کمرے کا ماحول خوابناک تھا باہر سورج پورے زورو شور سے چمک رہا تھا مگر یہاں گھپ اندھیرا تھا اے سی کی ٹھنڈک نے کمرے کا ماحول خوشگوار بنا رکھا تھا سب سے پہلے انہوں نے ریموٹ سے اے سی بند کیا تھا۔
“آبص بیٹا اٹھ بھی جاؤ گیارہ بج گئے ہے اب اگر تم نہ اٹھے تو ٹھنڈے پانی کا جگ تمھارے اوپر پھینک دوں گی “رافعیہ بیگم اپنے لخت جگر کو اٹھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
انہوں نے اس کے اوپر سے کمبل کھینچ لیا تھا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔
“ٹھیک ہے پھر بیٹا جی ایسے نہیں تو پھر ویسے ہی سہی”۔
وہ کچھ سوچتے ہوے باہر کی جانب بڑھ گئی۔
وہ سیدھا کچن میں گئی تھیں انہوں نے پانی کا جگ لیا اور اس میں برف کے ٹکڑے ملاۓ پھر ان کا رخ آبص کے کمرے کی طرف تھا رافعیہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں تھیں لیکن آبص اپنے بیڈ پر موجود ہی نہیں تھا واشروم سے پانی کے گرنے کی آواز آ رہی تھی وہ سر جھٹک کر کمرے کا پھیلاوا سمیٹنے لگیں۔
دس منٹ تک آبص بھی فریش ہو کر باہر آ گیا تھا ۔۔۔”کیا ماما چھٹی کے دن تو سونے دیا کريں ابھی بس گیارہ ہی تو بجے ہے “۔۔۔اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
“ہاں جی بیٹا بس ابھی گیارہ ہی تو بجے ہیں پوری رات کیا کبڈی کھیلی ہے آپ نے جو پورا دن سونے کی تیاری میں ہیں” رافعیہ بیگم نے بھی طنز کے تیر چلاتے ہوئے کہا۔
“اب فٹا فٹ نیچے آؤ ناشتہ بنا رہی ہوں میں”
“جی اب تو آنا ہی پڑنا ہے نیند تو ویسے بھی خراب ہو گئی ہے “اس نے منہ بسورا۔
وہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنی ماما سے باتیں بھی کر رہا تھا۔
“ماما ساریہ کا فون نہیں آیا کیا؟” اس نے استفسار کیا۔
“آیا تھا بیٹا لیکن زیادہ بات نہیں ہوئی پتا نہیں میں جب بھی فون کروں زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ کی بات ہوتی ہے پتا نہیں کہا ں مصروف رہتی ہے میری بچی وہ اداس ہوئیں۔”
ارے ماما آپ تو اداس ہی ہو گئیں ایک کام کیوں نہیں کرتی اس سے ملنے چلی جائیں ۔۔۔ایک کام کرتے ہیں آپ کل تیار رہنا میں آفس سے آ کر آپ کو لے جاؤں گا ۔۔۔ آبص نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
“ٹھیک ہے بیٹا میں تیار رہوں گی اور ایک کام کرتے ہیں کہ ہم بنا بتاۓ جائیں گے ساریہ کو سرپرائز دیں گے”۔
” جی ٹھیک ہے ماما اب ذرا سا مسکرا بھی دیں یقین جانے آپ کے ذرا بھی پیسے نہیں لگیں گے اور مزے کی بات کوئی ٹیکس بھی نہیں لگے گا بلکہ صدقہ جاریہ ہو گا رافعیہ بیگم اپنے بیٹے کی مسکرانے کی وضاحت سن کر مسکرا دی تھیں۔
٭٭٭٭٭
“او مہارانی صاحبہ کہا ں مر گئی ہو آواز نہیں سنائی دے رہی کیا ؟ “نائلہ بیگم بولتی ہوئی مسلسل اپنی بہو کو آوازیں دے رہی تھیں جو آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔” او کمبخت کہاں گئی” انہوں نے پھر سے آواز دی۔
