قدموں کی چاپ قریب تر سنائی دی تو وہ سب اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ چکے تھے سب کی نظریں دروازے پر ٹکی تھیں مطلوب چہرہ نظر آنے پر سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی وہ سلام کرتی ہوئی اسٹیج پر کھڑی ہوئی تھی سب جواب دیے اس کے آگے بولنے کے منتظر تھے وہ واپس پلٹی تھی اسٹیج پر کھڑے تینوں کینوس سے اس نے پردے ہٹائے تھے ایک گہرا نیلا اور ایک سفید رنگ اٹھائے وہ مہارت سے ان پر کچھ بنانے میں مصروف تھی سٹوڈنٹس کی نظریں اس کے ہاتھوں کی حرکت پر تھیں وہ یک ٹک اس کے ہاتھوں کی مہارت دیکھ رہے تھے اسے ان تینوں کینوس پر ایک ہی چیز بنانے میں آدھا گھنٹہ لگا تھا وہ ہاتھ صاف کرتی ہوئی کلاس کی طرف پلٹی تھی۔
گہرے نیلے رنگ کے درمیان میں سفید رنگ کی سیڑھیاں تھیں جو ایک کونے سے شروع ہو کر دوسرے کونے تک جا رہی تھیں پہلے چھوٹی سیڑھیاں تھیں پھر کہی بڑی سیڑھی تھی۔
“آپ کو نظر آ رہا ہو گا اس پہلے کینوس پر پہلی سیڑھی پر ایک چھوٹا سا بچہ ہے اور اِسی کینوس کی بڑی سیڑھی پر ایک بڑا بچہ ہے آپ کو نظر آ رہا ہے یہ کیا کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟” وہ پلٹی تھی اور جب بولی تو خاموش کمرے میں اس کی آواز گونج اٹھی تھی۔
“جی” سب نے یک زبان کہا۔
“کیا نظر آ رہا ہے؟” اس نے پھر سے پوچھا۔
“جی آپ بتائے” کسی کے ہاتھ کھڑا کرنے پر اس نے پوچھا۔
“وہ تارے توڑنے کی کوشش کر رہا ہے” اس کے جواب پر وہ مسکرائی تھی اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔
“آپ کی نظر سب سے پہلے اس تارے توڑنے والے بچے پر گئی لیکن آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ اس کا سفر شروع کہاں سے ہوا ہے”
“ہماری نظریں کامیاب شخص کو تک رہی ہوتی ہیں اس کی کامیابی ہمیں حسد میں مبتلا کر دیتی ہے لیکن اس کامیاب شخص کے پیچھے کی کہانی سے کوئی واقف نہیں ہوتا کوئی جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ وہ کن کٹھن راستوں کا مسافر بن کر منزل تک پہنچا ہے منزل کی جستجو میں نکلے مسافر دو قدم چلتے ہی منزل نہیں پا لیتے بلکہ خار دار راہوں ۔سے پاؤں چھلنی کر کے پہنچتے ہیں جو منزل کی صورت میں مرہم پا لیتے ہیں”
اس نے ایک اور برش اٹھایا تھا اور دوسرے کینوس پر اسی بڑی سیڑھی پر وہی تارے جمع کر کے رکھ دیے تھے اور بچے کو اگلی سیڑھی پر پہنچا دیا تھا۔
” اب بتائیں یہاں کیا ہوا ہے؟ کوئی بتا سکتا ہے؟” اس نے پوری کلاس سے پوچھا تھا سب نے نفی میں گردنیں ہلائی تھیں۔
اس نے اسی برش پر تھوڑا سا رنگ لگایا تھا اور تیسرے کینوس پر مہارت سے کچھ بنانے لگی تھی اب وہ بچہ بڑا ہو گیا تھا وہ نوجوان کا حلیہ اختیار کر گیا تھا اور اب وہ آخری سیڑھی پر سر جھکائے کھڑا تھا۔
“کیا اب کوئی بتا سکتا ہے؟”
” وہ کسی چیز میں گرنے والا ہے اور اسی لیے وہ پریشان ہے”
“چلیں اب اندازوں سے حقیقت کی طرف آتے ہیں ۔۔۔۔ یہاں بچہ پہلی سیڑھی سے منزل کی جستجو میں اپنا سفر شروع کرتا ہے اور یہاں بڑی سیڑھی پر وہ اپنی منزل پا لیتا ہے اور منزل پر ملنے والے انعام کو وہ وہی رکھتا ہے اور اگلے سفر پر نکل پڑتا ہے وہ پھر سفر شروع کرتا ہے اور پھر منزل پانے پر پھر سے سفر شروع کرتا ہے اور آخری سیڑھی پر وہ جب پہنچتا ہے تو وہ سفر تمام کر چکا ہوتا ہے اور پھر اس کو آخری منزل کی طرف روانہ ہونا ہوتا ہے جسے آپ کسی چیز کہہ رہے ہیں وہ قبر ہے اور قبر آخرت کی پہلی سیڑھی ہے۔”
“تو میرے پیارے بچو ۔۔۔ سفرِ دنیا ایک منزل سے دوسری منزل تک کا سفر ہے لیکن آخری منزل یہ قبر ہے جہاں سے آخرت کا سفر شروع ہو گا۔۔۔۔ انسان تھک جاتا ہے لیکن اس کی چاہتیں ختم نہیں ہوتی ایک چیز حاصل کرنے پر وہ دوسری چاہ کی کوشش میں نکل پڑتا ہے اس دنیا کی چاہتیں اس دنیا میں ہی رہ جائیں گی اللّه کو پانے کی چاہ اور اس چاہ کو حاصل کرنے کی کوشش تمہیں آخرت میں بھی سرخرو کر دے گی ان منزلوں میں ایک منزل اللّه کو پانے کی جستجو میں “سرو” کرو جس کی طرف لوٹنا ہے اسی کی تیاری بھی ساتھ ساتھ کرتے جاؤ وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے وقت رہتے ہی سمبھل جاؤ جن مقصد کے لیے تم بھٹک رہے ہو وہ مقصد کچھ بھی نہیں جب اللّه کو پا لو گئے اس کی رضا میں راضی ہو جاؤ گے تب ایک ناکام مقصد پر بھی تم مسکرا دو گئے۔”وہ بھی بات کے آخر پر مسکرائی تھی وہ ان کو صرف آرٹ نہیں سکھاتی تھی وہ ان کو زندگی جینے کا طریقہ بھی سکھاتی تھی ۔
ایک الوادعی نظر ان پر ڈال کر وہ ان سے رخصت لے کر چلی گئی تھی۔
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً
اشترك في نشرتنا الإلكترونية مجاناً.
Previous ArticleMaa Ko Is Din Ka HaqDar Kehte Hay By Faqeeha Batool|Poetry
Next Article Mian Zindagi Ka Panchi Hun By Faqeeha Batool|Poetry
1 Comment
❤️