“سوچنے سے کام نہیں چلے گا ہمہیں کچھ کرنا چاہیے میں نے کچھ سوچا ہے ۔۔اگلے اتوار کو جب سب اکٹھے ہو گے تب میں بتاؤں گی۔۔۔”ادیرا نے آیت سے کہا جس پر آیت نے حامی بھر لی۔ ہم سے جو ہو پائے گا ہم ضرور کریں گے۔
ادیرا اب اٹھ کر اندر چلی گئی تھی آیت نے اپنی بہن کو جاتے ہوئے دیکھا اس کا ارادہ بھی اب اپنے کمرے میں جانے کا تھا۔
“بس بھی کر دو عفاف بہت نہا لیا آج تم نے ۔۔”آیت نے عفاف کو پکارا ۔۔”تم جاؤ میں بس دو منٹ میں آتی ہوں” ۔۔۔” جانتی ہوں تمھارے دو منٹ دو گھنٹوں میں ہی بدلیں گے لیکن پھر بھی مرنے سے پہلے آ جانا ۔۔میں نے تو ابھی تمہاری شادی پر ڈانس بھی کرنا ہے ۔۔”آیت نے دانتوں کی نمائش کی اور اندر کی جانب چلی گئی۔
٭٭٭٭٭
“سر ۔۔کام ہو گیا ہے آپ کو کل صبح تک رپورٹ مل جائے گی ۔۔”عباد کو ظفر کا میسج موصول ہوا تھا جس پر اس نے اوکے لکھ کر اسے سینڈ کیا۔
سب لوگ ابھی بھی باتیں کرنے میں لگے ہوئے تھے ادیرا دادا جان کو بھی وہی لے آئی تھی ۔۔تبھی عدیل صاحب کے فون کی گھنٹی بجی وہ سائیڈ پر ہو کر بات کرنے لگ گئے اور یوں لگ رہا تھا جیسے بہت خوش ہو فون سن کر وہ واپس اپنی جگہ پر ہی آ کر بیٹھ گئے۔
سب گھر والے وہی موجود تھے عفاف بھی کپڑے تبدیل کر کہ آ گئی تھی۔
“بابا جان ایک خوش خبری ہے ۔۔”عدیل صاحب نے دادا جان کو مخاطب کیا تھا لیکن سب لوگ ہی خوشخبری کے نام پر عدیل صاحب کی طرف یک ٹک دیکھ رہے تھے۔
بابا جان ابھی میری یشب سے بات ہوئی وہ کہہ رہا تھا کہ وہ اگلے مہینے تک آ رہا ہے۔
سب کہ چہرے خوشی سے کھل اٹھے ہر طرف مبارک باد کا شور اٹھا ۔۔ادیرا کی گرفت صوفے پر اور مضبوط ہو گئی یہ خبر اس پر بجلی کی طرح گری تھی ۔۔اس نے سب کے مسکراتے چہروں پر نظر ڈالی تھی اس نے خود کو سمبھالہ اور زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجائی۔
بیٹا اس کہ آنے سے پہلے ہی شادی کی تیاریاں شروع کر دیں گے اس کہ آتے ہی کچھ دن بعد شادی کی تاریخ رکھ لیں گے ۔۔نکاح کو بہت عرصہ ہو گیا ہے اب شادی کرنا ہی مناسب ہے اب اور دیر نہیں کرنی چاہیے۔
“جی بابا جان ایسا ہی ہو گا ۔۔”عدیل صاحب کے ساتھ ساتھ سب نے حامی بھر لی۔
سب لوگوں کی خوشی کی انتہا ان کے چہروں سے جھلکتی خوشی ہی بیان کر رہی تھی ۔۔۔علی غازی اور آبص نے تو بھنگڑے بھی ڈالنا شروع کر دیے تھے عفاف اور آیت ادیرا کو گھیر کر بیٹھ گئی اور ان کا بھنگڑا انجوئے کرنے لگی اور ساتھ ساتھ تالیاں بجا کر ان کو داد بھی دے رہی تھيں۔
“ادیرا ہی جانتی تھی وہ وہاں کیسے بیٹھی ہے اس کے اندر ایک شور برپا تھا جو شاید باہر کے شور سے بھی زیادہ تھا اندر جو ہل چل مچ رہی تھی اس کے بارے میں کسی کو بھی بھنک نہیں ہونے دی تھی کیوں کہ ادیرا احمد اپنے غم اپنے دکھ اپنی تکلیف کو اپنی مسکراہٹ میں بدلنا خوب جانتی تھی اس کی یہ مسکراہٹ بہت سے دلوں کا سکون تھی جو وہ جان بوجھ کر تو تباہ نہیں کر سکتی تھی۔”
سب بڑے اٹھ کر اپنے کمروں میں چلے گئے تھے گھر کی عورتیں رات کا کھانا تیار کرنے کے لیے کچن میں چلی گئی ان کا ساتھ دینے کے لیے فاطمہ بیگم بھی ان کے ہمراہ گئی۔
اب لاؤنج میں بچہ پارٹی ہی رہ گئی تھی عباد بھی ادھر ہی موجود تھا عفاف نے اپنے فون پر ایک سونگ پلے کیا اور اسے ٹیبل پر رکھ کر خود بھی ان کا ساتھ دینے لگی اور آیت وہ کیوں پیچھے رہتی وہ بھی آگے آئی تھی۔
اس نے اپنا دوپٹہ گھونگھٹ کی طرح اوڑھا تھا اور شرمانے کی بھرپور ایکٹنگ کرتی ہوئی ان تک آئی تھی۔۔آیت کو درمیان میں کھڑا کر کہ باقی سب اس کہ گرد بھنگڑا ڈال رہے تھے ۔۔ آیت اور عفاف نے ایک دوسرے کے ساتھ کپل ڈانس بھی کیا تھا ۔۔سب نے مل کر ہلکہ پھلکہ ڈانس کیا ۔۔۔سب تھک ہار کر صوفوں پر گرنے کے انداز میں بیٹھے تھے ۔۔۔
“او ہم نے دیہان ہی نہیں دیا ہمارے درمیان بزرگ لوگ بھی موجود تھے ان سے پوچھ لو اتنے شور سے انھیں زیادہ تکلیف تو نہیں ہوئی دیکھو نہ کیسے منہ لٹکایا ہوا ہے ۔۔”آیت نے عباد پر طنز کیا تھا وہ صبح والی بات بھولی نہیں تھی۔
عباد نے ایک نا گوار نظر آیت پر ڈالی وہ اس کا طنز اچھے سے سمجھ گیا تھا۔
“نہیں میں عورتوں کے اتنے شور کا برا نہیں مناتا ۔۔”عباد نے بھی ادھار رکھنا مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔”ایکسکیوزمی”۔۔۔ وہ ایکسکیوز کرتا ہوا اٹھ کر چلا گیا۔
پیچھے آیت نے غصے میں کشن اٹھا کر ان چاروں پر پھینکے جن کی مسکراہٹ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔بھاڑ میں جاؤ تم سب ۔۔وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
٭٭٭٭٭
ادیرا سیدھا اپنے کمرے میں آئی تھی اور بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھی تھی ۔۔سوچوں کی کئی لہریں تھی جو اس کے دماغ میں اودھم مچا رہی تھیں ۔۔۔اب زندگی کونسا باب شروع کرنے والی ہے کیا آنے والا کل واقعی خوشگوار ہونے والا ہے یا پھر زندگی کا وہ باب جو شروع ہی نہیں ہوا وہ ختم ہو جائے گا ۔۔جس باب کے شروع ہونے پر سب اتنا خوش ہو رہے ہیں کیا وہ خوشی چند لمحوں کی ہے یا پھر عمر بھر اس باب کے صفحے خوبصورتی سے سجائے جائے گئے ۔۔۔کون جانے آنے والا وقت اپنے ساتھ کیا لے کر آئے گا خوشیوں کا سیلاب یا غم کا طوفان ۔
مجھے آج بھی نکاح کی وہ شام یاد ہے جو ان پانچ سالوں میں مجھ سے ایک پل کے لیے بھی جدا نہیں ہوئی اور ابھی بھی میری چھٹی حس کچھ غلط ہونے کا احساس دلا رہی ہے ۔
کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا تھا ۔۔۔آ جاؤ اندر سے اجازت ملی تھی وہ اندر آیا تھا ۔۔۔ادیرا اپنے ہی دیہان میں لگی اپنا کمرا صاف کر رہی جس کا حشر سب نے مل کر بگاڑا تھا۔
“مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔”یشب کی آواز پر وہ پلٹی تھی۔
آف وائٹ کلر کی لمبی گھیر دار فراک پہنے سر پر ریڈ كلر کی چیزی اوڑھے ہاتھوں میں گلاب کے پھولوں کے گجرے پہنے وہ کوئی شہزادی لگ رہی تھی۔
“آپ ۔۔جی کہیں میں سن رہی ہوں “ادیرا نے اس کو بولنے کی اجازت دی ۔
“دیکھو ادیرا میں گھوما کر بات نہیں کرو گا میں سیدھا پائنٹ پر ہی بات کروں گا یہ نکاح گھر والوں کی مرضی سے ہوا ہے یہ نکاح اس لیے جلدی کیا گیا کہ کہی میں وہاں جا کر شادی نہ کر لوں اور اب اس نکاح کہ بندھن میں باندھ کر بھیجا جا رہا ہے کہ مجھے یہ یاد رہے کہ کوئی ہے جو میرا انتظار کر رہا ہے مجھے اس کے لیے لوٹنا ہے ۔۔میں نے تمہیں کبھی ایک لائف پاٹنر کی حثیت سے نہیں دیکھا تھا تم میرے لیے عفاف جیسی ہی ہو پتہ نہیں گھر والوں نے کیا سوچ کر یہ رشتہ جوڑا ہے اور پتہ نہیں اس بے جوڑ رشتے کی منزل کیا ہو گی۔۔تم بہت الگ ہو بہت سیدھی سادھی ہو میں نے کبھی بھی ایسے لائف پاٹنر کی توقع نہیں کی تھی ۔۔۔ “یشب نے دل میں مچلتی باتیں ادیرا کے سامنے رکھی۔
“کیا آپ کو نہیں لگتا ان سب باتوں کے لیے بہت دیر ہو گئی ہے اب ان سب باتوں کا کیا مطلب ہے؟ اگر آپ یہ سب باتیں مجھ سے پہلے کر لیتے تو شاید آج یہ رشتہ جڑتا ہی نہیں میں خود سب سے بات کرتی ۔۔”ادیرا نے اپنے اندر کی کفیت کو دبا کر یشب سے کہا۔
“تمہیں کیا لگتا ہے میں نے بات نہیں کی ہو گی بہت بار کی ہے لیکن کسی نے میری نہیں سنی تم سے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن بات کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں ملا ۔۔”اس نے جواب دیا۔
“تو اب آپ کیا چاہتے ہیں ۔۔”ادیرا نے سپاٹ سے لہجے میں کہا۔
میں آج شام کو امریکا جا رہا ہوں ہائیر اسٹڈیز کے لیے اور ادھر جو اپنے بزنس کی برانچ ہے اس سے میں ڈیل کروں گا اور میں نہیں جانتا کہ وہاں پر کتنی دیر لگے گی میں تمہیں انتظار کی گھڑی تهما کر نہیں جانا چاہتا تم میرا انتظار مت کرنا اس رشتے کا فیصلہ میری واپسی پر ہو گا اور کیا ہو گا میں وہ بھی نہیں جانتا ۔۔میں اب چلتا ہوں اللّه حافظ ۔۔وہ کہہ کر چلا گیا تھا۔
“اور ادیرا وہی ڈھہ گئی تھی آنسو اس کی آنکھوں سے بے مول ہو کر اس کی جھولی میں گر رہے تھے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا پل میں دنیا بدل گئی ہے یا پل میں دنیا ختم ہو گئی ہے۔ نکاح کی رات وہ شخص اسے یہ باور کروانے آیا تھا کہ وہ اس کا نہیں ہے وہ اس کو انتظار کی نوید سنا کر کہہ رہا تھا کہ وہ اس کا انتظار نہ کرے۔ “
ماضی کی اک بوسیدہ یاد تھی جو اس کے وجود کا حصّہ بن گئی تھی ۔۔۔”تو اب پانچ سال کے بعد اب آپ کی واپسی ہو گی اور اسی واپسی پر ہمارے رشتے کا خلاصہ بھی ہو گا اور اب دیکھتے ہیں زندگی کہاں لا کر کھڑا کرے گی ۔۔”ادیرا یشب کے تصور سے مخاطب تھی۔
رات کا کھانا کھا کر فاطمہ بیگم بھی اپنے بچوں کے ساتھ چلی گئی تھی آبص بھی اپنے گھر چلا گیا تھا ادیرا بھی دادا جان کو میڈیسن دے کر اپنے کمرے میں آ گئی تھی ۔۔اس نے نماز ادا کی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ ۔۔”یا اللّه میں نہیں جانتی آنے والا کل اپنے ساتھ کیا لے کر آئے گا میری بس یہی دعا ہے جو بھی ہو وہ سب کے حق میں بہترین ہو ۔”