وہ ہاتھ جھاڑتی ہوئی کچن سے نکلتی ہوئی دکھائی دی۔
“جی آنٹی “اس نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
سنائی نہیں دیتا کیا کان بند کر کے بیٹھی ہو نائلہ اپنا غصّہ اپنی بہو ساریہ پر نکال رہی تھیں۔
جی آنٹی وہ میں برتن دھو رہی تھی۔۔۔ ساریہ منمنائی۔
اچھا بس بس زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔نائلہ بیگم نے اس کو صفائی دینے کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔
اب جا اور صبا کو اٹھا کر لا کتنا ٹائم ہو گیا ہے ابھی میری بچی نے ناشتہ بھی کرنا ہے۔
جی میں دیکھتی ہوں۔۔۔ ابھی وہ جانے ہی لگی تھی کہ صبا سیڑھیوں سے اترتی ہوئی دکھائی دی۔
صبا آ کر لاؤنج کے صوفے پر بیٹھ گئی تھی اور ابھی بھی وہ ایک ہاتھ سے جمائی روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
ابھی نیند نہیں پوری ہوئی میری بچی کی نائلہ بیگم نے اپنے لہجے کو نرم بناتے ہوئے اپنی بیٹی سے پوچھا۔
نہیں امی رات کو مووی دیکھ رہی تھی تو ٹائم کا پتا ہی نہیں چلا آج نیند ہی نہیں پوری ہوئی سر بھی دکھ رہا ہے۔۔۔ صبا نے سر کو مسلتے ہوئے کہا۔
“بیٹا ناشتہ کر لو ٹھیک ہو جائے گا” ان کے لہجے سے شہد ٹپک رہا تھا۔
اب جاؤ ہمارا منہ کیا دیکھ رہی ہو جاؤ ناشتہ بناؤ میری بچی کے لیے نائلہ بیگم نے سخت لہجے میں ساریہ سے کہا وہ سر ہلاتے ہوے کچن کی طرف چل دی۔
بیس منٹ میں وہ ناشتہ تیار کر کے لے آئی تھی صبا ٹیبل پر آئی اور ناشتہ کرنے لگی۔
ابھی اس نے ایک نوالہ ہی لیا تھا کے ساتھ ہی منہ بسورنا شروع کر دیا یہ کس طرح کا ناشتہ بنایا ہے اتنا موٹا پراٹھا میں نہیں کھا سکتی اس نے پلیٹ آگے کو کھسکا دی تھی اور اٹھ کر چلی گئی۔
“تمہاری ماں نے تمہیں کچھ نہیں سکھایا کیا کوئی کام جو تم سیدھا کر لو” نائلہ بیگم نے غصّے میں اس کو جھاڑ پلائی میری بچی کا سارا موڈ خراب کر دیا۔
آنٹی آپ ہر بار میری ماما پر کیوں چلی جاتی ہیں سہی تو ہے پراٹھا میرے بابا تو بڑے شوق سے میرے ہاتھ کا بنا ہوا ناشتہ کھاتے تھے۔
“آپ کی ہی بیٹی کے بس نخرے ختم نہیں ہوتے اس نے آخری بات دل میں سوچی تھی”
“اے بس بس بہت زبان چلنے لگ گئی ہے تمہاری اب یہ کٹوانی ہی پڑنی ہے”۔۔۔ کہتے ہوۓ وہ اسے غصّے سے گھورتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تھیں۔
ساریہ وہی کرسی پر ہی بیٹھ گئی تھی آنکھوں میں آنسو لیے وہ اپنے ناشتے کو دیکھ رہی تھی پھر ہاتھ بڑھا کر اس نے ناشتہ اپنے آگے کیا اور ناشتہ کرنے لگی ساتھ ساتھ آنکھوں سے آنسوں بھی جاری تھے اور ساتھ ساتھ وہ بڑ بڑا بھی رہی تھی اپنی بیٹی سے بات کرتے ہوئے کیسے منہ سے پھول جھڑتے ہیں اور بہو سے بات کرتے ہوئے کانٹے چھبنے لگ جاتے ہیں سارے کام تو میں کرتی ہوں پھر بھی مجھ سے خوش نہیں ہوتی اور خود کی بیٹی کچھ بھی نہیں کرتی پھر بھی اس سے بات کرتے ہوئے لہجہ کتنا میٹھا ہوتا ہے۔
