اے وقت ذرا سا تو تھم کر چل
ابھی بہت سے قصے رقم کرنے ہے ہمیں
ذرا سا ان لمحوں میں ٹھہر کر تو دیکھ
خود کو ایک یاد بنا کر تو دیکھ
کبھی بیٹھے فرصت میں تو کہا کریں گے
اس وقت میں بھی کیا یارانہ تھا
فقیہہ بتول
آنکھوں میں ایک آخری نظر قید کرنے کے لیے وہ سب جی بھر کر اس عمارت کو اپنے دل میں محفوظ کرنا چاہتے تھے۔آخری ملاقاتوں، آخری گفتگو میں ڈھیر سارے وعدے ہو رہے تھے۔ نئی منزل کی طرف بڑھنے کے لیے بے تاب مسافر پیچھے مڑنے کی یاددہانی کروا رہے تھے۔کبھی جدا نہ ہونے کے وعدوں پر عمل در آمد کرنے کا کہا جا رہا تھا۔اور ہر ایک کی زبان کا یہی کلمہ تھا کہ ہم کبھی جدا نہیں ہوں گئے۔
لیکن میں جانتی تھی وقت بدلے گا تو لوگ بھی بدلے گئے حالات خیالات اور مجبوریوں کے نام بھی بدلے گئے۔چار سال ہر روز یونیوڑسٹی جانا بھی آپ کی مجبوری تھی جہاں روز آنا ہمیں مشکل نہیں لگتا تھا وہاں ایک دن کے لیے پہنچنا ہمیں مشکل لگنے لگے گا۔
آخری دن کا سورج غروب ہونے کو تھا اور ہر کسی کی آنکھوں میں ایک سوال تھا، ایک خوف تھا، اور دل میں ایک دھیما سا دکھ تھا۔ وہ عمارت، وہ جگہ جہاں ہم نے اپنی سب سے زیادہ یادیں بنائیں، جہاں ہماری مسکراہٹیں، چھوٹے جھگڑے اور غم خوشیاں سمیٹی گئیں، وہ سب ایک لمحے میں پیچھے چھوڑنا تھا۔ ایک دوسرے سے وعدے کر کے، ہم دل کی گہرائیوں میں جانتے تھے کہ یہ وعدے تو بس لفظوں کا کھیل ہیں، کیونکہ زندگی کا دھارا ہمیشہ اپنے راستے پر چلتا ہے۔
ہم کبھی جدا نہ ہوں گے” یہ الفاظ آسمان کی طرح بلند تھے، لیکن حقیقت اس سے کہیں مختلف تھی۔ وقت کی دھار نے، حالات کے بدلتے ہوئے رنگوں نے، ہماری سوچوں اور ترجیحات کو یکسر بدل دینا تھا۔ جو ہمارے لیے معمول تھا، کل وہی ہمارے لیے مشکل ترین بن جائے گا۔
یہ چار سال کی محنت، وہ کلاسز، وہ سکون اور وہ اضطراب، سب کچھ ایک خواب کی طرح محسوس ہونے لگا۔ اور اب جب ہم ایک دوسرے سے آخری بار بات کر رہے تھے، ہر لفظ جیسے ایک کڑوا ذائقہ چھوڑ کر دل میں اتر رہا تھا۔
اب، یہ نئی منزلیں ہمیں پرانا رشتہ یاد دلائے گی اور دل میں ایک سنسناہٹ سی اُٹھا کرے گی۔ ان لمحوں میں، جب ہم اپنی آخری ملاقات کے وعدے کر رہے تھے، میں جانتی تھی کہ یہ وعدے بس دل کی خواہشیں ہیں۔ کل جب ہم ایک دوسرے سے دور ہوں گے، تو یہ یادیں ہی ہمیں ایک دوسرے سے جڑے رہنے کا واحد راستہ فراہم کریں گی۔
اس بار سمندر کی شور کرتی لہریں ٹھہر جائیں گی
اس بار ساحل کنارے پر سیپیوں موتی میں قید یادیں چھوڑ جائیں گی
وقت گزرے گا
وقت کے ساتھ ہم بھی ڈھل جائیں گے
برسوں بعد کبھی آنا ہوا ساحل کنارے تو
سیپیوں میں قید یادیں تو وہی ہو گی
مگر کہانی میں قید وہ منظر بدل جائیں گے
آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پر مسکان ہو گی
یاد آئے گا تو بس اتنا ہی
کبھی ہم بھی ان سفروں کے راہی ہوا کرتے تھے
فقیہہ بتول
ذہن میں ایک فلیش بیک چل رہا تھا یادوں کا سمندر اُمڈ اُمڈ کر ذہن کے پردوں پر لہرا رہا تھا۔ ان میں کیا کچھ نہیں تھا۔
مسکراہٹیں
قہقہے
آنسو
وہ نم آنکھیں
راز
وہ بے فضول سی باتوں پر گھنٹوں بحث کرنا
بلا وجہ ہی ہنستے جانا
ونڈو شاپنگ کے لیے جانا
ایک دوسرے کو منانا
ایک دوسرے کی تصیح کرنا
یونیورسٹی کی برائی کرنا
آغاز کہی سے ہوا تھا اختتام کہیں اور سے ہو رہا تھا۔ جب آئے تھے اجنبی تھے گھلنے ملنے سے لے کر ایک دوسرے کی زندگی کی مسکراہٹ بننے تک وہ سفر مکمل اور حسین لگنے لگا تھا ۔ جب چھوڑنے کا وقت آیا تھا تو ایسا نہیں تھا کہ پنجرے سے محبت ہو گئی تھی بلکہ اس پنجرے میں قید اُس ساتھی سے محبت ہو گئی تھی اور پھر وہ جگہ بھی خوبصورت لگنے لگی تھی۔ بہت سے لوگ ملے اور پھر بچھڑ گئے اور پھر کہیں نہ کہیں وہ مل گئے لیکن اس بار اگر بچھڑے تو پھر ملاقات نہیں ہو گی یہ ڈر ستانے لگا تھا۔ پڑھائی کا سلسلہ ختم ہوا تو دوستوں سے ملنا کا سلسلہ بھی منقطع ہونے والا تھا۔ ہوسٹل کے گیٹ پر کھڑے وہ لوگ آنکھوں میں آنسو لیے وہ سب یاد کر رہے تھےجو ان کو اس عمارت میں میسر آئے تھے۔ایک آخری بار گلے لگایا تو دل عجیب سا ہو گیا تھا۔
دوست کا نظر نہ آنا ایسا ہوتا ہے جیسے گلاب کے پھول سے خوشبو چلی گئی ہو جیسے آنکھوں کی تازگی دھندھلا گئی ہو۔آج یوں لگا جیسے دوست کو الوداع کہنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔
اور پھر وقت رخصت بھی آ گیا۔ اپنے سامان لیے وہ لوگ گیٹ عبور کر گئی تھیں۔کوئی سیدھا چل دیا تھا کوئی دائی سمت تو کوئی بائی سمت چل دیا تھا۔
نئی کہانی کے آغاز کے لیے کچھ کہانیاں اختتام ہو چکی تھیں۔ آسان نہیں ہوتا وہ لوگ وہ جگہ چھوڑ دیناجہاں زندگی کے حسین پل میسر آئے ہو۔لیکن دستور ہے جس جگہ پر آپ عمر بھر کے لیے نہیں آتےپھر اُس جگہ سے محبت ہو جانے کے بعد بھی وہ جگہ چھوڑنی پڑتی ہے اور یہ بھی دستور ہے جو عمر بھر کے لیے میسر نہیں ہوتا اس سے محبت فطری ہوتی ہے۔