نماز ادا کر کہ وہ سونے کے لیے لیٹی تھی لیکن نیند اب کہاں آنی تھی ساری رات اس کی آنکھوں میں ہی کٹنی تھی۔
٭٭٭٭٭
گڈ مارننگ بھابھی ۔۔۔غازہ نے کچن میں قدم رکھتے ہی اپنی بھابھی کو مارننگ وش کی جو ناشتہ بنانے میں مصروف تھی۔
السلام علیکم ! ساریہ نے سلام کیا جس پر اس نے بھی سلام کا جواب دیا ۔۔بھابھی آج میں بھی کھانا بنواؤں آپ کے ساتھ ۔۔مجھے بھی پراٹھا بنانا سیکھنا ہے اس نے بھابھی سے التجائی انداز میں کہا۔
ہاں کیوں نہیں تم ضرور سیکھو بس دو منٹ رک جاؤ انکل اور فراز کو آفس کے لیے نکلنا ہے تو ان کا ناشتہ تیار کر کے پھر میں تمہیں بنانا سکھاتی ہوں ۔۔ساریہ نے پراٹھے کو پلٹتے ہوئے کہا جس پر غازہ نے بھی حامی بھر لی۔
“بھابی آج میرا انٹر کا رزلٹ آنے والا ہے “غازہ نے نروس ہوتے ہوئے کہا۔
تو گھبرانے کی کیا بات ہے مجھے پورا یقین ہے تمھارا رزلٹ بہت اچھا آئے گا بس تم اچھے کا ہی گمان کرنا ۔۔ساریہ نے مصروف سے انداز میں کہا۔
جی بھابی سب بہتر ہی ہو گا بس ویسے ہی تھوڑی سی عجیب حالت ہو جاتی ہے رزلٹ پر ۔۔۔اسی لیے سوچا خود کو بزی رکھتی ہوں تو دیہان ادھر نہیں جائے گا۔
ہاں یہ بھی ٹھیک ہے میں یہ ناشتہ باہر دے کر آتی ہوں تم تب تک پیڑا بناؤ پراٹھا بنانے کے لیے ۔۔۔ساریہ کہتے ہوئے باہر ڈائننگ پر ناشتہ لگانے لگی جہاں سب ناشتے کا ہی انتظار کر رہے تھے۔
“یہ گول کیوں نہیں ہو رہا ؟”۔۔غازہ پیڑا بنانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ اس سے گول نہیں ہو رہا تھا۔
لاؤ میں بتاتی ہوں کیسے بناتے ہیں ساریہ نے اس سے آٹا لیتے ہوئے کہا ۔۔ دیہان سے دیکھنا بہت آسان ہے۔
“بھابھی آپ بھی ناشتہ کر لیتی بعد میں سکھا دیتی بنانا ۔۔”اس نے ساریہ سے کہا جو پیڑا بنا چکی تھی۔
“ہاں میں کروں گی ناشتہ لیکن وہ والا جو تم ابھی بنانے والی ہو ۔۔”اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
“لیکن میں تو پہلی دفع بنانے لگی ہوں اور پہلی کوشش میں صحیح تو نہیں بنے گا اور آپ وہی خراب کھائیں گی۔۔”اس نے تعجب سے پوچھا۔
“بنانے سے پہلے ہی تم اسے خراب کیسے کہہ سکتی ہو کیا پتہ وہ بہت اچھا بنا ہو اور جو دل سے کام کیے جاتے ہیں وہ کبھی بھی خراب نہیں ہوتے ۔۔”اس نے دوسرا پیڑا بناتے ہوئے کہا اب تم مجھے دیکھنا بناتے ہوئے جیسے جیسے میں کروں گی تم بھی ویسے ہی کرنا۔۔غازہ نے حامی بھری۔
اب یہ تیار ہے تم اسے توے پر ڈالو اور اس کے اوپر گھی ڈالو اور اسے پکاؤ ۔۔غازہ نے ہاں میں سر ہلایا اور اسے پکانے لگی۔
یہ لیں بھابھی ناشتہ اب چیک کر کے بتایں کیسا بنا ہے ۔۔غازہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا آج اس نے پہلی دفع ناشتہ بنایا تھا باقی تو گھر کے کام اس سے آنٹی کروا ہی لیتی تھی کچن کا کام اس سے نہیں کرواتی تھی اور کرواتی اس لیے نہیں تھی کہ کہی ہاتھ وغیرہ جل گیا تو اس کہ باپ کو کیا جواب دیں گی۔
اب وہ دونوں ڈائننگ ٹیبل پر آ کر بیٹھی تھی باقی سب ناشتہ کر کے اٹھ گئے تھے اب وہ دونوں اپنا ناشتہ لے کر بیٹھی تھیں۔
تم میرا بنایا ناشتہ کرو گی اور میں تمہارا بنایا کرو گی ساریہ نے اس سے کہا جس پر اس نے ہاں میں سر ہلایا۔
ساریہ نے پہلا نوالہ لیا تھا جس پر غازہ نے پرجوش ہوتے ہوئے پوچھا کیسا بنا۔
“بہت مزے کا ہے ساریہ نے مسکراتے ہوئے دوسرا نوالہ لیتے ہوئے کہا “۔۔”اچھا میں بھی چیک کرو کیسے کا بنا ہے “اس نے ساریہ کی پلیٹ سے نوالہ لیتے ہوئے کہا۔
نوالہ کھاتے ہی اس کہ منہ کہ زاویے بگڑے ۔۔بھابی یہ تو صحیح سے پکا بھی نہیں ہے اور آپ مزے سے کھا رہی ہیں ۔۔۔اس نے ساریہ کے آگے سے پلیٹ دور کرتے ہوئے کہا۔
چلو آج میں تمہیں اپنی بات بتاتی ہوں اس نے پلیٹ اپنے آگے کو کھسکائی۔
“جب میں نے پہلی دفع روٹی بنائی تھی نا تب وہ بالکل اچھی نہیں بنی تھی وہ تھوڑی سی کچی تھی اور تھوڑی سی جل بھی گئی تھی اور جب میرے بابا کو پتہ چلا تھا کہ میں نے روٹی بنائی ہے تو انہوں نے وہی روٹی کھانے کی فرمائش کی تمہاری طرح میں نے بھی ان کو کھانے سے منع کیا کہ یہ اچھی نہیں ہے آپ نہیں کھاؤ گے لیکن انہوں نے میری کوئی بات نہیں سنی اور پوری روٹی کھا گئے اور میری اتنی تعریف کی کہ میں بھی خوش ہو گئی اور مجھے میری اس پہلی کوشش پر انعام بھی دیا ۔۔اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے “بیٹا اگر یہ روٹی میں نہیں کھاؤں گا تو اگلے گھر جہاں تم جاؤں گی وہ کیسے کھائیں گے ۔۔”آج پہلی کوشش پر ایسی بنی ہے اور آگے کوشش کرتی رہو گی تو بہت اچھی بھی بنے گی اور کہنے لگے اب سے روز میری بیٹی ہی میرے لیے کھانا بنائے گی ۔۔اور میں روز صرف ان کے لیے ہی کھانا بناتی تھی باقی کا کھانا ماما ہی بناتی تھیں اور پھر آہستہ آہستہ روٹی اچھی بننے لگی ۔۔”اس نے مسکراتے ہوئے اپنی پہلی روٹی کا قصہ سنایا جس پر غازہ بھی کھلے دل سے مسکرائی اور باتوں کے دوران دونوں نے ناشتہ بھی کر لیا تھا۔
او مہارانیوں اٹھ بھی جاؤ کب سے باتیں ہی ہانکنے میں لگی ہو پورا گھر صاف کرنے والا پڑا ہے اور تم اٹھو جاؤ جا کر صفائی شروع کرو نائلہ آنٹی نے ساریہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے اٹھنے کا کہا جس پر وہ برتن اٹھاتے ہوئے کچن میں چلی گئی۔
اور تم بخار اتر گیا ہے نا تو چلو اپنی اصلی حالت میں واپس آ جاؤ جا کر میرے کپڑے استری کرو پانچ سوٹ میں اپنے استری اسٹینڈ پر رکھ کر آئی ہوں اب ان کی توپوں کا رخ غازہ کی طرف تھا اور وہ پورے جلالی موڈ میں تھیں۔۔جس پر غازہ بھی ہاں میں سر ہلا کر چلی گئی کیونکہ غازہ کا خیال تھا ان کے سامنے کچھ بھی کہنا بھینس کے آگے بین بجانے والی بات تھی۔
٭٭٭٭٭
“سر “۔۔۔ عباد کے آفس میں آتے ہی ظفر نے سلیوٹ کیا۔
“کیا رپورٹ ہے ظفر “۔۔عباد نے ظفر سے استفسار کیا۔
اس فائل میں ساری ڈیٹیلز موجود ہے سر اس نے فائل عباد کی طرف بڑھائی۔
“اور یہ کچھ سامان ہے جو وہاں سے برآمد ہوا ہے۔۔۔ ایک اور بات سر جس کار کا فورینسک کیا ہے اس کو ایک بار نہیں بلکہ دو بار ٹکڑ ماری گئی ہے ایک بار پیچھے سے ماری ہے اور جب ٹکڑ ہوئی ہے وہ کار گھومی تھی اور سڑک کے درمیان میں جا کر رکی تھی اور پھر اس کو سائیڈ سے ٹکڑ ماری گئی ہے اور اسی وجہ سے کار کی اتنی بری حالت ہوئی ہے ۔۔باقی ساری ڈیٹیلز اس فائل میں ہے اور فوٹوگرافز بھی ہیں آپ اچھے سے پڑھ لیں “۔۔۔ظفر نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
“ہمم ۔۔۔تو میرا شک بالکل ٹھیک نکلا یہ کوئی اکسیڈنٹ نہیں تھا بلکہ سوچی سمجھی سازش تھی۔”
“اور سر اس سامان میں ایک ٹوٹی ہوئی پلیٹ بھی ملی ہے جو اس کار کی نمبر پلیٹ سے بالکل بھی میچ نہیں کرتی ہے” ظفر نے اس سامان سے نمبر پلیٹ نکالتے ہوئے کہا۔
اوکے ظفر اب تم ایک کام کرو یہ نمبر پلیٹ لے کر جاؤ اور جتنی بھی اس ایریا میں کار شاپس ہیں وہاں جا کر پتہ لگاؤ کچھ ملتا ہے یا نہیں عباد نے ظفر کو کہا جس پر وہ سلیوٹ مارتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
“جتنی کھلی ہوا میں تم نے سانس لینی تھی لے لی اب تم اپنی الٹی گنتی شروع کر دو کیوں کہ اب تو میں تمہیں بالکل بھی چھوڑنے نہیں والا۔۔۔”عباد نے سر کرسی پر گراتے ہوئے غصّے سے مٹھیاں بھینچی اور اس قاتل کے تصور سے مخاطب ہوا۔
“چار سال پہلے جہاں قہقہوں کی گونج گونجتی تھی اب وہاں سناٹوں کا گھر آباد تھا چار سال پہلے دفتر سے واپسی پر عمر صاحب کی کار کو بڑی بے رحمی سے کچلا گیا تھا جس کو اکسیڈنٹ کا نام دے کر ڈھانپ دیا گیا تھا تب عباد نے نئی نئی پولیس فورس جوائن کی تھی اور تب اس کیس پر کسی نے بھی اسے کام نہیں کرنے دیا تھا اور اب وہ سب سے خفیہ اس کیس کی کاروائی شروع کر چکا تھا۔۔اب وہ سینئر رینک پر ایس پی آفسر تھا اب وہ پہلے سے زیادہ مضبوط تھا ۔۔وہ ایک محنتی انسان تھا اور اپنی اس محنت کے بلبوتے پر اس نے یہ رینک جلد ہی حاصل کر لیا تھا ۔۔اور اب اس کا پختہ ارادہ تھا کہ وہ قاتل کو پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالے گا۔”
٭٭٭٭٭
بھابھی بھابی ۔۔۔غازہ خوشی سے چلاتے ہوئے بھابھی کو آوازیں لگا رہی تھی جو لاؤنج میں ڈسٹنگ کرنے میں مصروف تھی ۔۔اس کے ہاتھ سے ڈسٹنگ کا کپڑا لیتے ہوئے اس نے دور پھینکا اور ساریہ کو بازؤں سے پکڑ کر گول گول گھومانے لگی ۔۔۔”بھابھی میرا رزلٹ آ گیا ہے اور آپ کو پتہ میرے ناینٹی فور پرسنٹ مارکس آئیں ہیں ۔۔۔”غازہ نے پرجوش انداز میں کہا خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔
“ماشااللّه بہت بہت مبارک ہو یہ تو بہت بڑی خوش خبری ہے “اس نے اس کی خوشی میں خوش ہوتے ہوئے کہا۔
“بھابھی میں بہت خوش ہوں اب میرا میڈیکل میں میریڈ پر داخلہ ہو گا میں بہت خوش ہوں آآ آ آ ۔۔۔۔۔۔ “وہ بھابھی کو چھوڑ کر اب خود گول گول گھوم رہی تھی۔