“یونہی بڑبڑاتے ہوئے وہ پورا ناشتہ کر گئی تھی اتنا مزے کا تو تھا بس ایسے ہی نخرے ہی ختم نہیں ہوتے”
“ہممم۔۔۔” نک چری وہ منہ بناتے ہوئے برتن اٹھا کر کچن میں چل دی۔
٭٭٭٭٭
“ادیرا ادیرا ۔۔۔کدھر ہو یار عفاف ادیرا کو آوازیں دے رہی تھی۔”
“ادھر ہوں میں کچن میں عفاف۔۔۔ ادیرا نے وہی سے ہانک لگائی تھی۔”
“افففف۔۔۔ پورے گھر میں ڈھونڈا ہے میں نے تمہیں ۔۔۔” “اچھا اور کس لیے ڈھونڈ رہی تھی مجھے تو لگا تھا تم سو رہی ہو گی ویسے معجزہ ہی نہیں ہو گیا تم اتوار والے دن جاگی ہوئی پائی جا رہی ہو کہیں میں ہی تو نہیں خواب دیکھ رہی۔”۔۔۔ ادیرا حیران ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے عفاف سے کہہ رہی تھی اور ساتھ ساتھ شامیوں کا مکسچر تیار کر رہی تھی۔
“ہو گیا” عفاف نے آنکھوں کو گھماتے ہوئے کہا۔
“ہاں ہو گیا”۔۔۔” اب تم بتاؤ کیا کام ہے “؟
“میرے ساتھ لائبریری تک چلو مجھے کچھ بکس خریدنی ہے۔”
“یار آیت کو لے جاؤ نا میں کام کر رہی ہوں “اس نے صاف صاف انکار کیا۔
“نہیں میں نے تمھارے ساتھ ہی جانا ہے عفاف نے ضدی انداز میں کہا۔”
“اچھا پھر میرے ساتھ یہ بنواؤ پھر چلتے ہیں ادیرا نے حامی بھر لی تھی۔”
“عفاف ہاتھ دھو کر اب شامیوں کے مکسچر کو ٹیکیوں کی شکل دے رہی تھی۔”
آدھے گھنٹے تک وہ دونوں فری ہوگئی تھی پھر فریش ہو کر وہ لائبریری جانے کے لیے تیار تھیں۔
“اچھا میں ماما کو بتا کر آتی ہوں تم گاڑی نکالو”۔۔۔ کہتے ہوئےادیرا اپنی ماما کے کمرے کی طرف چل دی۔
“ماما ہم لوگ ذرا لائبریری تک جا رہے ہیں شام کی چاۓ تک آ جائیں گئے۔”
“اچھا بیٹا ۔۔۔دیہان سے جانا اور کار خود ڈرائیو کرنا عفاف کو مت کرنے دینا “۔
“ماما اب وہ اچھی ڈرائیونگ کرتی ہے” اس نے اپنی ماما کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
پھر بھی بیٹا دیہان رکھنا۔۔۔”جی اچھا” یہ کہتے ہوے وہ پورچ کی طرف چل دی۔
٭٭٭٭٭
ماما میں شاپنگ مال تک جا رہا ہوں کچھ سامان لینا ہے آبص نے کچن کے دروازے میں کھڑے ہوتے ہوئے اپنی ماما سے کہا۔
ٹھیک ہے بیٹا جلدی آ جانا آج عدیل بھائی صاحب کے گھر جانا ہے۔
“جی ماما کوشش کروں گا جلدی آنے کی” کہتے ہوئے وہ پورچ کی طرف بڑھ گیا۔
“گیٹ کھول کر وہ اپنی گاڑی کو نکالنے لگا تھا اس نے اپنی گاڑی کو ریورس کیا اور ابھی گاڑی تھوڑی سی باہر ہی نکلی تھی کے ٹھک کی آواز آئی پہلے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے پھر جب سمجھ آئی تو وہ باہر نکلا اور سامنے جو گاڑی کھڑی تھی اسے دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑے تھےوہ کسی اور کی نہیں بلکہ عفاف عدیل کی تھی۔”
“عفاف نے گاڑی ریورس کی تھی اور گیٹ سے باہر نکالتے ہی ٹرن کرنا تھا لیکن وہ اس کو تھوڑا سا اور پیچھے لے گئی اور اس کی کار آبص کی کار سے جا ٹکرائی جو وہ نکال رہا تھا۔”
“وہ غصّے سے اس کی جانب بڑھا اور گاڑی کی بونٹ پر ہاتھ مار کر اسے باہر نکلنے کو کہا”۔
آبص کافی غصّے میں تھا کیوں کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا عفاف نے اس کی گاڑی کو پہلے بھی بہت سی ٹکڑیں ماری تھی۔
“یا اللّه پاک پلیز اس بھوت سے آج بچا لینا پلیز پلیز اللّه جی وہ دعائیں مانگ رہی تھی کہ پھر سے دروازہ بجنے کی آواز آئی۔ اس کو جتنی بھی سورتیں یاد تھیں پڑھ کر اپنے اوپر پھونک مار کر باہرنکلی۔”
“کیا مسلہ ہے کیوں شور مچا رہے ہو تمیز نہیں ہے تمہیں کیوں ایک لڑکی کا راستہ روکا ہوا ہے عفاف بھی نکلتے ساتھ ہی اس پر چڑھ دوڑی تھی۔”
“واٹ میں نے رستہ روکا ہے یا تم نے گاڑی ٹھوکی ہے میری ۔۔۔”وہ بھی غصے میں بولا تھا۔
“اب تب تک تم یہاں سے نہیں جاؤ گی جب تک یہ نقصان پورا نہیں کرتی۔”
” نقصان تو میرا بھی ہوا ہے تو حساب برابر ہاتھ جھاڑتے ہوے اس نے آبص سے کہا ۔”
“غلطی تمہاری ہے تو چپ کر کے اس کا نقصان بڑھو وہ سخت تیور لیے گویا ہوا۔ “
“نہیں کرتی کیا کر لو گئے “عفاف نے تنک کر کہا۔
“مہربانی کر کے تم اس روڈ پر گاڑی ہی مت چلایا کرو جب دیکھو میری کار کو ہی ٹھوک دیتی “ہو آبص نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
“میری کوئی غلطی نہیں ہے یہ پبلک روڈ ہے تمہاری اپنی ملکیت نہیں کے یہاں پر میں گاڑی نہیں چلا سکتی “اس نے دو بدو کہا۔
“چلانی آتی تو ہے نہیں تمہیں تو کیوں دوسروں کا نقصان کرتی رہتی ہو۔”
“کیوں نہیں آتی میں تم سے زیادہ اچھی ڈرائیو کر لیتی ہوں”۔۔۔ عفاف نے تنک کر کہا ۔
“ہنہ اچھی۔۔۔” اس نے طنزیہ کہا۔
“یہ جو تمہارے ڈیلے ہے نا یہ بنٹے ہے بنٹے جنہیں نکال کر بس کهیلنے کی کثر باقی رہ گئی ہے نظر تو ویسے بھی کچھ نہیں آتا ان سے تمہیں۔”
عفاف کا تو پاڑا ہی ہائی ہو گیا تھا اس کی بات سن کر اس نے اس کی اتنی پیاری آنکھوں کو بنٹے کہا تھا۔
“تمہارا تو میں سر پھاڑ دوں گی بھوت نہ ہو تو اس نے ادھر ادھر نظریں گھمائی تھی شاید کوئی چیز ڈھونڈ رہی تھی جس سے آبص کا سر پھاڑ سکے۔”
تبھی اتنے شور کی آواز سن کر ادیرا بھاگتے ہوئے آئی اس نے اپنا سر مسلا تھا۔
“افففف۔۔۔ پھر سے شروع ہو گئے یہ دونوں وہ جلدی سے عفاف کی طرف بڑھی تھی کیوں کے اب وہ اینٹ اٹھا چکی تھی اور آبص کی طرف بڑھنے ہی لگی تھی کہ بیچ میں ہی ادیرا نے اسے روک لیا اور بہت مشکل سے اس سے اینٹ چھڑوائی کہ اس کا کیا پتا مار ہی نہ دے۔”
ادیرا نے اس کو بڑی مشکل سے قابو کیا تھا وہ اپنا آپ اس سے چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ چھوڑ دو ادیرا مجھے آج اس شخص کا میں نے حلیہ بگاڑ دینا ہے اس نے میری آنکھوں کو بنٹے کہنے کی جرات کیسے کی۔
“ابھی بتا دیتا ہوں کیسے کی۔۔ بنٹے۔۔۔ بنٹے۔۔۔ بنٹے۔۔۔ یہ لو ایسے ہمت کی اپنے منہ سے کر لو جو کر سکتی ہو “آبص اس کو اور غصّہ دلا رہا تھا جانتا تھا اپنی غلطی تو اس میڈم نے ماننی نہیں ہے تو کیوں نا اس کا خون جلا کر ہی نقصان کی بھرپائی کر لی جاۓ۔ “