ارے او بی بی یہ کیا تماشا لگایا ہوا ہے تم نے کیوں اتنا شور مچایا ہے۔۔آنٹی شور کی آواز سن کر باہر آئی۔
وہ آنٹی میرا رزلٹ آ گیا ہے اور میں ۔۔۔ابھی وہ بات کر ہی رہی تھی کہ آنٹی بیچ میں بول پڑی ۔۔۔بس بس ٹھیک ہے رزلٹ آ گیا تو اس کا مطلب گھر سر پر اٹھا لو تم ۔۔اب بہت پڑھ لیا تم نے اور اتنا پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ساریہ کی طرح تم نے بھی ہانڈی روٹی ہی کرنی ہے جو کہ سب کرتے ہیں اب کوئی اچھا سا رشتہ دیکھ کر تمھارے ہاتھ پیلے کرتی ہوں۔
“آنٹی وہ صرف پاس نہیں ہوئی بلکہ اس کے بہت اچھے نمبر آئے ہیں اور وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے ساریہ اس کی حمایت میں بولی۔
بس بس کوئی ضرورت نہیں ہے فضول خرچ کرنے کی اندازہ بھی ہے کتنے پیسے ضائع ہوتے ہیں اس ڈاکٹری کہ چکروں میں اب باپ پر اور بوجھ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے اور ویسے بھی ان کی صرف تم ہی ایک اولاد نہیں ہو اور بھی دو اولادیں ہیں اور اب ان کے سر پر ایک اور بوجھ مت ڈالنا اور کوئی ضرورت نہیں ہے ان کو بتانے کی ۔۔نائلہ بیگم نے سفاکی سے کہا۔
“میرا باپ افورڈ کر سکتا ہے ۔۔”غازہ نے غصّہ پیتے ہوئے تحمل سے کہا۔
میں نے یہ نہیں پوچھا کہ کر سکتا ہے یا نہیں میں نے یہ کہا ہے کہ تم ان سے بات نہیں کرو گی اس کا جبڑا اپنی مٹھی میں دباتے ہوئے انہوں نے چبا چبا کر کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
غازہ وہی صوفے پر ڈھے گئی جو خوشی اس کے چہرے سے جھلک رہی تھی اب اس کی جگہ آنسوؤں نے لے لی تھی۔
“تم ٹینشن نہ لو میں انکل سے خود بات کرو گی “ساریہ نے اس کو اپنے ساتھ لگایا اور تسلی دی۔
“کوئی ضرورت نہیں ہے آنٹی ٹھیک ہی تو کہہ کر گئی ہے کہ میں بوجھ ہوں ان کی صرف دو ہی اولادیں ہیں میں تو “انویزبل” ہوں کسی کو نظر ہی نہیں آتی ۔۔”وہ روتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی اور کمرا اندر سے بند کر لیا ۔
ساریہ نے تاسف سے اسے جاتے ہوئے دیکھا ۔۔اس نے ایک میسج ٹائپ کیا اور فراز کے نمبر پر سینڈ کر دیا اور اٹھ کر اپنا چھوڑا ہوا کام کرنے لگ گئی۔
٭٭٭٭٭
اوئے سارے تمیز کی چادر اوڑھ کر بیٹھو پیتھالوجی والے سر لیکچر لینے کے لیے آ رہے ہیں غازی نے کلاس میں داخل ہوتے ہوئے سب کو کہا جو ٹولیوں کی شکل میں ایسے بیٹھے تھے جیسے کلاس نہیں کوئی فن لینڈ ہو۔
دو منٹ میں ہی کلاس اصلی حالت میں واپس آ گئی تھی ۔غازیان کلاس ریپریزینٹیٹو تھا ابھی بھی وہ سر کو ہی لینے گیا تھا کیوں کہ ان کی آج دوسرے سال کی پہلی کلاس تھی۔
“گڈ مارننگ سر ۔۔۔”ساری کلاس ادب میں کھڑی ہوئی تھی۔
“گڈ مارننگ بچوں “۔۔۔”بیٹھ جاؤ اور آیندہ میرے آنے پر کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں ہے ایک ٹیچر کی عزت آپ کے دل میں ہونی چاہیے آپ کا کھڑا ہونا یہ ظاہر نہیں کرتا اپنے ٹیچر کو اچھے لفظوں میں یاد رکھا کریں اور ان کو کبھی بھی مت بھولنا زندگی کے چاہے جس مقام پر بھی چلے جانا ان کے دیے ہوئے سبق ہمیشہ یاد رکھنا کیوں کہ آج آپ جو کچھ بھی پڑھ رہے ہیں یہ انہی کی بدولت ہے “روحان مسکراتے ہوئے بچوں سے مخاطب ہوا۔
“کہتے ہیں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چائیے لیکن میں یہ بالکل نہیں کہو گا ۔۔۔کچھ چیزیں خوشی دیتی ہیں اگر انہیں پیچھے مڑ کر دیکھا جائے جیسے کہ جہاں پر آپ اپنی زندگی کا خوبصورت وقت گزارتے ہیں ابھی آپ کے پاس چار سال ہیں اور یہ چار سال بھی پر لگا کر اڑ جائے گے کرنے کو بہت کچھ ہو گا مگر ان میں سے کچھ کچھ آپ کر لو گئے اور بہت کچھ نہیں بھی ہو پائے گا لیکن جب یہاں سے جاؤ گئے بہت سی یادوں کا پٹاڑا ساتھ ہو گا جو آپ کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے کافی ہو گا یہاں سے نکل کر آپ ایک زندگی کا ایک اور سفر شروع کرو گئے اور کبھی کبھار پیچھے مڑ کر ضرور دیکھنا بہت خوشی دے گا آپ کو ۔۔۔۔ایک اور بات ہمیشہ مسکراؤ اور مسکراہٹیں پھیلاتے رہا کرو ہلکی پھلکی گفتگو سے اس نے کلاس کا آغاز کیا تھا۔
“نمبروں کی بیس پر خود کو جج مت کرنا آپ کے اچھے یا کم نمبر آپ کے فیوچر میں ایک اچھے ڈاکٹر ہونے کا فیصلہ نہیں کرتے ۔۔۔اگر بھاگنا ہے تو نالج کے پیچھے بھاگنا ۔۔میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں اس کے پیچھے بھاگنا آپ کو بہت فائدہ دے گا ۔۔میں یہ چاہتا ہوں آپ یہاں سے نکلو تو آپ کہ پاس یادوں کہ پٹاڑے کہ ساتھ ساتھ نالج کا بھی پٹاڑا ہو ۔۔تو کیا کہتے ہیں سب لوگ ۔۔”سر روحان نے کلاس سے استفسار کیا۔
“يس سر” ۔۔۔۔۔سب نے یک زبان ہو کر کہا۔
آواز سے تو لگ رہا ہے کہ بچے سمجھ گئے ہیں چلے آپ کی کلاس کے سی آر سے میں مل چکا ہوں اور اب باقی سب اپنا انٹرو دے اس کے بعد ہم اپنا کونٹینٹ سٹڈی کریں گے۔
سب نے باری باری اپنا تعارف کروایا اور پھر سر روحان نے کلاس کا آغاز کیا۔
٭٭٭٭٭
ہارن کی آواز سنائی دی تھی ۔۔ساریہ فورا سے اپنے کمرے سے باہر آئی۔
فراز آ کر سر پیچھے کو گرائے صوفے پر بیٹھا تھا ۔۔تبھی اس نے غازہ کو کچن سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا اس کی نظر بھی پر چکی تھی جو چائے لے کر اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔آپ چائے لیں گے اس نے تکلف میں پوچھا جس پر فراز نے نفی میں سر ہلایا بس پانی کا ایک گلاس چاہیے ۔۔۔لے کر آتی ہوں ۔اس نے پانی لا کر دیا پانی دے کر وہ مڑی تھی ۔۔۔ہاں سچ یاد آیا ۔۔۔بہت بہت مبارک ہو تمھارے بہت اچھے مارکس آئے ہیں ۔
“شکریہ “کہتے ہوئے وہ پھر جانے کے لیے مڑی ۔۔۔کیا بات ہے اتنا روکھا پھیکا شکریہ
وہ فراز کی بات پر مسکرائی تھی ۔۔”آپ نے بھی تو روکھی پھیکی ہی مبارک دی ہے میں نے تو بس جواب دیا ہے “اب وہ رکی نہیں تھی سیدھا اپنے کمرے میں آئی تھی آنسوؤں کا سیلاب پھر امڈ امڈ کر آ رہا تھا۔
ساریہ جو لاؤنج سے تھوڑا دور رک گئی تھی غازہ کے جانے کے بعد لاؤنج میں آئی تھی۔
فراز میں نے آپ کو غازہ کے لیے کچھ لانے کے لیے کہا تھا ۔۔اس نے آتے ہی کہا ۔۔۔یار میں تھک گیا تھا ذہن سے ہی نکل گیا اور وقت ہی نہیں نکل پایا کہ تھوڑا پہلے نکل پاتا اس نے سر کو اپنے ہاتھوں سے مسلتے ہوئے کہا۔
“وقت نکالیں”۔۔۔ “وقت سے آگے بھاگنے کی کوشش مت کریں کہی ایسا نہ ہو وقت کی رفتار آپ کو اتنا پیچھے پٹخ دے کہ پھر دوبارا اٹھتے اٹھتے وقت آپ سے بہت دور چلا جائے اور آپ کے پاس صرف پچھتاوے کی ڈگڑ ہی رہ جائے اور اس پر چلنا بہت ہی دشوار ہو سکتا ہے “۔۔۔ساریہ نے زو معنی سا کہا۔
“کیا مطلب ہے اس بات کا میں کچھ سمجھا نہیں “۔۔۔فراز نے نا سمجھی کہ انداز میں کہا۔
“آپ بہت امیر ہیں ۔۔اس لیے نہیں کہ آپ کے پاس بہت دولت ہیں اس لیے کیوں کہ آپ کے پاس ایک بہت خوبصورت بہت انمول رشتہ ہے۔۔۔ اس کی نا قدری نہ کرے ورنہ دور تو وہ ہو رہا ہے کہی مکمل طور پر دور نہ ہو جائے ۔۔کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا ہے غازہ آپ کو بھائی نہیں بلاتی آپ سے جب بھی بات کرتی ہے آپ کو “آپ” کہہ کر ہی مخاطب کرتی ہے ۔۔ایک بھائی سے بہن کا رشتہ دور جا رہا ہے اسے دور جانے سے روک لیں ۔۔شاید وہ بہت دور نہیں گیا ہو آپ قدم بڑھا لیں اس کی طرف وہ پلٹ آئے گی “۔۔۔ساریہ فراز کو سوچ میں ڈال کر اٹھ کر کچن میں چائے بنانے چلی گئی اور جب وہ باہر آئی تو فراز اپنی کار کی چابیاں اٹھائے باہر کی طرف جا رہا تھا۔
“کہاں جا رہے ہیں اس نے پیچھے سے ہانک لگائی” ۔۔۔”قدم بڑھانے کے لیے کچھ تیاریاں تو کرنی ہی پڑنی ہے” ۔۔فراز نے پلٹتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔”اچھا رکیں میں بھی ساتھ چلتی ہوں مجھے آپ سے کچھ بات بھی کرنی ہے” جس پر اس نے مسکراتے ہوئے حامی بھر لی۔
وہ کار میں آ کر بیٹھی تو فراز نے کار بیکری کی طرف گھمائی ۔۔۔شادی کے بعد یہ پہلی بار تھا جب ساریہ فراز کے ساتھ باہر نکلی تھی۔
شاپ میں جا کر اس نے غازہ کا فیورٹ کیک آرڈر کیا اور اس پر کونگریجولیشن لکھوایا ۔۔۔اور بہت سی چاکلیٹ خریدی اور واپس کار میں آیا جہاں ساریہ اس کا انتظار کر رہی تھی ۔۔چیزیں اس نے پچھلی سیٹ پر رکھی اور ایک چاکلیٹ ساریہ کی طرف بڑھائی یہ تمھارے لیے ۔۔”میرا شکریہ قبول کرو “اس نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر اس نے مسکراتے ہوئے چاکلیٹ لی۔
اب اس نے مال کے آگے کار روکی اب وہ دونوں کار سے باہر نکل کر اندر گفٹ شاپ کی طرف بڑھے وہ دونوں گفٹ سلیکٹ کر رہے تھے ۔۔فراز کی نظر ایک پین پر پڑی تھی وہ پین گولڈن كلر میں تھا اور وہاں پر موجود سب پینز سے زیادہ خوبصورت تھا اس نے ساریہ کو بھی اس کی طرف متوجہ کیا تھا ۔۔۔واؤ یہ تو بہت خوبصورت ہے یہ غازہ کو ضرور پسند آئے گا ۔۔۔ساریہ نے ایک گھڑی پسند کی تھی وہ بھی لائٹ گولڈن كلر کی تھی دونوں نے ایک چٹ لی تھی اور اس پر کچھ لکھ کر اس کے اندر رکھ کر شاپ کیپر کو پیک کرنے کا کہہ کر وہ لوگ شاپ سے نکل کر دوسری شاپ پر چلے گئے تھے۔