دیکھا تم نے یہ مجھے کیا کہہ رہا ہے مجھے چھوڑ دو آج اس شخص کو میں نے گنجا کر دینا ہے بدتمیز انسان نا ہو تو نہیں بلکہ بھوت نا ہو تو ادیرا سے التجہ کرتے ہوئے وہ اپنا آپ چھڑوا رہی تھی۔
تم گاڑی میں بیٹھو چپ کر کے اس کو دكهیلتے ہوئے ادیرا نے اس کو گاڑی میں بیٹھایا ۔خبر دار تم باہر آئی تو اچھا نہیں ہو گا اور میں تم سے ناراض ہو جاؤں گی یہ بات یاد رکھنا تم یہ کہتے ہوئے اس نے دروازہ بند کیا ۔۔۔ جانتی تھی وہ اس کی ناراضگی کی دھمکی سے کچھ دھیمی پڑ جائے گی ۔۔اور آبص کے پاس آئی ۔۔۔ آئی ایم سو سوری آبص بھائی ادیرا ابھی معافی مانگ ہی رہی تھی کے آبص نے بیچ میں ہی اسے روک دیا۔
“تم کیوں معافی مانگ رہی ہو ادیرا جس کو مانگنی چاہیے اس کی تو زبان بھی نہیں ہلی بس آیندہ اس کو گاڑی مت چلانے دینا ورنہ اگلی بار میں اس کا سر پھاڑ دوں گا۔”
“جی جی بالکل ایسا ہی ہو گا۔۔۔” اس نے فورا حامی بھری۔
ویسے آپ نے اس کی پیاری آنکھوں کو بنٹے کہا ہے اس کا تپنا تو بنتا ہی تھا ادیرا نے نرم مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
“اس کو تپانے کے لیے ہی کہا تھا ۔۔۔”وہ بھی چہرہ نیچے کیے مسکرا دیا۔
اوکے پھر اب ہم چلتے ہیں ادیرا کہتے ہوئے گاڑی کی جانب چل دی اب وہ ڈرائیونگ سیٹ سمبھال چکی تھی۔
عفاف ابھی بھی منہ پھلائے بیٹھی تھی ادیرا نے گاڑی لائبریری کی طرف گھمائی تھی۔
آبص بھی سر جھٹک کر چل دیا تھا۔
٭٭٭٭٭
یار ادیرا واپسی پر پھوپھو کے گھر چلیں کافی دن ہو گئے ان سے ملاقات نہیں ہوئی عفاف لائبریری میں بکس دیکھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ ادیرا سے محوِ گفتگو بھی تھی۔
“ایک ہفتے کو تم کافی دن کہہ رہی ہو “ادیرا نے اچھمبے سے کہا۔
“ہاں تو میرے نزدیک یہ بہت زیادہ دن ہیں”۔
“نہیں فلحال تو نہیں جا سکتے کیوں کے ابھی ٹائم بھی کافی ہو گیا ہے اور آج انکل فاروق کی فیملی بھی تو انوایٹڈ ہے چائے پر ایک کام کرتے ہیں کہ کل یونیورسٹی سے واپسی پر چلے گئے اور کچھ دیر بیٹھ بھی جاۓ گئے بلکہ شام کو واپس گھر جاۓ گئے” ۔۔۔ادیرا نے مشورہ دیا۔
“یار انکل کا وہ منحوس بیٹا بھی آیا ہونا یقیناً میرا اس کی شکل دیکھتے ہی موڈ کا ستیاناس ہو جاتا ہے تم بس دعا کرو وہ نہ ہی آئے “۔۔۔عفاف نے منہ بسورتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
بکس خرید کر وہ لوگ واپس گھر کے لیے نکلے تھے۔
وہ لوگ گھر پہنچی ہی تھيں کے گیٹ کھلا اور فاروق انکل کی فیملی اندر داخل ہوئی
السلام و علیکم ! انکل آنٹی کیا حال ہے آپ لوگوں کے دونوں نے مشترکہ سلام کیا۔
وعلیکم اسلام بچے! “ہم لوگ بالکل ٹھیک ہیں آپ لوگ سناؤ کیسے مزاج ہیں۔”
“جی انکل اللّه کا شکر ہے ہم لوگ بھی فٹ اینڈ فائن ہیں”۔۔۔عفاف نے پر جوش انداز میں جواب دیا خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی کیوں کے مسٹر آبص فاروق جو ساتھ میں نہیں آئے تھے۔
آ جائیں انکل آج لاؤن میں بیٹھتے ہیں موسم کافی خوشگوار ہیں۔۔ عفاف نے پیشکش کی۔
اوکے بیٹا جی جیسے آپ کہو انہوں نے حامی بھری۔
“آپ لوگ بیٹھیں میں باقی گھر والوں کو بلا کر لاتی ہوں”۔۔۔ ادیرا ان کو بیٹھنے کا کہہ کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔
فاروق صاحب اور رافعیہ بیگم ابراھیم صاحب کے پڑوسی تھے ان کے دو ہی بچے تھے آبص فاروق اور ساریہ فاروق ۔۔۔ساریہ کی شادی کچھ ماہ پہلے فاروق صاحب کے دوست کے بیٹے سے ہوئی تھی۔ آبص کے لیے بھی رشتہ ڈھونڈا جا رہا تھا دونوں ہی شوخ طبیعت کے مالک تھے آبص اپنے بابا کے ساتھ ان کا بزنس میں ہاتھ بٹاتا تھا ان سب کا بچپن ایک ساتھ ہی گزرا تھا ایک دوسرے کے گھر میں ان کا بہت آنا جانا تھا اب مصروفیات کی وجہ سے مہینے بعد ہی چکر لگاتے تھے۔ کبھی فاروق صاحب کے گھر اتوار کی شام گزرتی اور کبھی ابراھیم صاحب کے گھر میں شام کا اختتام ہوتا زندگی بڑے خوشگوار انداز میں گزر رہی تھی ۔
آہستہ آہستہ سب اپنے کمروں سے باہر آنا شروع ہوئے۔ عدیل صاحب اور احمد صاحب فاروق صاحب سے بغل گیر ہوئے۔ تب تک ادیرا بھی دادا جان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے باہر لے آئی تھی۔
السلام علیکم ! دا جی فاروق صاحب نے ابراھیم صاحب کو سلام کیا۔
وعلیکم اسلام !بیٹا جی دا جی نے انہیں بیٹھنے کو کہا جو ان کے ادب میں کھڑے ہوئے تھے اور رافعیہ بیگم کے سر پر ہاتھ رکھا۔
سب لوگ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔
سب عورتیں اپنی باتوں میں مصروف تھیں اور مرد اپنے بزنس کو موضوع گفتگو بنا کر بحث کر رہے تھے۔ چائے وغیرہ کا انتظام کرنے کے لیے ادیرا اور عفاف اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئی تھیں۔
“فاروق بیٹا آبص بیٹا نہیں آیا ” دادا جی نے پوچھا۔
جی دا جی وہ مارکٹ تک گیا ہے کچھ کام تھا اسے فری ہو کر ادھر ہی آ جاۓ گا۔۔۔ فاروق صاحب نے جواب دیا۔
“اچھا ! ” دا جی نے سر ہلایا۔
اسلام علیکم! عزیزو اقارب! آبص نے آ کر سب کو سلام کیا۔ سب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
وعلیکم اسلام ! کیسے ہو بیٹا نازیہ بیگم نے پوچھا ۔۔۔میں ٹھیک ٹھاک آپ کے سامنے ہوں۔ آبص نے شوخ لہجے میں کہا۔
“ماشاءالله ماشاءالله !” ردا بیگم نے آبص کی پیٹھ تھپ تھپائی۔
بانو ادیرا اور عفاف چائے اور باقی کے لوازمات لے کر آ رہی تھی عفاف جو اپنے ہی دیہان سے آ رہی تھیں کہ اچانک عفاف کے قدموں اور اس کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ کو بریک لگی جب اس نے سامنے وہی منحوس انسان دیکھا۔
“عفاف ادھر رکھو یہ سامان ۔۔۔”ادیرا نے اسے پکارا جو ایک ہی جگہ منجمند ہو گئی تھی۔
عفاف نے ٹیبل پر سامان رکھا اور ایک کرسی سمبھال کر بیٹھ گئی۔ موسم میں تو نہیں پر عفاف کے موڈ میں تبدیلی ضررور آئی تھی۔ موسم ابھی بھی کافی خوشگوار تھا ستمبر کا آغاز چل رہا تھا۔ ٹھنڈی ہوا سے ماحول اور خوشگوار ہو گیا تھا درختوں کے پتے بھی ہوا کے ساتھ محوِ رقص تھے