“فراز اسے کپڑوں کی دکان پر لے آیا تھا ۔۔جب سے شادی ہوئی ہے میں تمہیں نہ کہی لے کر گیا ہوں اور نہ ہی کبھی شاپنگ کے لیے لے کر آیا ہوں ۔۔۔اب تم یہاں سے شاپنگ کر سکتی ہو ۔۔۔”فراز نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
لیکن اس کی ضرورت نہیں ہے میرے پاس پہلے ہی بہت سے ڈریسیز ہیں وہ تو اسی بات پر خوش ہو گئی تھی کہ فراز نے اس کے بارے میں سوچا تو صحیح۔
ہو گئے لیکن میرا دیا ہوا نہیں ہو گا ۔۔۔اب فراز خود اس کے لیے سلیکٹ کر رہا تھا ۔۔اس نے میرون كلر کا ایک ڈریس نکالا جو کرتا اور کیپری تھا جس پر گولڈن كلر کا ہلکا سا کام ہوا تھا اور شاپ کیپر کو پیک کرنے کا کہا ۔۔اس سے ایک چھوٹا سائز بھی پیک کر دی جیئے گا ساریہ نے شاپ کیپر کو کہا ۔۔وہ جی میم کہہ کر چلا گیا ۔۔۔دوسرا کس لیے فراز نے تعجب سے پوچھا۔
“دوسرا غازہ کے لیے” اس نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر وہ بھی مسکرا دیا اور بل دے کر وہ دکان سے نکل آئے اور دوسری دکان سے گفٹ لے کر ان کا رخ کار کی طرف تھا۔
“مجھے آپ سے ایک اور بات کرنی تھی غازہ کے بارے میں” ۔۔ہاں کہو اس نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے کہا۔
“وہ غازہ میڈکل میں ایڈمشن لینا چاہتی ہے صبح وہ مجھ سے بات کر رہی تھی پھر آنٹی آ گئی اور انہوں نے منع کر دیا اور کہنے لگی کہ اب وہ اس کی شادی کرے گیں ۔۔۔فراز ابھی وہ بہت چھوٹی ہے وہ بہت معصوم ہے وہ اتنی جلدی شادی کی زمیداری نہیں اٹھا سکتی صبح سے اس نے خود کو کمرے میں بند کر کے رکھا ہے اور روۓ جا رہی ہے ۔۔میں چاہتی ہوں آپ اس کو اعتماد میں لیں اسے اتنا یقین دلائے کہ اس کی مرضی کہ بغیر کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔۔”ساریہ نے ایک سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے کہا جس پر اس نے حامی بھر لی۔
“وہ سوچ رہا تھا کتنی عجیب بات ہے جو باتیں بہن کی مجھے بتانی چاہیے تھی وہ مجھے ساریہ بتا رہی ہے میں واقع ہی اپنی بہن سے بہت دور آ گیا ہوں۔۔۔” سگنل پر کار آ کر رکی تھی تبھی فراز کی نظر باہر ایک بچے پر پڑی جس کے ہاتھ میں بلونز تھے وہ کار سے باہر نکلا اور اس بچے سے سارے بلونز خرید لیے اور انھیں لیے واپس آ گیا۔
ساریہ حیرانگی سے ان کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔”غازہ کو بلونز بہت پسند ہیں”۔
کار پورچ میں آ کر رکی تھی سامان نکال کر وہ دونوں کچن کی طرف گئے تھے۔
کیک کو ٹرے میں نکالا اور ایک چھڑی لی اور ایک کینڈل جلا کر وہ دونوں غازہ کے کمرے کی طرف گئے۔
فراز نے دروازہ ناک کیا۔
غازہ نے دروازہ کھولا تو سامنے کوئی بہت سارے بلونز لے کر کھڑا تھا اس کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔غازہ نے مسکراتے ہوئے بلونز ہٹائے تھے اور سامنے فراز کو کھڑا پایا۔
“آپ” ۔۔۔۔ فراز کو اس کا آپ کہنا چبا تھا پھر بھی مسکراتے ہوئے وہ دونوں اندر آئے تھے اور اسے اچھے سے وش کیا۔
فراز نے ٹیبل سیٹ کیا اس پر کیک سیٹ کیا اور بلونز کو بھی اسی ٹیبل پر سیٹ کیا۔
تھوڑی وزنی چیز لے کر فراز نے ان غباروں کے دھاگوں پر رکھی تھی تا کہ بلونز اڑ نہ جائے
غازہ تو حیرانی سے یہ منظر دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کیا وہ سب اس کے لیے ہے۔
“آؤ گڑیا “۔۔۔فراز نے اپنے بازو وا کیے تھے غازہ کو آنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔اس نے بھی ذرا دیر نہیں لگائی تھی جیسے وہ اسی کے انتظار میں ہو ۔۔۔وہ آ کر اپنے بھائی سے لپٹ گئی تھی برسوں بعد اس نے یہ سکون محسوس کیا ۔۔وہ زاروقطار رونے میں مصروف تھی ۔۔۔بس کر دو گڑیا آج تو خوشی کا موقع ہے اور تم غلط وقت پر رو رہی ہو وہ دیکھو تمہاری بھابھی بھی رونے کا پروگرام بنا رہی ہے فراز کی بات پر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا آنکھوں سے آنسو صاف کیے اور مسکرائی ۔جہاں ساریہ بھائی بہن کے ملن کی ویڈیو بنانے میں مصروف تھی آنکھیں اس کی بھی نم تھیں مگر ہونٹوں پر زندگی سے بھر پور مسکراہٹ تھی۔ غازہ نے ساریہ کو بھی گلے لگایا۔
فراز نے کیمرا سیٹ کیا اور ایک جگہ پر رکھ کر اب دونوں نے غازہ کے ساتھ مل کر کیک کاٹا اور ایک دوسرے کو کھلایا جو فراز اور ساریہ گفٹ لائے تھے وہ بھی غازہ کو دیے ایک دوسرے کہ منہ پر کیک لگا کر غازہ نے اپنے فون میں سیلفیز بھی لی۔۔۔ یہ منظر کیمرے کی آنکھ نے بھی محفوظ کیا۔
بھائی آج میرا یہ سب سے اسپیشل دن تھا ایون یہ میری زندگی کا سب سے خوبصورت دن تھا میں اس کو ہمیشہ یاد رکھوں گی اس نے مسکراتے ہوئے دونوں کو ہگ کیا ۔۔بس میری بہن کے چہرے سے یہ مسکراہٹ کبھی غائب نہیں ہونی چاہیے اگر کبھی بھی کوئی بھی مسلہ ہو تو تم سیدھا اپنے بھائی کے پاس آؤ گی اوکے ۔۔۔فراز نے تصدیق چاہی جس پر اس نے ہاں میں سر ہلایا۔
“چلو اب میں چلتا ہوں تم بھی آرام کرو ۔۔ہاں ایک اور سرپرائیز ہے میری بہن کے لیے”
“کیسا سرپرائیز “۔۔غازہ نے تجسس میں پوچھا۔
“پتہ چل جائے گا بہت جلد” ۔۔۔وہ کہتے ہی کمرے سے باہر چلا گیا۔
غازہ نے ساریہ کی طرف دیکھا جس نے کندھے اچکائے ۔۔۔غازہ نے ساریہ کو ایک بار پھر سے گلے لگایا ۔۔”میں جانتی ہوں بھابھی یہ آپ کی وجہ سے ہی ہوا ہے ۔۔شکریہ بھابھی ۔۔۔یہ دن میری زندگی کا ایک نمایا دن ہے سب دنوں سے مختلف “۔۔اس نے خوشی میں جھومتے ہوئے کہا۔
“میری وجہ سے کچھ نہیں ہوا یہ دن تمہاری زندگی میں لکھا تھا پھر یہ دن یادگار ہونا ہی تھا۔”
ہم سب کو بس تمھارے چہرے کی مسکراہٹ چاہیے اور کچھ نہیں ۔۔اور اگر کبھی زندگی میں تم اداس ہوئی بھی تو تم اس دن کو یاد کرنا اور دل کھول کر مسکرانا “۔۔ساریہ نے ابھی کی بنائی ہوئی ویڈیو غازہ کہ نمبر پر سینڈ کرتے ہوئے کہا جس پر غازہ مسکرائی تھی ۔۔ساریہ اسے پیار کر کہ چلی گئی تھی۔
“غازہ نے بلونز کو آزاد کیا تھا وہ چھت سے جا کر ٹکرائے تھے اور ان لٹکتے دھاگوں کے بیچو بیچ وہ گھوم رہی تھی ۔۔۔یا اللّه پاک شکریہ بہت بہت شکریہ ۔۔۔شکریہ آپ نے یہ خوبصورت دن میری زندگی میں لکھا ۔۔۔۔اتنا بڑا شکریہ ۔۔اس نے بازو کھولتے ہوئے خوشی سے چینختے ہوئے کہا ۔۔۔آج اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔۔انہی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے تو وہ ترستی تھی ۔۔۔۔کہی بہت دور کھڑی زندگی اور قسمت دونوں مسکرائی تھیں”۔
٭٭٭٭٭
شام کو لاؤن میں بیٹھی ينگ جنریشن موسم کا مزہ لے رہی تھیں ۔۔یار آج والے سر کتنے کول تھے نا مطلب ایسے ہمارے پورے کیریئر میں آج تک کسی ٹیچر نے بھی بات نہیں کی ہم سے۔۔۔ارے او ابھی کہا ہمارا کیریئر بنا ہے آیت کی بات کو بیچ میں کاٹ کر غازیان نے اس کہ سر پر چپت لگاتے ہوئے کہا۔
“تو سر پر مارنا ضروری تھا تمیز سے نہیں بول سکتے تھے میری بات کا مطلب تو سمجھ ہی گئے تھے نا تم ۔۔اور اب آگے سے تم نے اپنے ہاتھوں کا استعمال میرے بال خراب کرنے کے لیے کیا نہ تو میں نے یہ جو تمہارا گلشن ہیں نہ اسے میں نے اڑا دینا ہے اور تم جانتے ہو میں ایسا کر سکتی ہوں” ۔۔۔آیت نے اس کہ بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اور تم جانتے ہو میں ایسا کر سکتی ہوں غازی نے اس کی نقل اتارتے ہوئے کہا جس پر اس نے منہ بسورا اور عفاف سے بات کرنے لگ گئی ۔۔۔اتنے میں ادیرا اور زوریز بھی وہاں پر چائے اور کچھ کھانے کا سمان لے کر آ گئے۔
اور تمہیں پتہ وہ ایجڈ بالکل نہیں تھے بالکل ینگ لگ رہے تھے اور ان کے پڑھانے کا انداز بھی ایسا تھا جیسے بہت سارا ایکسپیرینس ہو ان کو پڑھانے کا ۔۔اور میں نے سنا تھا وہ کسی ہسپتال میں پریکٹس بھی کرتے ہیں ۔۔۔اور انہوں نے اپنے تعارف میں صرف اپنا نام بتایا اور اپنی کوالیفیکیشن اور اپنی تعریف کے راگ نہیں آلاپے ۔۔وہ سب سے مختلف تھے ۔۔۔آیت نے عفاف کو بتاتے ہوئے کہا جس پر غازی نے بھی اس کی اس بات سے اتفاق کیا۔
کیا پتا وہ سچ میں ایجڈ ہو اور اپنے آپ کو فٹ رکھا ہو عفاف نے بھی تجسس میں جواب دیا۔
“ارے نہیں وہ واقع ہی ينگ ہیں کوئی انتیس سال کے ہو گئے اور میں نے ڈیپارٹمنٹ سے سنا تھا وہ یہاں سے ہی پڑھ کر گئے ہیں اور ٹاپڑ رہ چکے ہیں اور ان کی قابلیت کی وجہ سے ہی انہیں ریکویسٹ کر کے واپس بلایا گیا ہے ۔۔”غازی نے بھی مزید گفتگو میں حصہ لیا۔
“تو یہ بات تم مجھے پہلے نہیں بتا سکتے تھے یہاں میں تجسس میں ہی مر جاتی ۔۔”آیت نے غازی کو چٹکی کاٹتے ہوئے کہا۔
“ہاں تو اچھا ہی ہے زمین کو بھی سانس آ جاتی “۔۔غازی کی اس بات پر ادیرا نے اس کو ڈانٹا تھا ۔۔ایسی باتیں غلطی سے بھی منہ سے مت نکالا کرو کوئی بھی وقت قبولیت کا ہو سکتا ہے ادیرا کو غازی کی بات بری لگی تھی۔
“کچھ صفات ہمیں اللّه تعالّی کی طرف سے تحفے میں ملی ہوتی ہیں جن کو تلاشنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی وہ خود با خود ہمیں نظر آنے لگتی ہیں اور کچھ کو ہمیں تلاش کرنا پڑتا ہے اور ان کو تلاشنے کا سفر آسان بھی نہیں ہوتا ہو گا بعض اوقات جو ہمارے اندر خوبیاں موجود ہوتی ہیں وہ دوسروں کو نظر آ جاتی ہیں اور ہم ان سے انجان ہی رہتے ہیں اور کوئی دوسرا ہمیں ہماری خوبیوں سے آشنا کرواتا ہے جیسے کہ ہماری ادیرا ہے کوئی بھی اس سے بات کرے تو الفاظ سیدھا لوگوں کے دلوں میں اتر جاتے ہیں ویسے ہی تم لوگوں کہ وہ سر ہو گے جن کا پڑھانے کا انداز ایسا ہو گا جو ان کو سب سے منفرد بناتا ہو گا”۔۔۔۔۔ زوریز نے اپنی بہن کو غصّے میں دیکھتے ہوئے ٹاپک چینج کیا۔
“یہ سال ان کی سنگت میں بہت اچھا گزرنے والا ہے ہم ان سے نالج کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ سیکھیں گے” ۔۔آیت نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
اچھا یہ سب چھوڑوں یہ بتاؤ کہ ہم لوگ شادی کی شاپنگ پر کب جا رہے ہیں ؟۔۔عفاف نے کرسی آگے کو کرتے ہوئے پوچھا۔
“جس کی شادی ہے اس کو بھی تھوڑی سی اکسایٹمنٹ دیکھا لینے دو زوریز نے اس پر چوٹ کی۔
رہنے دو تمہاری بہن تو صدا کی بورنگ انسان ہے اسے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ اسے شادی میں کوئی انٹرسٹ ہی نہیں ہے۔
بس رہنے دو میری بہن کے بارے میں الٹے سیدھے لفظ بولنے کی ضرورت نہیں ہے اس وقت ایک لڑکی کی کیا حالت ہوتی ہو گی وہ فیلنگ تمہیں کونسا آ رہی ہو گی ۔۔زوریز نے ادیرا کو اپنے ساتھ لگایا جس پر اس کی آنکھیں نم ہوئی آیت نے بھی آ کر دونوں کے گرد بازو پھیلائے۔
غازی نے اپنا فون نکالا اور یہ منظر کیپچر کیا جس میں عفاف بھی غازی کے ساتھ کھڑی تھی اور پیچھے تینوں بہن بھائی کا ایموشنل سین چل رہا تھا ۔۔ جس پر ہیش ٹیگ اموشنل سین ہیش ٹیگ رخصتی اور ہیش ٹیگ اپنے آنسو بیدائی کے لیے بچا لو ۔۔۔کپشن لکھ کر غازی نے تصویر کزن گروپ میں سینڈ کر دی۔
٭٭٭٭٭
فراز میں نے آپ کو بتایا تھا نہ کے ماما اور بھائی آئے تھے مجھے لینے تب میں نے منع کر دیا تھا غازہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ۔۔تو اب میں سوچ رہی ہوں کہ کل چلی جاؤں اور غازہ کو بھی میں اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتی ہوں وہ بھی تھوڑا سا فریش ہو جائے گی آپ کل صبح آفس جاتے ہوئے چھوڑ دے گئے ۔۔۔ساریہ نے بستر ٹھیک کرتے ہوئے فراز سے کہا جو صوفے پر بیٹھا شاید کوئی فائل پڑھ رہا تھا۔
“صبح جانا ہے۔۔۔” اس نے فائل بند کرتے ہوئے پوچھا جس پر ساریہ نے سر ہلاتے ہوئے حامی بھری۔
“ٹھیک ہے چھوڑ دوں گا لیکن کتنے دن کے لیے جاؤ گی “۔۔۔اس نے مزید پوچھا۔
ماما تو کہہ رہی تھیں کہ ایک مہینے کے لیے آنا لیکن میں ایک ہفتے تک واپس آ جاؤں گی اس نے اپنا سامان پیک کرتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔لیکن غازہ بھی ایک ہفتہ وہی رہے گی کیا ؟اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
ہاں وہ میرے ساتھ ہی رہے گی اور ویسے بھی ایک ہفتہ کوئی زیادہ نہیں ہے اور وہاں پر آیت غازی لوگوں سے بھی مشورہ کر لے گی کہ آگے کس کالج میں ایڈمشن لینا چاہیے۔۔۔اس نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا اور غازہ کو دیکھنے کا کہہ کر وہ باہر چلی گئی۔
میں اپنی بہن کو تمہارے ساتھ بھیجتے ہوئے فکر مند نہیں ہوں مجھے پتا ہے تم کو اس کی فکر مجھ سے بھی زیادہ ہے ۔۔تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں تم نے مجھے ایک بہت خوبصورت رشتے سے دور جانے سے بچا لیا ۔۔۔۔آہ ہ ہ میں فضول چیزوں کے پیچھے بھاگ رہا تھا اصل خوشی تو میں نے آج جئی ہے اس کے لیے شکریہ ساریہ ۔۔اس نے ساریہ کو تصور میں لاتے ہوئے کہا اور ایک لمبی سانس ہوا کہ سپرد کی۔
ساریہ غازہ کہ کمرے میں آئی تو وہ سو رہی تھی زندگی سے بھر پور مسکراہٹ اس کے چہرے سے عیا ہو رہی تھی وہ بہت پرسکون انداز میں سوئی ہوئی تھی ۔۔۔وہ اسے ایسے پر سکون دیکھ کر مسکرائی تھی اس کے اوپر بلینکٹ درست کر کہ وہ اس کی پیکنگ کرنے لگ گئی ۔۔اور جو ڈریس وہ آج لے کر آئی تھی اسے صوفے پر رکھ کر اس نے ایک سٹکی نوٹ چپکایا تھا جس پر لکھا تھا جب اٹھو تو اسے پہن کر صبح ڈائننگ ٹیبل پر آٹھ بجے پہنچ جانا ۔۔اور خود وہ بھی کمرے سے چلی گئی تھی۔
٭٭٭٭٭
“بس کر دیں بیٹا جی اب اور نہیں چلا جا رہا “۔۔دادا جی نے ادیرا سے واک ختم کرنے کا کہا ۔
ٹھیک ہے تھوڑی دیر بیٹھ جاتے ہیں اس نے دادا جان کو بینچ پر بیٹھاتے ہوئے کہا۔
جس دن ادیرا کو چھٹی ہوتی تھی وہ لوگ پارک میں زیادہ دیر کے لیے رکتے تھے ابھی بھی وہ واک کر کے تھک گئے تھے اسی لیے آرام کی غرض سے بیٹھ گئے۔
بیٹا جی آپ خوش ہو نا اس شادی سے ۔۔۔دادا جی نے ادیرا سے استفسار کیا۔
آپ بتائیں آپ خوش ہیں ادیرا نے الٹا سوال کر ڈالا ۔۔۔بیٹا یہاں پر میری خوشی کی بات نہیں ہو رہی آپ کی بات ہو رہی ہے۔
“میں آپ لوگوں سے علیحدہ نہیں ہوں میری خوشی آپ لوگوں سے منسلک ہے اگر آپ لوگ خوش ہے تو میں بھی بہت خوش ہوں اس نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر دادا جان بھی مسکرا دیے۔”
چلیں پھر تھوڑی سی واک کرتے ہیں اس کے بعد گھر چلیں گے اس نے اٹھتے ہوئے دادا جان کو کہا۔
بس اب گھر چلتے ہیں ویسے بھی واک ہی ہونی ہے دادا جان نے اٹھتے ہوئے کہا۔
دادا جان آپ کی رپورٹس میں امپروومنٹ آئی ہے اور اب آپ لا پروائی مت کیا کریں اور اگلے چیک اپ کے لیے میں آپ کے ساتھ جاؤ گی ۔۔آج کے لیے معاف کرتی ہوں لیکن کل دو گھنٹے لگائیں گے اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
دونوں نے گھر کی طرف قدم بڑھائے تھے۔
٭٭٭٭٭
بھابھی بھابھی وہ سیڑھیوں سے چہکتی ہوئی اتر رہی تھی اور وہی ڈریس پہنا تھا جو ساریہ رکھ کر آئی تھی۔ ساریہ نے بھی وہی ڈریس پہنا تھا وہ آ کر اس سے لپٹ گئی تھی ۔۔بھابھی ڈریس بہت پیارا ہے اور بتائیں میں کیسی لگ رہی ہوں اس نے تھوڑا پیچھے ہٹتے ہوئے پوچھا۔
“ایک دم شہزادی لگ رہی ہو “بھابھی نے اس کی گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور یہ ڈریس تمھارے بھائی لے کر آئے ہیں اس نے فراز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو ناشتہ کرنے میں مصروف تھا ۔۔نائلہ بیگم بھی وہی پر بیٹھی جل بھن رہی تھی ایک تو غازہ کی آواز ان کو زہر لگ رہی تھی اوپر سے ان دونوں نے بنا پوچھے جانے کا پلان بنا لیا اور فراز کو بھی شامل کر لیا ۔۔انہیں تو یہی ٹینشن تھی کہ گھر کے کام کون کرے گا ایک صبا ہی رہ جاتی تھی پیچھے نکمی اولاد وہ تو اٹھتی ہی بارہ بجے ہے اور ملازموں کی بھی چھٹی انہوں نے خود ہی کروائی تھی اب گھر کا سارا کام انھیں خود ہی کرنا پڑنا تھا۔
فراز نے ٹیبل پر بیٹھتے ہی ان کے جانے کا بتایا تھا جس پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا سب کے سامنے نائلہ بیگم نے بھی کچھ کہنے سے گریز ہی کیا تھا۔
ساریہ بھی اپسرا ہی لگ رہی تھی میرون كلر کہ ڈریس میں میرون ہی لپسٹک لگائے بال کھلے دوپٹہ گلے میں ڈالے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی اور سیدھا فراز کے دل میں اتر رہی تھی فراز نے بھی اسے پہلی بار ہی ایسے تیار ہوتے ہوئے دیکھا تھا ورنہ تو وہ بہت سادھے حلیے میں رہتی تھی۔ لیکن وہ کیا جانے کہ نائلہ بیگم اس کو تیار ہونے دیتی ہی نہیں تھی اس کہ ذرا سے تیار ہونے پر اس کو کتنی جھاڑ پلاتی تھی ۔۔ وہ اپنے کمرے میں اپنا بیگ لینے آئی تھی وہ چادر اوڑھ کر جب مڑی تو فراز دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کا ہاتھ تھاما تھا ۔۔ساریہ جانتا ہوں ابھی وقت نہیں ہے باتوں کا تمہاری واپسی پر ہی بات ہو گی ۔۔جلدی آنے کی کوشش کرنا پلیز ۔۔فراز نے اس کا ہاتھ دبا کر چھوڑا تھا ۔۔”اس کی آنکھوں میں کیا نہیں تھا امید کی نئی جوت تھی شاید جو وہ ساریہ کو تهما رہا تھا۔”
“آنکھوں کے راز بہت گہرے ہوتے ہیں ان کو پڑھنے کے لیے بہت اندر تک اترنا پڑتا ہے “اور فراز اور ساریہ نے تو پہلی دفع ہی شاید ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا تھا اس لیے دونوں ہی سمجھنے سے قاصر تھے۔
اب وہ دونوں کار میں آ کر بیٹھے تھے غازہ پہلے سے ہی موجود تھی سفر ہلکی پھلکی گفتگو میں کیا تھا سفر زیادہ نہیں تھا آدھے گھنٹے کا ہی راستہ تھا۔ وہ پہنچ گئے تھے فراز نے کار باہر ہی پارک کی تھی اب وہ اندر کی جانب گئے تھے سب سے ملنے کے بعد فراز اجازت لیتا ہوا وہاں سے نکل آیا تھا۔
٭٭٭٭٭
عفاف کو گاڑی چلانا آتی تھی لیکن کبھی کبھار وہ کسی کی گاڑی کو ٹکڑ مار دیتی تھی بقول عفاف کہ اس کا بیڈ لک ہوتا ہے جس دن اس سے کسی کی کار ٹھوکی جاتی ہیں سب اس کا اس بات پر مذاق اڑاتے تھے ۔۔۔جس میں غازی اور آبص پیش پیش تھے گھر والے اس کو کار چلانے ہی نہیں دیتے تھے اور آیت کو کار چلانا آتی ہی نہیں تھی ۔۔۔عفاف اور آیت کو کچھ سامان چاہیے تھا اور دونوں نے ادیرا کا سر کھا لیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ چلے جس پر وہ بہت مشکل سے راضی ہوئی تھی