سب چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
“آنٹی اپنا شہزادہ نظر نہیں آ رہا “۔۔۔آبص نے نازیہ بیگم سے پوچھا۔
“وہ ابھی واپس آیا ہی نہیں ہے” انہوں نے جواب دیا۔
“شکر ہے ابھی نہیں آیا کافی سکون نہیں ہے گھر میں آبص بھائی کیوں آفت کا نام لے رہے ہیں۔۔۔” آیت کی طرف سے جملہ آیا تھا۔
“ارے ایسے تو نہ کہو شہزادہ ہے وہ شہزادہ گھر میں رونق اسی کے دم سے ہی ہے مان لو یہ میری بات۔۔” آبص نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا۔
“جانے دیں بھائی اس اکیلے کا ہاتھ نہیں ہے رونق تو ہم سب کے دم سے ہی ہے اس نواب کا صرف ایک ہی کام ہے روب جمانا۔”۔۔آیت نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
“چھوڑو آیت آفت آفت کی ہی سائیڈ لے گا “۔۔۔عفاف نے بھی آنکھیں گھماتے ہوئے گفتگو میں حصّہ لیا۔
“تم تو میرے منہ نہ ہی لگو تو بہتر ہو گا ورنہ اگلے پیچھلے حساب آج یہی پر انکل کے سامنے ہی بے باک کروں گا۔”
“ہنہ تمھارے منہ لگنا کون چاہتا ہے۔۔۔” اس نے منہ چڑھاتے ہوئے کہا۔
بچہ پارٹی ذرا دھیمے انداز میں ایک دوسرے کی عزت افزائی کر رہے تھے بڑوں کے سامنے ذرا تمیز کے دائرے میں ہی رہتے تھے۔
“آنٹی ساریہ سے بات ہوئی آپ کی ۔۔۔شادی کے بعد سے تو اس سے ملاقات ہی نہیں ہوئی ۔۔۔”ادیرا نے آنٹی رافعیہ سے استفسار کیا۔
ہو جاتی ہے کبھی کبھار بات آج بھی ہوئی تھی تو میں نے کہا تھا کے ہم آپ لوگوں کے گھر انوایٹڈ ہے تو کہہ رہی تھی جا کر میری بات کروائیے گا۔۔۔ آپ فون کر لو اس کو آنٹی کی بات پر وہ سر ہلا گئی۔
“ادیرا نے ویڈیو کال کی تھی ساریہ کو اور سب کو اس کی طرف متوجہ کیا تھا ۔ساریہ کے فون اٹھاتے ہی سب نے اس کو مل کر سلام کیا تھا اس نے سلام کا جواب دیا تھا سب کو ایک ساتھ بیٹھے دیکھ کر اس کی آنکھیں نم ہوئی تھی اس کے دل نے شدت سے دعا کی تھی کاش وہ ان کے ساتھ ہوتی۔”
“کہاں کھو گئی ساریہ۔۔۔ عفاف نے پوچھا۔ “
“کہی نہیں ادھر ہی ہوں اور سب کیسے ہو کیا ہو رہا ہے۔”
سب بالکل ٹھیک ہیں اور سب تمہیں بہت یاد کرتے ہیں کبھی اپنا دیدار بھی کروا دیا کرو بے مروت عورت ۔۔۔عفاف نے آخری بات طنزیہ کہی۔
ہاں میں لگاؤ گی چکر کسی دن آپ سب سے ملنے آؤں گی اب میں فون رکھتی ہوں چائے بنا لوں فراز آتے ہو گئے۔
“اوکے جناب اللّه حافظ سب نے یک زبان میں کہا۔”
“فون رکھتے ہی اس کی آنکھ سے ایک آنسو بے مول ہو کر اس کی جھولی میں گرا تھا یا اللّه مجھے صبر دے دے اس جنگل میں رہنے کے لیے اس نے ٹیشو لیا تھا اور اپنے ہونٹوں پر لگی ہلکی سی لپسٹک ہٹائی تھی کہ اگر ساس نے لگی دیکھ لی تو پھر نہ جانے کیا کیا باتیں سنایں گی اس نے کال سننے کے لیے اپنا حلیہ درست کیا تھا کہ اس سے کوئی سوال نہ پوچھے کام ہو گیا تھا اب اصل حالت میں واپسی ہی بہترین تھا۔”
ایک خوبصورت اور خوشگوار شام کا اختتام ہوا تھا ۔ فاروق صاحب کی فیملی رات کا کھانا کھا کر
اپنے گھرچلیں گے تھے ۔
٭٭٭٭٭