اب وہ سامان خرید کر واپس آ رہی تھیں۔
ابھی گھر کہ پاس وہ پہنچی ہی تھیں اس نے ہارن بجایا ہی تھا کہ گیٹ کھل گیا وہ گاڑ ی آگے بڑھانے ہی لگی تھی کہ عفاف کی زور دار آواز پر اس نے بریک لگائی بریک اتنی زور سے لگی تھی کہ آیت جو پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی وہ آگے کو آ کر گری تھی۔
“کیا ہوا “۔۔ادیرا نے حیران ہوتے ہوئے اس کے اتنے زور سے بولنے کی وجہ دریافت کی جس پر وہ کوئی بھی جواب دیے بغیر اتر گئی اور سامنے والے گھر میں چلی گئی۔
یہ آنٹی کی طرف کیوں گئی اور وہ بھی ایسے گاڑی کو رکوا کر کچھ نہ کچھ تو اس کہ دماغ میں چل رہا ہونا ۔۔ایک کام کرو تم جاؤ اندر میں ذرا پتا لگا کر آتی ہوں ۔۔آیت نے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے ڈیٹیکٹو انداز میں اس سے کہا جس پر اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کار اندر بڑھائی۔
آنٹی میری پیاری آنٹی ۔۔۔وہ آنٹی کو آوازیں دیتی ہوئی لاؤنج میں داخل ہوئی کہ اس کی نظر ڈائننگ ٹیبل پر پانی رکھتی ہوئی ساریہ پر پڑی۔
“ساریہ “۔۔۔اس نے چیختے ہوئے ساریہ کو پکارا اور دوڑ کر آئی اور اس سے لپٹ گئی تم سچ میں آ گئی ہو نہ یا میں خواب میں ہوں۔
آ آ آ ۔۔۔ساریہ نے اس کہ چٹکی کاٹی جس پر وہ اس سے علیحدہ ہوئی ۔۔۔اب آ گیا یقین ساریہ نے اس سے پوچھا۔
“ہاں ہاں ۔۔۔آ گیا یقین وہ پھر اس کے گلے لگ گئی ۔۔۔میں بھی کہوں ایسی کونسی کشش اور خوشبو ہے جو میرے قدم اس گھر کی طرف بڑھنے سے رک ہی نہیں رہے ۔۔”عفاف نے ڈرامائی انداز میں کہا۔
“جھوٹ بول رہی ہے یہ اس کو آپ کی نہیں بلکہ بریانی کی خوشبو کھینچ کر لائی ہے ۔۔”آیت نے عفاف کے اوپر سے ہی ساریہ کو ہگ کیا۔
“جانتی ہوں میں اس نوٹنکی کو ۔۔اور بتاؤ کیسی ہو تم لوگ” اس نے ان دونوں سے پوچھا۔
ہماری چھوڑو تم بتاؤ تم کیسی ہو تم تو اپنے میاں اور سسرال والوں کو اتنی پیاری ہو گئی ہو کہ پیچھے مڑ کر تم نے دیکھنا ضروری نہیں سمجھا ۔۔اس نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
آج پیچھے مڑ کر ہی تو دیکھنے آئی ہوں اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
آپی آپ بہت پریڈی لگ رہے ہو آیت نے بھی گفتگو میں حصہ لیا جس پر وہ مسکرا دی۔
اب اگر ملن ختم ہو گیا ہو تو کھانا کھا لیں رافعیہ بیگم نے وہاں آتے ہوئے کہا۔
“ہاں بالکل کھاتے ہیں ویسے بھی بریانی کو زیادہ انتظار نہیں کرواتے اگر ٹھنڈی کر کہ کھائیں گے تو بچاری کی توہین ہو جائے گی “۔۔عفاف نے چیئر پر بیٹھتے ہوئے بریانی اپنی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔۔جس پر سب مسکرا دیے کیوں کہ عفاف میڈم کی جان بریانی میں بستی تھی۔
آو غازہ ۔۔ساریہ نے غازہ کو سیڑھیاں اترتے ہوئے دیکھا تو اسے اپنے پاس بلایا جو واشروم تک گئی تھی۔
غازہ نے وہاں آتے ہی سلام کیا ۔۔ساریہ نے اس کا تعارف کروایا۔
ہاں شادی پر ملاقات ہوئی تھی لیکن صرف رشتہ کی حد تک ہی تعارف قائم ہے اب جاننے کا موقع ملے گا اس نے اٹھ کر اسے بھی گلے لگایا تھا پھر آیت بھی اس سے ملی تھی۔
“غازہ صرف تمہارے لیے میں نے بریانی کو تین سیکنڈ کے لیے اگنور کیا ہے ورنہ لوگوں کو مجھ سے ملنے کے لیے لائینوں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔۔”عفاف لمبی لمبی چھوڑتے ہوئے دوبارہ بیٹھ گئی غازہ بھی اس کی بات پر مسکرا دی۔
سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے تھے سب نے ابھی پلیٹ میں بریانی نکالی تھی اور عفاف نے ایک پلیٹ ختم بھی کر لی تھی اس نے دوبارہ بریانی ڈالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ آیت نے اس کا بازو بیچ میں ہی اچک لیا اور اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
ہم اپنے گھر میں نہیں بیٹھے تھوڑا تمیز کے دائرے میں رہ کر کھا لو سامنے مہمان بیٹھے ہیں وہ کیا سوچیں گے۔
اپنا ہی گھر ہے کیوں آنٹی جی اور کونسے مہمان ہیں آنٹی آپ کے گھر کوئی مہمان آئیں ہیں آپ نے بتایا ہی نہیں اور وہ ہمارے ساتھ کھانا کیوں نہیں کھا رہے ۔۔عفاف نے لہجے میں حیرانی سموتے ہوئے سیدھا آنٹی سے ہی پوچھ لیا۔
ہاں اپنا ہی گھر سمجھو اور کوئی بھی مہمان نہیں ہیں سب اپنے ہی لوگ ہیں اچھے سے کھانا کھاؤ ۔۔آنٹی نے اس کو تسلی سے کھانا کھانے کو کہا۔
آیت اپنا سر مسلتی ہی رہ گئی اور عفاف سے بات کرنا اسے فضول ہی لگا اس لیے چپ چاپ اس نے کھانا کھانا ہی مناسب سمجھا۔
“آنٹی بریانی کا مزہ ہی آ گیا بڑے مزے کی بنی ہے ۔۔مجھے تو صرف دو لوگوں کے ہاتھ کی ہی بریانی زیادہ مزے کی لگتی ہے اور آپ دوسرے نمبر پر ہے آپ کے ہاتھوں کی بریانی کسی ایوارڈ کی محتاج ہی نہیں ہے ۔۔”اس نے بریانی کھاتے ہوئے تعریفوں کے پل باندھے۔
“اور یہ بھی بتا دو پہلے نمبر پر کون ہے ؟”ساریہ نے اس سے استفسار کیا۔
“پہلے نمبر پر ۔۔۔پہلا نمبر تو میرا ہی ہے میرے جیسی بریانی کوئی نہیں بنا سکتا جیسی مجھے پسند ہے میں ویسی ہی سپائیسی بریانی بناتی ہوں آپ کو بھی کھلاؤ گی کسی دن ۔۔دیکھنا آپ کو بھی پسند آئے گی ۔۔”اس نے خود کو ہی نمبر ون رکھتے ہوئے جواب دیا۔
“Self praise is no recommendation.”
آیت نے عفاف سے کہا۔
“لو جی اب انسان میں ایک چیز اگر اچھی ہے تو وہ اس کا اظہار بھی نہ کرے ایسے تو اس انسان کی خوبیوں سے سب نا واقف ہی رہ جاتے ہو گے اس میں میاں مٹھو والی کونسی بات کی ہے میں نے سب کو آگاہ ہی تو کیا ہے ۔۔دیکھنا ایک دن تم بھی میری اس خوبی کو سراہوں گی ۔۔”اس نے اتراتے ہوئے کہا۔
اچھا خیر چھوڑو یہ سب ۔۔۔تم بتاؤ اب یہی ہو نا کچھ دن کہ پھر سے بھاگنے کا پلان ہے اس نے ساریہ سے پوچھا۔
“ہاں ادھر ہی ہوں ابھی کچھ دن تک ۔۔”ساریہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا ۔
“ہممم رہنا بنتا بھی ہے تمہارا شادی کے بعد تو تمہارا دیدار میں آج ہی کر رہی ہوں ۔۔”اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا تھوڑی دیر بعد وہ جانے کے لیے اٹھی۔
چلو اب ہم چلتے ہیں کل پھر ملاقات ہو گی کل سب اکٹھے ہوں گے ۔۔۔آنٹی بریانی سچ میں بہت مزے کی ہے میں تو ابھی اور بھی کھانا چاہتی تھی پر یہ آیت کی گندی نظر جو میری بریانی پر ٹکی ہوئی ہے یہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے بعد میں ڈائجسٹ کرنے میں بھی مسلہ ہو گا اور آپ کے اس پیٹو بیٹے نے بھی تو کھانی ہو گی ۔۔اس کا ذکر کرتے ہوئے اس کا حلق تک کڑوا ہوا۔
“ویسے لوگ اپنی مثال دیتے ہوئے دوسرے لوگوں کا نام ہی استعمال کرتے ہیں ۔۔”پیچھے سے آبص کی آواز آئی۔
“ویسے تمہیں کسی نے دعوت دی تھی یا بن بلائے ہی آ گئی ضرور بریانی کی خوشبو کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی آئی ہو گی ۔۔”آبص نے ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئے کہا۔
تم سے مطلب میں جیسے مرضی آؤں اس نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا۔
“آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آبص بھائی ۔۔یہ بالکل بریانی کے نقشِ قدم پر چلتی ہوئی ہی آئی ہے “آیت نے آبص کی بات کی تصدیق کی۔
“او ہیلو مسٹر” اس نے ایک انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“اپنے کام سے کام رکھو یہ تمہارا كنسرن نہیں ہے کہ میں کس طرح آئی ہوں اور ہاں کبھی آفس بھی ٹک جایا کرو جب دیکھو تمہارے گھر کے چکر ہی ختم نہیں ہوتے ۔۔جتنا اس شکل کو دیکھنے سے گریز کرتی ہوں اتنی ہی سامنے آ جاتی ہے پتہ نہیں صبح صبح کس منحوس کی شکل دیکھی تھی میں نے جو تم سے سامنا ہو گیا ۔۔”اب دونوں لڑنے کے موڈ میں آ چکے تھے دونوں کو بھول چکا تھا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔
“ضرور اپنی ہی شکل آئینے میں دیکھ لی ہو گی جو سب کی شکلیں تمہیں منحوس ہی لگ رہی ہیں ” ۔۔آبص نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا۔
“زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ تمہارا سر پھاڑ دینا ہے میں نے “۔۔اس نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا۔
“جاؤ جاؤ ایک تو خیالی سر بہت پھاڑتی ہو تم کس دن سچ میں پھاڑ کر دکھانا پھر مانوں گا” ۔۔آبص نے ماتھے پر بکھرے بال پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
“کسی اور دن کا انتظار کیوں کرنا ہے ابھی پھاڑ دیتی ہوں “۔۔اس نے ادھر ادھر نظریں گھماتے ہوئے کہا اور اسے گلدان نظر آیا۔۔۔اب اس کے ہاتھ میں ایک شیشے کا گلدان تھا جسے لے کر وہ آبص کی طرف بڑھی۔
اس سے پہلے کہ وہ اس کا سر پھاڑتی آیت اور ساریہ نے اس سے گلدان پکڑ لیا ۔۔آیت عفاف کو کھینچ کر لے جا رہی تھی ساتھ ساتھ وہ آبص سے آنچی آواز میں بھی مخاطب تھی یاد رکھنا تمہاری یہ خواہش میں بہت جلد پوری کروں گی۔
ارے جاؤ جاؤ دیکھ لے گے تمہیں بھی آبص نے کوٹ اتارتے ہوئے اسے نظر انداز کیا۔
اب آبص ساریہ کو ساتھ لگائے اس سے حال چال پوچھ رہا تھا ۔۔اور تم کیسی ہو اس نے غازہ سے بھی پوچھا جس پر اس نے جی اچھی ہوں پر اکتفا کیا۔
“کیوں اتنا لڑتے ہو اس سے تمہیں پتا تو ہے تھوڑی جنونی سی ہے واقع میں اگر سر پھاڑ دیتی تو” ۔۔ساریہ نے تھوڑے سخت لہجے میں کہا۔
ارے کچھ نہیں کرتی اس کے تو روز کے ہی ڈرامے ہیں تم اسے چھوڑو اور بتاؤ گھر میں سب ٹھیک ہے ۔۔آبص نے ٹاپک بدلتے ہوئے کہا۔
ہاں جی سب ٹھیک ہے اللّه کا شکر ہے اس نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
آبص نے کھانا کھاتے ہوئے اور بھی بہت سی باتیں کی جس میں ساریہ اور غازہ کو بھی شامل کیا۔
٭٭٭٭٭
عفاف سیدھا اپنے کمرے میں آئی اور دروازہ زور سے بند کیا دروازہ بند کرنے کی دھاڑ اتنی تیز تھی کہ ابراھیم ولا اس دھاڑ سے گونج اٹھا تھا۔
اپنے کمرے میں آ کر وہ ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی اور منہ ہی منہ میں بڑ بڑا بھی رہی تھی۔
“سمجھتا کیا ہے خود کو کہی کا تیس مار خان ہے ۔۔۔کہی کا وزیر اعظم ہیں ہنہ ۔۔۔۔اس نے کشن اٹھا کر اسی پر مکوں کی برسات شروع کر دی وہ کشن کی دھلائی ایسے کر رہی تھی جیسے وہ کشن کو نہیں آبص کو پیٹ رہی ہو۔”
اس نے سارے کشن اٹھا کر پورے کمرے میں پھینک دیے۔
“اپنی ہی شکل دیکھی ہونی ہنہ آیا بڑا “۔۔۔اس نے اس کی نقل اتاری ۔
“اگلی دفع تم میرے ہاتھ لگو سہی ۔۔۔بدلہ تو میں تم سے لوں گی عفاف عدیل ایسے ہی کسی کو نہیں بخشتی ۔۔اور اس انسان کو تو بالکل نہیں بخشتی جس نے اس کا خون جلایا ہو ۔۔۔اور موقع دیکھتے ہی سر بھی پھاڑو گی تمہارا ۔۔جسٹ ویٹ اینڈ واچ ۔۔۔”اس نے دونوں ہاتھوں کو مسلتے ہوئے خود سے ہی کہا۔
آ آ آ آ آ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔وہ غصے سے چلائی اور اتنی ہی زور سے چلائی تھی کہ آواز باہر ہی نہیں گئی۔
وہ واک آوٹ کرتی غصے سے واشروم میں آئی اور ٹھنڈے پانی کے چھینٹے منہ پر مارے۔
“ریلیکس ۔۔۔۔کنٹرول ۔۔۔۔ٹیک ڈیپ بریتھ ۔۔۔۔۔اوکے ۔۔۔۔اوکے ۔۔۔اس نے خود کو لمبا سانس لے کر نارمل کیا اور مسکرائی ۔۔۔۔میں کیوں اپنا خون جلا رہی ہوں ۔۔۔اب تو کسی اور کا خون جلانے کی باری ہے ۔۔بس تم دیکھتے جاؤ ۔۔۔”وہ اس کے تصور سے مخاطب ہوئی اور دل جلا دینے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے کمرے سے باہر آئی۔
٭٭٭٭٭
“ہاں بولو ظفر “۔۔۔فون کان سے لگائے اس نے ڈرائیو کرتے ہوئے کہا۔
“سر ۔۔یہاں پر چار پانچ کمپنیز سے پتہ کیا وہ کہہ رہے ہیں یہ ان کی کمپنی کی نمبر پلیٹ نہیں ہے ۔۔اور یہاں پر کسی نے بتایا یہ جو نمبر پلیٹ ہے یہ کسی کار کی نہیں بلکہ کسی ٹیمپو کی نمبر پلیٹ ہے اور یہ اسلام آباد میں کوئی کمپنی ہے جس کی یہ نمبر پلیٹ ہے ۔۔”ظفر نے تفصیل سے عباد کو بتایا۔
ٹھیک ہے تم اس کا پتہ لگواؤ اس کو اسلام آباد بھیجو اور ڈٹیلز پتہ لگواؤ اور اس کیس سے ریلٹڈ فائل میرے ٹیبل پر شام تک پہنچ جانی چاہیے۔
جی سر پہنچ جائے گی آپ بے فکر رہے اس نے تابعداری سے کہا۔
اور وہ جو ایک بچی کا کیس تھا اس کا کیا بنا ۔۔عباد نے ظفر سے استفسار کیا۔
سر وہ ساری انفارمیشن درست ہیں اس بچی پر تشدد اس وڈیرے کے بیٹے نے ہی کیا تھا اس بچی کا سٹیٹمنٹ میں نے خود ریکارڈ کیا ہے اور دو گارڈز کو بھی ان کے گھر کے باہر کھڑا کیا ہے تا کہ کوئی ان پر بیان تبدیل کرنے کا دباؤ نہ ڈالے سر اگر آپ کی پرمیشن ہو تو ہم آج ہی ان کے اڈے پر ریڈ کریں گے ۔۔ظفر نے ایک کیس کی ڈیٹیلز بتاتے ہوئے اجازت لی۔
نہیں وہاں پر ریڈ میں کرو گا تم وہ کام کرو جو میں نے کرنے کو کہا ہے اور آج کل کام میں اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے جلدی سے ساری ڈیٹیلز کا پتہ کرواؤ عباد نے سپاٹ لہجے میں کہا جس پر ظفر نے سوری کہہ کر سر جھکا دیا جیسے عباد اس کے سامنے ہی کھڑا ہو۔
عباد نے کال کاٹ کر ایک اور نمبر پر کال ملائی اور کسی کو کچھ ضروری ہدایتيں دے کر کال کاٹ دی۔
٭٭٭٭٭
السلام علیکم بابا جان ! “کیسے ہیں آپ اور بچے کدھر ہیں ۔۔۔”اس نے آتے ہی امان صاحب سے پوچھا جو لاؤن میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
بچے اندر ہے گورنس ان کو نہلا رہی تھیں انہوں نے سلام کا جواب دیتے ساتھ ہی اس کے سوال کا جواب بھی دیا۔
“اچھا میں ان کو دیکھ کر آتا ہوں “۔۔روحان نے اٹھتے ہوئے کہا۔
“بیٹھ جاؤ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے “۔۔۔امان صاحب نے اسے بیٹھنے کو کہا۔
“بابا جان میں جانتا ہوں آپ کس بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا “۔۔اس نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
میں جانتا ہوں تم بات نہیں کرنا چاہتے لیکن تمہیں بات کرنی ہی پڑنی ہے۔
“دیکھو بچے ابھی چھوٹے ہیں انہیں ایک ماں کی ضرورت ہیں تم چاہے جتنی مرضی ایک ماں کی بھی کمی پوری کر لو لیکن بچے پھر بھی اس ایک احساس کو مس کریں گے “جسے ماں کہتے ہیں “وہ جیسے جیسے بڑے ہو گے تم سے اپنی ماں کے بارے میں سوال پوچھا کریں گے پھر تم ان سے کیا کہو گے اور اب تو تم بھی اتنا بزی رہتے ہو اب کالج بھی پڑھانے جاتے ہو پھر ہوسپیٹل سے کسی ٹائم بھی بلاوا آ جاتا ہے اب تو بچوں کے ساتھ تم بھی گھر میں زیادہ وقت نہیں گزار پاتے ایسے میں اگر ان کی ماں ہو گی تو وہ بچوں کے ساتھ وقت گزارے گی “۔۔۔ انہوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
“بابا آپ سمجھ کیوں نہیں رہے اگر میں شادی کر لوں تو وہ صرف میری بیوی بن کر رہ جائے گی میرے بچوں کی ماں نہیں بن کر رہے گی اور کون دو بچوں کے باپ سے شادی کرے گا ۔۔آج کل آپ جانتے تو ہیں سوتیلی مائیں کیسی ہوتی ہیں اور میں اپنے بچوں کو ان کے سہارے نہیں چھوڑ سکتا ۔۔پلیز بابا ہم اس بارے میں اور بات نہیں کرے گے ۔۔”اس کا لہجہ سخت نہیں تھا لیکن لہجے میں پہلے جیسی نرمی بھی نہیں تھی وہ اپنے بابا سے التجا کرتا ہوا اٹھ گیا پیچھے امان صاحب تاسف سے سر ہلاتے رہ گئے ہر بار کی طرح روحان آج بھی انہیں ٹال گیا تھا۔
وہ سیدھا بچوں کے کمرے میں آیا جہاں فجر فریش سی کھلونوں کے ساتھ کھیل رہی تھی اور گورنس ازلان کو کپڑے پہنا رہی تھی جو آرام سے پہن ہی نہیں رہا تھا ۔۔۔بیٹا پہن لو تنگ نہیں کرو گورنس نے اس کو پچکارتے ہوئے کہا۔
فجر روحان کو دیکھتے ہی بیڈ پر کھڑی ہو گئی اور روحان کی طرف اشارہ کیا کہ وہ مجھے اٹھاۓ روحان نے مسکراتے ہوئے اسے اٹھایا اور اس کی گال پر کس کی اور پھر فجر نے بھی اپنے بابا کے کس کی ۔۔۔ازلان نے بھی شور ڈال دیا کہ وہ اسے بھی اٹھاۓ تب روحان ازلان کی طرف مڑا۔
فجر کو صوفے پر بیٹھائے اب وہ ازلان کو کپڑے پہنا رہا تھا کپڑے پہنانے کے بعد وہ ان دونوں کو اٹھاۓ باہر لاؤن میں آ گیا جہاں امان صاحب ابھی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔
سر آپ فریش ہو جائے تب تک بچوں کو میں دیکھ لیتی ہوں پھر میں نے گھر جانا ہے میں دو دن سے گھر نہیں گئی آمنہ (گورنس) نے روحان سے کہا۔
او سوری۔۔میرے ذہن میں ہی نہیں رہا آپ جاؤ گھر۔۔ میں سب دیکھ لوں گا روحان نے اس کو گھر جانے کا کہا وہ بھی جی اچھا کہہ کر چل دی بچے بھی روحان کی گود سے اتر کر کھیلنے لگ گئے روحان بھی ان کو کھیلتا دیکھ کر مسکرا دیا۔
جاؤ جا کر فریش ہو جاؤ دو دن سے گھر نہیں آئے تھک گئے ہو گے ۔۔امان صاحب نے اس سے کہا۔
جی بابا جان بس جاتا ہوں میری تھکن تو بچوں کو دیکھ کر ہی اتر جاتی ہے ۔۔۔رانو باجی چائے لے کر آتی ہی ہو گی وہ پی کر جاتا ہوں ۔۔۔روحان نے مسکراتے ہوئے کہا اب پہلے جیسی نرمی اس کے لہجے میں جھلک رہی تھی جو اس کی شخصیت کا خاصہ تھی۔
رات کا کھانا کھا کر روحان بچوں کو اپنے ساتھ ہی کمرے میں لے آیا تھا ۔۔وہ بچوں کو رات کو اپنے ساتھ ہی سلاتا تھا بچے ابھی ڈھائی سال کے تھے اور دونوں جڑوا تھے اور گورنس بھی شام کو گھر چلی جاتی تھی اور جب روحان نے ہوسپیٹل رکنا ہوتا تھا اس دن گورنس بچوں کے پاس ہی رکتی تھی کوئی ایمرجینسی کی وجہ سے آج وہ دو دن بعد گھر آیا تھا۔
کارپٹ پر کھلونے رکھ کر وہ بچوں کو ان کے ساتھ کھیلنے میں بزی کرنے لگا جب بچوں کا دیہان کھلونوں میں لگ گیا تو وہ وضو کرنے چلا گیا ۔۔۔وضو کر کے اس نے جائے نماز بچھایا اور نماز پڑھنے لگ گیا۔
ازلان کھیلتے کھیلتے کھلونوں کو ادھر ادھر پھینکنے لگا اور ان میں سے ایک کھلونا فجر کے ماتھے پر جا لگا ۔۔۔اور اس نے زارو قطار رونا شروع کر دیا۔
روحان نے سلام پھیر کر اسے اٹھایا اور اسے چپ کروانے لگا لیکن وہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔فجر کے دیکھا دیکھی ازلان نے بھی رونا شروع کر دیا روحان نے ازلان کو اٹھا کر صوفے پر بٹھایا اور اسے بھی چپ کروانے لگا وہ تو چپ ہو گیا تھا لیکن فجر نہیں ہوئی۔
وہ اس کو اٹھائے کمرے میں ادھر ادھر چکر کاٹنے لگا اور اس کو تھپکنے لگا ۔۔۔تھوڑی دیر تک وہ روتے روتے اس کے کندھے پر سر ٹکائے ہی سو گئی ۔۔روحان نے اس کو بیڈ پر لٹایا اور ازلان کو اٹھانے گیا ابھی وہ بیڈ پر ازلان کو لے کر آیا تھا کہ تب تک فجر پھر سے اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔
اب روحان بیڈ پر لیٹا تھا اور اس کے سینے پر فجر لیٹی تھی اور ازلان اس کے دائیں بازو پر لیٹا تھا۔۔نماز وہ پڑھ چکا تھا ۔۔تینوں تھوڑی دیر تک نیند میں گم ہو گئے روحان بھی دو دن سے سویا نہیں تھا اس لیے لیٹتے ہی سو گیا۔
٭٭٭٭٭
آج اتوار کا دن تھا اس لیے وہ تھوڑا لیٹ جا رہا تھا اور آج انہوں نے کسی جگہ ریڈ کرنی تھی۔
وہ کار ڈرائیو کر رہا تھا کہ اس کے فون کی گھنٹی بجی۔۔ہاں اذان بولو اس نے فون کی دوسری طرف کھڑے شخص کو بولنے کو کہا۔
“سر ۔۔ٹیم تیار ہے اور ہم لوگ یہاں سے نکل گئے ہیں “۔۔اذان نے عباد کو آگاہ کیا۔
“ٹھیک ہیں تم لوگ اس کے ڈیرے کو چارو طرف سے گھیر لو آج وہ کمینہ انسان بچ کر جانا نہیں چائیے اور میں تم لوگوں کو وہی پر ملتا ہوں میں بھی رستے میں ہوں” ۔۔۔اس نے کہہ کر فون رکھ دیا۔
انہوں نے ڈیرے کو چاروں طرف سے گھیر لیا پوری ٹیم میں بارہ لوگ تھے سب یونیفارم میں ملبوس ہاتھوں میں بندوقیں لیے کھڑے تھے اذان اور چار لوگ دیوار پھیلانگ کر اندر کی جانب کودیں۔
وہاں موجود لوگ تاش کھیل رہے تھے وہ سب لوگ اپنے کھیل میں مگن تھے ۔۔۔یونیفارم میں ملبوس پولیس والے پلر کے پیچھے سے ان لوگوں کو دیکھ رہے تھے ۔۔اذان سب کی راہنمائی کر رہا تھا ۔۔اس کے ایک اشارے پر سب لوگ پلر کی آوٹ سے باہر آئے تھے اور ان پر بندوقِ تانی تھیں۔
“ہاتھ اوپر کرو سب اور خبر دار اگر ہلنے کی کوشش بھی کی تو ورنہ یہ بیجھا اڑا دوں گا اور کونسی بل میں چھپ کر بیٹھا ہے تم لوگوں کا ڈرپوک وڈیرہ ۔۔”اذان کی گرجدار آواز بلند ہوئی جس میں نرمی کی ذرا بھی امید نہیں تھی۔
“اتنی بھی کیا جلدی ہے سالے صاحب ابھی تو آپ لوگ آئے ہو تھوڑی خاطر مدارت کا موقع تو دو ۔۔پھر آرام سے بیٹھ کر جانیے گا ہمیں کہ ہم کتنے ڈرپوک ہیں اور کتنے بہادر ہیں “۔۔۔اذان کو اپنے پیچھے سے اس وڈیرے کی آواز سنائی دی جو اسی کے ایک کونسٹیبل پر گن تانے کھڑا زہریلی مسکان سجائے اس سے مخاطب تھا۔
“ابے میں تیرا سالا کب سے ہو گیا “۔۔اذان غصّے سے بپھرا اس کو تو یہ خواب میں بھی گوارا نہ ہوتا کہ اس گھٹیا انسان سے اس کا کوئی تعلق ہو۔
“اب دیکھ تو مجھے سسرال لے جانے ہی تو آیا ہے اس حساب سے میں تیرا بہنوئی ہی ہوا نہ اور وہاں سسرال میں تھوڑے دن مہمانوں کی طرح رہوں گا پھر اپنے آشیانے میں لوٹ ہی آؤں گا ۔۔۔”لیکن “۔۔اگر تمہارا یہ بندا اللّه کو پیارا ہو گیا نہ تو کبھی واپس نہیں آئے گا چل اب رکھ نیچے بندوق” ۔۔۔ لیکن پر زور دیتے ہوئے اس نے دانتوں کو چبا چبا کر بولا۔
“تم اس کو کچھ نہیں کرو گے چھوڑ دو ۔۔۔چل ایک ڈیل کرتے ہیں ۔۔”اذان نے کرسی کھینچ کر چِل موڈ میں کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
“کیسی ڈیل ۔۔”اس نے اچھمبے سے پوچھا۔
“ڈیل ایسی ہے کہ تم میرے ایک بندے کو چھوڑو میں تمہارے ایک بندے کو چھوڑ دوں گا ۔۔پھر تم میرے ایک بندے کو چھوڑنا اور پھر دوبارہ میں تمہارے ایک بندے کو چھوڑوں گا ایسا کرتے کرتے ہم تمہارے سارے بندوں کو چھوڑ دیں گے ۔۔۔پھر آخر پر میں تمہیں اپنے ساتھ تمہارے سسرال لے جاؤ گا بنا باراتیوں کے ۔۔۔تو پھر کیسا لگا پلین جیجا جی ۔۔۔”اس نے شرارتی مسکراہٹ سمیت کہا۔
“بکواس بند کرو اپنی میں تم لوگوں کے ساتھ نہیں جاؤ گا بلکہ اس بندے کی لاش تمہارے ساتھ جائے گی ۔۔”اس نے دھاڑتے ہوئے کہا۔
“اتنا بھی کیا غصّہ داماد جی اتنے پروٹوکول میں نہیں آ رہے تھے آپ سوچا میں خود ہی لینے آ جاؤں ۔۔اب داماد کے لیے سسر اتنا تو کر ہی سکتا ہے ۔۔۔”عباد نے اس کی گردن دبوچتے ہوئے اس کی کنپٹی پر گن رکھی۔ اذان نے عباد کو آتے ہوئے دیکھ لیا تھا اسی لیے وہ پرسکون انداز میں بیٹھا اسے باتوں میں لگا بیٹھا تھا۔
“پاپا جی تو پھر لے کر چلے جیجا جی کو سب وہاں ان کے پہنچنے کا انتظار کر رہے ہو گئے ۔۔”اذان نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا جس پر عباد نے اس کو گھورا اور اسے سب کو ہتھکھڑی لگانے کو کہا اور خود اس وڈیرے کی اولاد کو گھسیٹتے ہوئے لے گیا۔ تقریبا آدھے گھنٹے تک وہ لوگ پولیس سٹیشن پہنچ گئے تھے اور ان سب لوگوں کو لاک اپ میں بند کیا۔
“اس کمینے انسان کا سٹیٹمنٹ لو اور اگر اس نے چوں چراں کی تو اس کی اچھی طرح خدمت کرنا آفٹر آل بہنوئی جی آئے ہیں ۔۔”عباد نے اذان سے کہا۔
فکر ناٹ سر میں اپنے جیجو کا بہت اچھے سے خیال رکھو گا وہ سلیوٹ مارتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
ہاں جی تو کیا حال ہیں جیجا جی ۔۔اس نے جیل میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
“کچھ چاہیے تو نہیں کیا لیں گے آپ ۔۔۔ڈنڈے ۔۔۔جوتے۔۔۔چپیرے ۔۔۔مکے۔۔۔یا پھر بیلٹ لینا پسند کرے گے آج ہی نیا بیلٹ پہن کر آیا ہوں اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ آج ہی یہ کام بھی آ جائے گا ۔۔”اس نے دانتوں کی نمائش کی۔
چلو اب سٹیٹمنٹ ریکارڈ کرواؤ ورنہ خدمت کرنے کے لیے تو ہم پیش پیش ہی رہتے ہیں۔
“کونسا سٹیٹمنٹ ۔۔۔میں نے اس بچی پر ظلم نہیں کیا “اس نے غڑاتے ہوئے کہا۔
“ارے واہ میں نے تو بچی کا نام لیا ہی نہیں تجھے کیسے پتہ چلا “۔۔اس نے اس کا جبڑا دبوچا۔
اب تم نے ادھر ادھر کی بکواس کی تو یہ تیرے لیے اچھا نہیں ہو گا سیدھی طرح بول ۔۔۔اس نے اس کے بال نوچتے ہوئے کہا ۔
“تو جانتا نہیں ہے میں کون ہوں ۔۔”اس نے اپنے بال چھراتے ہوئے کہا۔
“جانتا ہوں میں کہ تو کون ہے ۔۔تو میرا جیجا ہے میرا تیرا سالا ہوں تو میرے پاپا کا داماد ہے اور انہی کے ہاں تو گھر داماد رہے گا کچھ سالوں تک ۔۔اور ان سب سے بھر کر تو ایک نیچ اور گھٹیا انسان ہے ۔۔۔بتا اور کچھ جاننا ہے اپنے بارے میں تم نے ۔۔”اذان نے ایک مکہ اس کے منہ پر مارا۔
“تم لوگ جو مرضی کر لو میں سٹیٹمنٹ نہیں لکھواؤں گا “۔۔اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اٹل لہجے میں کہا۔
اذان اس کی بات پر بھڑکا تھا اور اس کو پانچ چھ مکے جھڑے تھے ۔۔مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا تھا۔تبھی ایک کونسٹیبل جا کر عباد کو بلا لایا تھا۔
ہاں کیا صورت حال ہیں اس نے اذان سے استفسار کیا جس پر اس نے ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔
تم جاؤ میں دیکھ لیتا ہوں ۔۔۔پر سر میں ۔۔۔وہ کچھ بولنا چاہ رہا تھا جس پر عباد نے اسے چپ کروا کر جانے کو کہا اور کونسٹبل کو بھی ساتھ جانے کا کہا۔
عباد نے اسے شرافت سے سٹیٹمنٹ لکھوانے کو کہا اور جب وہ نہ مانا تھا تو اس نے اس پر مکوں کی برسات کی۔
“بول گھٹیاں انسان کیوں اس معصوم بچی پر تم نے گرم پانی پھینکا ۔۔بول کیوں تم نے اس کو بیلٹ سے مارا ۔۔بول کیوں تم نے اس کا ہاتھ استری کے نیچے رکھا ۔۔بول کیوں تو نے اس کو موت کی نیند سلایا ۔۔بولللللل ۔۔۔۔وہ غصّے سے دھاڑا تھا اس نے اسے مار کر ادھ موا کر دیا تھا۔
“موت “۔۔۔اس کے منہ سے لفظ سن کر عباد پھر سے دھاڑا تھا۔
“ہاں موت ۔۔۔جو زخم تم نے اسے دیے تھے وہ ان زخموں کو سہتے سہتے موت کی آغوش میں چلی گئی ۔۔آج وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی ۔۔۔دس سال کی بچی تھی وہ ۔۔دس سال کی ۔۔جو تیرے عتاب کا شکار ہوئی اور زندگی ہار بیٹھی ۔۔اب اگر تمہاری یہاں سے نکلنے کی خواہش ہے بھی تو اسے یہی دفن کر دے تمہیں تو میں یہاں سے نکلنے نہیں دوں گا ۔۔اس نے اس کو اتنا مارا تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ اب یہ شخص نہیں بچا ہو گا۔”
“لیکن عباد نے اس کو مرنے نہیں دیا تھا اس کو مرنے سے پہلے ہی چھوڑ دیا تھا کسی کے گھر کی رونق کو برباد کرنے والے اپنی زندگی کی رونق ختم ہوتے ہوئے دیکھے گئے ۔۔کیوں کہ یہاں تمہارا جینا موت سے بھی بدتر ہو گا تمہارے گھر والے بھی ویسے ہی جئیے گے جیسے اس بچی کے گھر والے جی رہے ہیں ۔۔”عباد نے اس کا منہ دبوچتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
“ہوش میں آ جائے تو بیان نوٹ کر لینا ۔۔اور ہاں یہ اس کا پہلا کیس تو ہو گا نہیں اس کے اگلے پیچھلے سارے کارناموں کا پتہ لگواؤ ۔۔۔اور کون کون اس کے زیرعتاب آیا ہے کیس مضبوط کرو اتنی آسانی سے تو اسے جیل سے نکلنے نہیں دینا ۔۔کم سے کم عمر قید ہونی چاہیے اور زیادہ سے زیادہ پھانسی ۔۔۔اور اس کی بیل کسی صورت نہیں ہونے دینی “۔۔۔عباد نے اذان سے کہا۔
اوکے سر آپ فکر ہی نہ کرے اس ذلیل انسان کے لیے کوئی رایت نہیں ہو گی ۔۔اس نے بھی حکم کی تعمیل کی۔
کچھ ضروری ہدایتیں دے کر عباد وہاں سے نکل آیا۔
٭٭٭٭٭